ٹیکنالوجی نے راستے کھول دیے
(اکیسویں صدی کی ماڈرن اسکلز)

97

یہ اس وقت کی بات ہے جب انسان نعمتوں سے بھرپور اس دنیا میں موجود تو تھا، اس کے پاس آنکھیں، کان، ہاتھ اور پاؤں بھی تھے اور وہ طاقتور بھی تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ خوف اور اندیشے میں مبتلا تھا۔ اندیشہ اس بات کا کہ معلوم نہیں کل کچھ کھانے کو ملے گا یا نہیں؟ خوف تھا تویہ کہ نہ جانے کہاں سے کوئی درندہ آئے اور مجھے اپنی خوراک بنالے۔ اس کی ساری زندگی اسی فکر میں گھوم رہی تھی کہ بس اچھی خوراک مل جائے اور آرام کے لیے کوئی محفوظ جگہ مل جائے۔

خوف کی اس کیفیت نے اس کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور کیا۔ ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد بڑھنے لگا اور اس کا فائدہ انھیں یہ ملا کہ جنگلی درندوں اور زور آور دشمن کے حملے سے محفوظ رہنے لگے۔ وہ رات کو ایک ہی جگہ پر سوتے اور اپنے اردگرد آگ جلا لیتے۔ مورخین اس کو ’’پتھر کا دور‘‘ کہتے ہیں۔ اس وقت انسان فطرت کے بہت زیادہ قریب تھا۔ اس دور کا کامیاب انسان اس کو تصور کیا جاتا تھا جو طاقت اور قوت میں اپنی مثال آپ ہوتا۔ یہ ایک طرح سے بقا کی جنگ تھی جس میں اپنے بچاؤ کے لیے لڑنا اور مدمقابل کو ختم کرنا ضروری تھا، ورنہ شکست کی صورت میں موت یقینی تھی ۔

نہ جانے کتنے برس اور دہائیاں گزر گئیں، پھر تانبہ، پیتل اور لوہا دریافت ہوا جس نے اس کے لیے ترقی کے راستے کھول دیے۔ لوہا دیکھ کر انسان کے ذہن میں نت نئے آئیڈیاز جنم لینے لگے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ان دھاتوں سے مختلف قسم کی چیزیں بناکر زندگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آگ کا استعمال وہ پہلے سیکھ چکا تھا، چنانچہ لوہے کو گرم کرکے مختلف قسم کے ہتھیار بنائے جانے لگے۔ ہتھیاروں کا تصور سب سے پہلے انسان کے ذہن میں اس لیے آیا کہ اس کی خوراک کا دارومدار شکار پر تھا، چنانچہ لوہے سے اسلحہ بناکر شکار کو دور سے مارنا اس کے لیے ممکن ہوگیا اور یوں اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔

کچھ ہی عرصے میں انسان نے اتنی ترقی کرلی کہ تانبے ، پیتل اور لوہے کو استعمال میں لاکر مختلف طرح کی اشیاء ضروریہ بھی بنانے لگا ۔تیر ، تلوار اور ڈھال کا رواج زور پکڑتا جارہا تھا ۔انسان اب زندگی کے دوسرے پہلوئو ں میں بھی تمدن کی راہ پر چل پڑا تھا۔نئے شہر اور بستیاں آباد ہونے لگی تھیں اور اب وہ ایک سسٹم کے تحت حکومت اور بادشاہت بھی کررہا تھا،لیکن ابھی تک اس کا شعور لوہے کی دریافت سے آگے نہیں بڑھاتھا۔اس دورکا طاقتور وہی تھا جس کے پاس بہترین اسلحہ اور ہتھیار ہوتا۔اس زمانے میں وہی افواج کامیاب ہوتیں جن کے پاس جدید اسلحے کا وافر ذخیرہ موجود ہوتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کویہ بھی شعور ملا کہ زمین میں کچھ اگاکر اپنی خوراک کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اس نے کاشتکاری کی طرف قدم بڑھایا۔یہاں بھی لوہے جیسی دھاتیں اس کے خوب کام آئیں اور مختلف قسم کے اوزار بناکر اس نے زراعت میں استعمال کرنا شروع کیے۔وہ کھیتی باڑی کرنے لگا، مختلف قسم کی سبزیاں ، پھل اوراناج اگانے لگااور جن علاقوں میں سبزیوں اور پھلوں کی کمی تھی ، وہاں جاکر تجارت بھی کرنے لگا۔ چنانچہ قبیلوں ، قوموں اور ملکوں کی تجارت شروع ہوگئی اور اس کی بدولت وہ مزیدمہذب ہوگیا۔وہ مختلف علاقوں میں اپناغلہ لے کر جاتا، وہاں کے لوگوں سے جان پہچان بناتا ، ان کے رہن سہن کو دیکھتا اور واپسی میں اپنے ساتھ وہاں کی تہذیب بھی لے کر آتا۔

اب دنیا تہذیب و تمدن کے طریقے بہترین انداز میں سیکھ چکی تھی ۔زرعی انقلاب نے خوشحالی کے دروازے کھول دیے تھے ۔خوش قسمت اور طاقتور وہی تصور کیاجاتا جس کے پاس زرخیز زمینیں ہوتیں ، وہ اس میں زراعت کرکے اپنی کفالت بھی کرتا ، معاشرے کی ضرورت بھی پوری کرتا اور پھر باقی دنیا کوبھی یہ چیزیں برآمد کرتا۔پھر اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے درمیانے عرصے میں زمانے نے ایک اور کروٹ لی اور صنعتی انقلاب برپا ہوگیا۔سب سے پہلے برطانیہ میں یہ سوچ پروان چڑھی اور انسان و جانوروں کی مشقت سے چلنے والی معیشت میں مشین نے جگہ لے لی۔پہلے کپڑے اورپھر لوہے کی صنعت میں بھی مشین کا استعمال شروع ہوا۔مشین کی بدولت تجارت کا شعبہ وسیع سے وسیع ہوتا چلا گیا اور آبی راستوں، سڑکوں اور ریل کے ذریعے مواصلات اور ترسیل میں اضافہ و ترقی ہوتی گئی۔ دنیا میں بھاپ سے چلنے والے انجن متعارف ہوئے جنھیں کوئلے کی مدد سے چلایا جاتا، یہی دنیا میں عظیم ایجادتصور کی جاتی رہی۔برطانیہ سے اٹھنے والے اس انقلاب نے مغربی یورپ اور پھر شمالی امریکا میں بھی بھرپور پذیرائی حاصل کی اور پوری دنیا پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں نے انسانی تہذیب کو نئے خطوط پر استوار کیا اور مجموعی طور پر انسان ایک بہترین اور خوش حال زندگی جینے لگا۔

اکیسویں صدی میں ایک اور انقلاب آیا اور یہ صنعتی انقلاب سے دو ہاتھ آگے تھا۔یہ مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence) کا انقلاب تھا ، جس کی بدولت انسان نے ترقی کی معراج کو چھوا۔ اس انقلاب میں اول کمپیوٹر ایجاد ہوا ۔Z1، Macintosh اور AI تک کے سفر میں اس نے مختلف روپ دھارے ، بڑی تیزی سے ترقی کرتا رہا اور بالآخر وہ کمپیوٹر جس کا حجم ایک کمرے جتنا بڑا تھا ، آج انسان کے ہاتھ میں سماچکا ہے۔

انٹرنیٹ بھی اس دوران کسی سے پیچھے نہیں رہا، 2جی ، 3جی ،پھر 4جی اور اب 5جی کی ایجاد نے ترقیوں کے بے تحاشا راستے کھول دیے ۔آن لائن کلاسز کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کرتعلیم حاصل کی جانے لگی اورپھر یہ لطیفہ بھی مشہور ہوگیا کہ پہلے اسکول میں موبائل لانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اب پورا اسکول موبائل میں آچکا ہے۔تیز ترین انٹرنیٹ کی بدولت مروجہ کاروبار اور دکانوں کا تصور کم ہوگیا اور نئی نسل ای کامرس میں جوق در جوق شامل ہونے لگی اور ایک ہفتے میں ہی اتنا کمانے لگی جتنا ان کے والدین پورا مہینہ محنت کرکے کماتے تھے۔

میڈیکل سائنس کی ترقی نے بھی حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔کینسر اور ایڈز کا علاج دریافت ہوچکا ۔دِل کا بائی پاس ہونے لگا۔ڈی این اے کی مدد سے انسان کی پہچان ہونے لگی ۔ ایک مخصوص الگورتھم (Algorithm)کے ذریعے 10کروڑ کیمیائی مرکبات کا جائزہ لے کر ایسی اینٹی بائیوٹک ایجاد ہوگئیں جو لاعلاج امراض میں کام کرتی ہیں۔

سائنس نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے انسان کو چاند تک پہنچایااور پھر یہ سفر ہر دِن کے ساتھ بڑھتا ہی رہا۔نت نئے خلائی تجربات ہوتے رہے اور پھر ایلون مسک نے توآکر دنیا کو حیران ہی کردیا جب اس نے اعلان کیا کہ 2025ء تک انسان مریخ پرجانے کے قابل ہوجائے گا۔ڈیجیٹل دور کی اس ہوشربا ترقی نے پرانے علوم و فنون اورڈگریوں کی اہمیت کو ماند کردیا ہے ۔اس تیز رفتار دور میں ترقی وہی انسان کرسکتا ہے جو دنیا کی ضرورت کے مطابق اپنے اندر کوئی اسکل اور قابلیت پیدا کرلے اورا س کو پالش کرکے عملی میدان اختیار کرلے۔

’’پتھر دور‘‘ سے ’’آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘‘ کے دور تک کے تمام ادوار پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ہر دور میں ترقی اس انسان نے کی ہے جو اپنے دور کی ماڈرن اسکلزپر دسترس رکھتا ہو۔آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو بے حد آسان بنادیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی بڑا کانٹے دار ہوچکا ہے ۔آج کے دور میں کون سا انسان ترقی کرسکتا ہے اس کا جواب پانے کے لیے ہم ورلڈ اکنامک فورم( WEF)کی وہ تازہ ترین رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ آج کی دنیاکو کن اسکلز کی ضرورت ہے اور یہی وہ اسکلز ہیں جنھیں اپناکر کوئی بھی انسان نہ صرف آج کے زمانے میں بلکہ آنے والے سالوں میں بھی ترقی کرسکتا ہے۔

ان اسکلز کی تفصیل ذیل میں ہے:

(1)تخلیقی صلاحیت’’Creativity‘‘
اس کا مطلب ہے کچھ نیا سوچنا ،مسائل پیش آنے کی صورت میں اس کا بہترین حل نکالنا

(2)لوگوں کو جوڑناPeople Management
آپ مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ کس طرح تعلق بناتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ کس طرح جوڑتے ہیں۔
جو انسان نقطے جوڑنے کا فن سیکھ لے وہ اپنے مسائل کو بڑے احسن اندازمیں حل کرسکتا ہے۔عقل مندلوگ یہی کرتے ہیں ۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ کس نقطے کو کس سے جوڑا جائے تو وہ ایک خوبصورت شکل اختیار کرلیتا ہے۔دستیاب وسائل اور لوگوں کو جوڑنے کاکام ہم اپنے بچوں کو نہیں سکھاتے ،حالانکہ یہ ترقی کا تیز ترین ذریعہ ہے۔

(3)پریزنٹیشن اینڈ کمیونیکیشن اسکلز
اپنے خیالات کوتحریر و تقریر کی صورت میں دوسروں کے سامنے بہترین انداز میں پیش کرنا،دوسروں کی بات غور سے سننااور سمجھ کر جواب دینا، اپنی باتوں میں دلچسپی پیدا کرنا تاکہ سننے والے بوریت کا شکار نہ ہوں۔

(4)دوسروں کے سامنے خود کو اچھا پیش کرنا
میٹنگ میں شرکت کا طریقہ ۔انٹرویو دینے کا طریقہ ۔بات چیت کا طریقہ ۔مختصر یہ کہ آپ جو ہیں ، دوسروں کے سامنے خود کو بہترین انداز میں پیش کرنا

(5)ٹیبل مینرز
کھانا کھانے کا طریقہ ۔ٹیبل یا دسترخوان پر بیٹھنا۔سینئر یا جونئیر کے ساتھ کھانا کھانا۔کانٹا چھری کا استعمال ۔مشرقی اور مغربی اندازِ طعام ، مہمان نوازی کا طریقہ ۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہنا ، انھیں رخصت کرنا ۔تہذیب و شائستگی

(6)ڈریس مینرز
دیدہ زیب لباس کون سا ہوتا ہے؟کن کپڑوں کے ساتھ کون سا جوتا پہننا ہے؟کس موقع پر کون سا لباس زیب تن کرنا ہے؟Power Lookکیا ہوتی ہے؟اپنے بارے میں یہ جاننا کہ مجھ پر کون سا رنگ اور لباس جچتا ہے؟

(7)لیڈرشپ اسکلز
اپنے ماتحت افراد سے شاندار کارکردگی کیسے دلوانی ہے؟انسانوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے؟ٹیم کیسی بنانی ہے اور اس کو کیسے لے کر چلنا ہے؟

(8) لکھنے کی صلاحیت
ڈائری لکھنا ۔ بلاگ لکھنا ۔اخبار ، میگزین یا سوشل میڈیا کے لیے لکھنا ۔کسی بھی کونٹینٹ کو مرتب کرنا

(9)مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت
حوصلہ اور ہمت نہ ہارنا۔حالات کے خوف کو خود پر مسلط نہ کرنا۔بڑے سے بڑے مسئلے کو بہترین انداز میں حل کرنا

(10) خودا عتمادی
بلا وجہ کے خوف و ڈر کے دام میں نہیں آنا ۔اپنی خوداعتمادی سے خود کویہ ثابت کرنا کہ آپ اس مقام کے لیے سب سے زیادہ اہل ہیں۔

(11) تنقیدی سوچ
کسی کام کے بارے میں یہ سوچنا کہ یہ ایسا کیوں ہے؟اس میں کون کون سی خامیاں اور خوبیاں ہیں؟ اس کام کو مزید بہتر انداز میں کیسے کیا جاسکتا ہے؟

(12)ایموشنل انٹیلی جنس
اپنے جذبات پر قابو پانا۔غصے ، خوف ، حسد پر کنٹرول۔قوتِ برداشت کوبڑھانا۔نفس کو لگام دینا۔

(13) فیصلہ سازی کی صلاحیت
سوچ سمجھ کر اور تجزیہ کرنے کے بعد فوری فیصلہ کرنا ۔تذبذب کی کیفیت کو ختم کرنا ۔اپنے فیصلے کی ذمہ داری بھی خود قبول کرنا۔غلط فیصلے کو تسلیم کرلینا

(14) مکالمہ بازی کی صلاحیت
دوسرے انسان کے مزاج کو سمجھ کر اس کے مطابق گفتگو۔آواز سے زیادہ دلیل اونچی رکھنا۔شائستہ انداز میں اختلاف رائے رکھنا ۔

تو پیارے پڑھنے والے! آج کا دور کیسا ہے ،اس کے تقاضے کیا ہیں ، آج ٹیکنالوجی کہاں پہنچ چکی ہے اوروہ کون سے گُر ہیں جنھیں اپناکر آپ اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرسکتے ہیں،یہ سب چیزیں آپ کے سامنے آگئیں اور مسئلے کا حل بھی آپ کے ہاتھ میں تھمادیا گیا ۔اب یہ آپ کے جذبے ، ہمت اور کوشش پر منحصر ہے کہ آپ اپنے ساتھ کس قدر سنجیدہ ہیں اور خود کو زندگی میں کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں؟

ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ آج ٹیکنالوجی کا جن بے قابو ہوچکا ہے اور اس نے ہر انسان کو اپناقیدی بنالیا ہے ۔سوشل میڈیا کے طوفان میں بہہ کر آج ہر شخص مقصدیت کھوبیٹھا ہے اوربڑی لاپرواہی کے ساتھ اپنا قیمتی وقت اور ذہنی صلاحیتیں ضائع کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ اچھی بات یہ بھی ہے کہ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت آج کچھ بھی حاصل کرناناممکن نہیں رہا۔راستے کھل چکے ہیں ۔مواقع بن چکے ہیں ۔کاروان تیار ہو چکا ہے اور سفر پر روانہ بھی ہوچکا ہے ، بس ضرورت ہے تو اس بات کی کہ آپ خود کوکسی مقصد ، ہدف اور ٹارگٹ کے ساتھ جوڑلیں ، اپنی زندگی سے وہ تمام چیزیں نکال دیں جو آپ کا قیمتی وقت ضائع کررہی ہیں۔جدید اسکلز کو اپنا توشہ بنالیں ، رخت سفر باندھ کر نکل پڑیں اوراپنا سفر جاری رکھیں تو وہ دِن دور نہیں جب منزل آپ کے قدموں میں ہوگی۔

Comments are closed.