جس کا خواب نہیں،اُس کی منزل نہیں

105

یہ 1996ء کی بات ہے۔ ایک اُستاد کلاس روم میں پڑھاتے ہوئے طلبہ کو’’ قانون‘‘ کی باریکیوں اور ایک کامیاب وکیل بننے کے گُر سکھارہا تھا۔ نہ جانے کب موضوع بدلا اور بات انسانی زندگی اور مقصدِ حیات کی طرف نکل گئی۔ اُستاد نے اِس موضوع پربھی شاندار انداز میں روشنی ڈالی۔طلبہ بھرپور توجہ کے ساتھ سننے میں مگن تھے کہ اِتنے میں ایک شاگرد اٹھا اور سوال کرتے ہوئے بولا:’’ سر، آپ کہتے ہیں کہ زندگی میں خواب دیکھنے چاہییں، اور جس کا کوئی خواب نہیں ہوتا اُس کی منزل بھی نہیں ہوتی۔ سر آپ کا اپنا خواب کیا ہے؟ اُستاد مسکرایا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں شاگرد کے سوال کو داد دی۔ پھر ہاتھ میں پکڑے کافی کے مگ سے ایک چسکی لی، اُس کو ٹیبل پر رکھا اور بولا:’’میں امریکہ کا صدر بنوں گا۔‘‘تمام طلبہ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے یوں جیسے اُستاد نے کوئی بڑا مذاق کر لیا ہو لیکن جب اُنھوں نے اُستاد کی آنکھوں میں جھلکتے عزم کو دیکھا توسمجھ گئے کہ یہ کوئی مذاق نہیں، بلکہ ایک بڑا خواب ہے۔

اُستاد کا نام بارک حسین اوباما تھا، دنیا نے جس کو دو دفعہ امریکہ کے صدر کے روپ میں دیکھا۔ اُن کی سیاسی پالیسیوں سے ہزار اختلاف کیاجاسکتا ہے لیکن ایک بڑا خواب دیکھنے اور پھر اُس کو پورا کرنے میں وہ ایک مثال ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جو باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اُس کی محبت سے محروم تھا۔ اپنا بچپن اور لڑکپن گورے بچوں کے شدید تعصب میں گزارا اور اِس چیز نے اس کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے بجائے مزید مضبوط بنا دیا تھا۔ اور پھر وہ بھی ایک دِن تھا کہ جب اُس کو باپ کی وفات کی خبر ملی، وہ کینیا گیا اور باپ اور دادا کی قبروں کے درمیان بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ مگر یہ بے بسی کے آخری آنسو تھے۔ اِس کے بعد جو اوباما اُٹھا تو پھر وہ اُٹھتا ہی چلا گیا۔ ہارورڈ سے ڈگری لی، لاء فرم میں نوکری کی، ٹیچنگ بھی کرتے رہے اور لیکچرر بھی بنے لیکن نظر اپنے خوابوں پر تھی اور اُنھی کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور پھر سینٹ کے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ 2004 میں اُنھیں کامیابی ملی۔ چونکہ وہ ایک واضح نظریے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، اِس وجہ سے 2008ء کے صدارتی انتخاب کے لیے اُنھیں امیدوار نامزد کیا گیا اور پھر تو واقعی مثال قائم ہوگئی۔ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ جیت گئے ۔یہی تاریخ اُنھوں نے 2012ء میں بھی دہرائی اور امریکی تاریخ میں دو دفعہ سیاہ فام صدر بننے کا اعزا ز حاصل کرلیا۔ لیکن درحقیقت اپنی اِس بات کو سچ ثابت کیا کہ’’ جس کا خواب نہیں ہوتا، اُس کی منزل بھی نہیں ہوتی۔‘‘

اشفاق احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ’’ غریب وہ نہیں جس کے پاس پیسے نہیں بلکہ غریب وہ ہے جس کے پاس خواب نہیں ۔ ‘‘
خواب، انسان کو تاریخ کے صفحات پرامر کرجاتے ہیں۔خواب انسان کو وہ حوصلہ دیتے ہیں جس کے ذریعے وہ مشکل ترین حالات میں بھی کچھ کر دِکھاتا ہے۔خواب ہی انسان کے دِل میں وہ آگ لگاتے ہیں جو اُس کو تڑپانے پر مجبور کرتے ہیں۔پھر انسان گرتے پڑتے بھی اُس تک پہنچتاہے اور اُس کو شرمندۂ تعبیر کردیتا ہے۔

’’خوابوں کی دنیا میں رہنے والا پاگل ہوتا ہے۔‘‘ہم نے شروع سے یہی سنا ہوتا ہے ۔’’ خواب مت دیکھو ،حقیقی دنیا میں آجاؤ، کیونکہ خواب ٹوٹیں گے تو تم بھی ٹوٹ جاؤ گے ،بڑی تکلیف ہوگی ،درد سے بلبلااٹھوگے ، چیخوگے ، چلاؤ گے اور کوئی مرہم لگانے والا بھی نہیں ہوگا۔‘‘

ہاں یہ سچ ہے کہ خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے ۔کبھی ٹوٹ بھی جاتے ہیں لیکن اپنے خوابوں کو ٹوٹتے دیکھنے کا حوصلہ بھی تو خدا کسی کسی کو دیتا ہے۔یہ عمل انسان کے دِل اور ظرف کو کشادہ کردیتا ہے اور اُس کو مزید خواب دیکھنے سے باز نہیں رکھتا بلکہ مسلسل اُکساتارہتا ہے۔اُس کو بے چین رکھتا ہے اور وہ ایک کے بعد ایک خواب دیکھنا شروع کردیتاہے۔

خواب وہ نہیں جو آ پ سوتے میں دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہیں جوآپ کو سونے نہیں دیتے۔سوتی آنکھوں اور جاگتی آنکھوں کے خواب میں یہی توفرق ہے ۔ نیند میں دیکھے گئے خواب بڑی جلدی ذہن سے مٹ جاتے ہیں لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب ہمیشہ دِل و دِماغ پر دستک دیتے رہتے ہیں، انسان کو سونے نہیں دیتے ، جگائے رکھتے ہیں، تڑپائے رکھتے ہیں اور اُس کو ’’نالہ نیم شب‘‘ میں رب کے سامنے آنسوبہانے پر مجبور کرتے ہیں۔شیخ سعدی شیرازیؒ کہتے ہیں کہ اللہ سے مانگنا ہو تو اپنی اوقات دیکھ کر مت مانگنا ، بلکہ اُس کی شان دیکھ کر مانگنا۔میرے نزدیک اپنے خوابوں کو بڑا کرنے کے لیے اِس سے بہتر جملہ کوئی اور نہیں۔

پانی کے لیے روانی ضروری ہے۔پانی اگر ایک ہی جگہ پر کھڑا رہے توپھر اُس کی شفافیت باقی نہیں رہتی ، وہ بہت جلد بدبودار جوہڑ میں بدل جاتا ہے۔ایسے ہی انسان کی زندگی اور اس کے خیالات و افکار میں روانی ضروری ہے ۔بچپن سے لڑکپن ، جوانی اور پھر بڑھاپے تک اگر انسان کی سوچ اور فکر میں کوئی تبدیلی نہ آئے،وہ مختلف طرح کے حالات اور لوگوں سے سبق نہ سیکھے ،آزمائش اور مشکلات بھی اُس کو نہ بدل سکیں ، نئے مواقع اور موافق حالات سے بھی اگر وہ فائدہ نہ اٹھاسکے تو پھر اُس کی زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کے تالاب جیسی بدمزہ بن جائے گی۔

زندگی میں پلٹ کر جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا بہت ضروری ہے اور پلٹنے ، جھپٹنے کا حوصلہ انسان کو اگر کوئی چیز دے سکتی ہے تو وہ ہے جاگتی آنکھوں کے خواب۔تاریخ نے ایسے لاتعداد انسانوں کو اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہے جن کے سر پر چھت نہیں تھی ، پاؤں میں جوتے نہیں تھے ، کھانے کے دو نوالے بھی نصیب نہیں تھے مگر اُن کے خواب سچے تھے ،اُن کے ولولے بلند تھے جو اُن کو نہ صرف اُن کٹھن حالات سے لڑنے کاحوصلہ دے رہے تھے بلکہ مسلسل محنت پر بھی ابھاررہے تھے ۔دُنیا سے ، لوگوں سے ، اپنے حالات سے اور حتیٰ کہ خود سے بھی بے نیاز ہوکر وہ لگے رہے ،چلتے ، دوڑتے ، بھاگتے ، گرتے پڑتے اور گھٹنوں کے بل سہی لیکن اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھتے رہے اور پھر ایک وقت آیا کہ جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب اپنی تعبیر پاگئے ۔پھر کوئی امام غزالی بنا ، کوئی جابر بن حیان تو کوئی ایڈیسن ، قائد اعظم ، علامہ محمد اقبال، اسٹیوجابز ، ڈاکٹر خالد جمیل تو کوئی ڈاکٹر امجد ثاقب۔

خواب کو جو چیز ایندھن فراہم کرتی ہے اُس کا نام شوق ہے۔اگر شوق نہ ہو تو پھر انسان کاخواب بھی کسی کام کا نہیں۔بغیر شوق اور محبت کے کوئی کام کرنا ، انسان کی توانائیاں چوس تو سکتا ہے لیکن کوئی شاندار رزلٹ نہیں دے سکتا۔آئن سٹائن کہتا تھاکہ’’ میں کوئی اعلیٰ دماغ یا سپر نیچرل(Super natural) انسان نہیں ہوں لیکن میرے پاس جنون کی صورت میں ایک ایسی چیز موجود ہے جس نے مجھ پر بہت سارے راز کھول دیے ۔‘‘وہ پاگل پن کی حد تک چیزوں کے پیچھے پڑا رہتا۔وہ سوالات پوچھتا ، جوابات کی تلاش کرتا اور اسی چیز نے اُس کو دنیا کا بڑا سائنس دان بنایا۔

کسی بھی Un-natural(غیر فطری) کام کرنے پر انسان کو زور لگانا پڑتا ہے اور اپنی استطاعت سے زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔یہ کیفیت کچھ وقت تک کے لیے تو جاری رکھی جاسکتی ہے لیکن مستقل برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔لیکن اگر اِسی کام میں انسان کی دلچسپی اور محبت ہو تو یہ اُس کو وہ انرجی دیتی ہے کہ پھر وہ اپنی بساط سے بڑھ کر بھی کوشش کرسکتا ہے اور راتوں کو جاگ کر بھی اُس کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہین انسان زیادہ ترقی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذہانت سے زیادہ مستقل مزاجی انسان کو کامیابی دِلاتی ہے۔مسلسل لگے رہنا اور ناامید نہ ہونا،وہ کنجی ہے جس سے انسان کامیابی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔کیونکہ وہ بار بار رب کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ ہمارے پڑوسیوں نے ہمارے گھر کچھ بھیجا ۔برتن خالی کرنے کے بعد میں واپس کرنے جاہی رہا تھا کہ امی نے پوچھا ’کہاں جارہے ہو؟ ‘میں نے کہا ’ یہ برتن واپس کرنے‘والدہ نے کہا’کوئی کچھ بھیجے تو برتن خالی واپس نہیں بھیجنے چاہییں۔‘پھر اُنھوں نے برتن میں کھانے کی کوئی چیز ڈالی اور مجھے کہا ’جائو اب واپس کرآؤ۔‘

ایک انسان اپنے اندر اِتنی خودداری رکھتا ہے کہ دوسرے کے برتن کو خالی بھیجنا گوارا نہیں کرتا تو اللہ کی ذات تو انسان سے زیادہ رحیم و کریم ہے ، وہ کیسے اپنے بندے کو مایوس کرسکتی ہے۔جب بندہ بار بار محنت کرتا ہے اور اپنی محنت کے برتن کو اللہ کے پاس بھیجتا ہے تو اللہ بھی اُس میں کامیابی ڈال کراُس کو واپس کردیتا ہے۔

مستقل مزاجی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انسان روز بروز خود کو بہتر کرتا جائے۔اپنے خوابوں کو پانے کے لیے زیادہ نہ سہی تو صرف ایک فی صد ہی خود کوروزانہ بہتر کرلیاجائے ، تو یہ قطرہ قطرہ مل کر دریا اور پھر سمندر بن جائے گا۔راڈی گینز جو کہ تیراکی میں اولمپک چیمپئن رہا ہے ، وہ کہتا ہے کہ میں نے چیمپئن شپ اِس لیے جیتی کہ میں روز اپنے آپ کو ہرانے کی کوشش کرتا تھا ۔پہلے دِن پانی میں جومیری تیراکی کی اسپیڈ ہوتی ، اگلے دِن میں اُس ریکارڈ کو توڑتا اور اُس سے کم وقت میں ٹارگٹ تک پہنچتا ۔

آپ جو بھی خواب دیکھیں ، اُس کو عظمت کے ساتھ جوڑ دیں۔آپ کا خواب صرف آپ کی ذات تک محدود نہ ہو بلکہ اللہ سے عہدکیجیے کہ جب بھی میرے خواب پورے ہوئے میں اُن کے ذریعے تیری مخلوق کی خدمت کروں گا۔خواب کے ساتھ کسی مقصد کو جوڑنا بہت ضروری ہے۔مقصد نہ ہو تووہ عظمت سے خالی ہوتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے 16ہزار لوگوں پر ایک تحقیق ہوئی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ’ کون سے لوگ اپنا کام کرتے ہوئے جلدی تھک جاتے ہیں اور کون سے بلا تھکان بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔‘معلوم ہوا کہ جو لوگ صرف پیسے کے لیے کام کرتے ہیں ، ایک وقت آتا ہے کہ وہ تھک جاتے ہیں،جبکہ جو لوگ ملک و قوم اور معاشرے کے لیے کام کرتے ہیں وہ تھکنے کے باوجود بھی لگے رہتے ہیں اور یہی چیز اُنھیں کامیابی دِلاتی ہے۔

اگر آپ نے خواب دیکھنے کی ہمت کرلی ہے تو اب آپ اپنے خواب کی تکمیل پر یقین بھی رکھیں ، کیونکہ یقین کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔اگر کرکٹ کا کھلاڑی گراؤنڈ میں اُترنے سے پہلے یہ سوچ رہاہو کہ آج میں نہیں کھیل سکوں گا تو اِس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ زیرو پر آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ آئے گا۔زندگی بھی کرکٹ گراؤنڈ کی طرح ہے۔آپ اگراِس میں اُترنے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھیں گے تو کوئی اسکور نہیں بناپائیں گے لیکن اگر آپ کو خود پر ، اپنی اہلیت پر اور اپنے خوابوں پر یقین ہو تو پھر آپ کو ریکارڈ بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

اور آخر میں نصیحت کے طورپر یہ بات بھی پلے سے باندھ لیجیے کہ اگر آپ کے خواب سچے ہیں تو اُن پر انگلیاں اٹھیں گی ، قدغن لگے گی اور لوگ بھی ہنسیں گے۔کیونکہ آپ نے معاشرے سے ہٹ کر کچھ کرنے کی جرات کی ہے ۔ اس جرات نے آپ کودوسروں سے ’’منفرد‘‘بنادیا ہے ۔آپ سیکڑوں میں ایک ہوگئے ہیں ، اِس وجہ سے آپ دوسروں کی تنقید کانشانہ بنیں گے لیکن یہ اِس بات کی بھی علامت ہے کہ آپ نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ درست ہے ۔اب آپ اپنے خوابوں کے ساتھ کس قدر سچے ہیں ، یہی سچائی آپ کو وہ حوصلہ دے گی کہ آپ ہر قسم کی تنقید اور نشتر زنی کے باوجود بھی اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہیں گے۔

زندگی کے سفر میں اختتام کہیں نہیں ہے ۔انسان اپنے آ پ کوفُل اسٹا پ خود لگاتا ہے۔وہ تب ہارتا ہے جب وہ اپنی ہار کا یقین کرلیتا ہے ۔اس لیے خواب دیکھتے رہیں ، آگے بڑھتے رہیں کیونکہ

ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں۔

Comments are closed.