تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا BAT تو مل گیا لیکن الیکشن کھٹائی میں پڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں اگر اسٹبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان سمجھوتہ نہ ہوا تو اسٹبلشمنٹ آزادنہ طور پر تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اس وقت تک الیکشن افورڈ نہیں کرسکتی چونکہ زمینی حقائق کے مطابق تحریک انصاف ساری پارٹیوں کو ووٹ کے ذریعے 8 فروری کو بلڈوز کرسکتی ہےعقل و دانش کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک اور قوم کی بہتری کیلئے عوام کی رائے کو مقدم رکھا جائے ملکی اسٹبلشمنٹ کو بیرونی مداخلت کو خیر باد کہنا چاہیے اور اپنی قوم کی نبض کے مطابق فیصلے کرنے چاہیئے ہمارے ملک کی کل آبادی250 ملین کے قریب ہے جس کی پارلیمنٹ، عدلیہ انتظامیہ اور ایک مروّجہ آئین موجود ہے چھ لاکھ ریگولر آرمی ہے ملک ایٹمی طاقت ہے مقتدرہ اور عمران خان دونوں کو ایک لائن لگانی ہوگی Enough is Enough پیشاور ہائی کورٹ کا انتخابی نشان کے بارے میں فیصلہ ہو یا پھر منگل والے روز کا سپریم کورٹ کا سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ ہو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں دبائو ڈر و خوف تقسیم اور ڈویژن کے باوجود حالات کو زبردستی کنٹرول نہیں کیا جاسکتا تحریک انصاف بحیثیت ایک سیاسی جماعت اس وقت واحد متوسط طبقے کی اکثریتی وفاق کی حامل جماعت ہے جو تمام اکائیوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ عرصے سے خیبرپختونخوا کے لوگوں نے اپنی ایک الگ سوچ اپنا رکھی ہے اور یہ ایک حساس اور خطرناک رحجان ہے بیرسٹر گوہر کو تحریک انصاف کا چیرمین مقرر کر کے عمران خان نے پشتونوں کو ان کی تحریک انصاف کے ساتھ وفاداری کا صلہ پارٹی کی اونرشپ کی صورت میں دے دیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کی نظر ہے افغانستان سے پاکستان میں مسلسل دہشت گردانہ کارروائیاں ہورہی ہیں بیرونی طاقتوں کی نظر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے انہیں پاکستان کی مضبوط فوج اور ہمارے ایٹمی اثاثے کھٹکتے ہیں انکی نظریں اسی طرف ہیں اب اگر انتخابات 8 فروری سے آگے چلے گئے تو بڑا آئینی بحران پیدا ہوگا نگران حکومتوں کی معیاد ختم ہوچکی ہے جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں پاکستان آئی ایم کی سخت شرائط پر چل رہا ہے معیشت تباہ حال ہی نہیں بلکہ بیڑہ غرق ہوچکا ہے چوکیدار نگرانوں سے جتنی مرضی انگریزی زبان میں بات چیت کروا لیں ان کو کوئی ملک کے اندر اور باہر کوئی سنجیدہ نہیں لیتا اور نہ ہی ان پر کوئی اعتماد کرتا ہے ان کے سارے اچھے بُرے کام اسٹبلشمنٹ کے کھاتے میں جارہے ہیں عوام میں یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ یہ نگران سارے آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہے ہیں پس پردہ اسٹبلیشمنٹ کے فیصلے ہیں جن پر عملدرآمد ہو رہا ہے ان حالات میں عوام بے چینی اور فرسٹریشن میں اداروں سے دوریاں پیدا ہو رہی ہیں عوام اور فوج لازم و ملزوم ہیں دونوں کا ایک پیچ پر ہونا پاکستان کے وجود کے قائم رہنے کی ضمانت ہے پاکستان کے سابق سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا ایک انٹرویو حال ہی میں سننے کا موقع ملا انہوں نے بھی کم و بیش یہی باتیں عمران خان اور اسٹبلیشمنٹ کے گوش گزار کی ہیں کہ ایک ماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اس stand-off میں بریک تھرو لازمی ہے وگرنہ حالات بے قابو ہوجائیں گے۔
بقول جنرل لودھی عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف جناب عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے دوران پی ٹی آئی کے ان مظاہروں کو روکوایا ہے جو امریکہ میں چیف اف ارمی سٹاف کے دورے کے دوران شیڈول تھے جبکہ عمران خان نے جیل سے پی ٹی آئی کے ورکروں کو پاک فوج کے خلاف کسی پلیٹ فارم پر بھی ہرزہ سرائی کرنے والوں کو سختی سے منح کردیا ہے یہ مثبت اقدامات ہیں جس کو سراہنا چاہیئے جبکہ عمران خان پر جتنی سختیاں کی جارہی ہیں اس کا عوام میں الٹا اثر پڑ رہا ہے جس کی تازہ مثال انگریزی اخبار دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والا مضمون ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اور سوال یہ ہے کہ 10 اپریل 2022 کے بعد ملکی انتظام و وانصرام چلانے کے لئے جو بھی بندوبست کئے گئے ہیں اس کا نتیجہ ملک اور قوم کی بہتری کی صورت میں نکلتا تو پھر بلاشبہ اسی بندوبست کے ساتھ آگے بڑھنے میں کوئی حرج نہیں ملک کا خالی خزانہ دیکھ لیں زراعت،صنعت، صحت روزگار اور ملک میں ترقی دیکھ لیں کتنی ہوئی لوگوں کا معیار زندگی کیا بہتر ہوا؟ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی اس وقت افراط زر اور مہنگائی 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے جو ہمارے ملک کے معاشی اعداد وشمار دیئے ہیں وہ دیکھ لیں 25 کروڑ کی آبادی میں سے 9 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں 2 کروڑ 80 لاکھ بچے وہ ہیں جنہوں نے سکول کی کبھی شکل نہیں دیکھی 25 لاکھ نوجوان ہر پڑھ لکھ کر ہر سال روزگار کے قابل ہو رہے ہیں جنہیں نوکریاں چاہیئے ملک کسی مخصوص سوچ کے دائرے میں نہیں چل سکتا میں دست بدسہ ملتمس ہوں ارباب اختیار کی عقل و دانش مجھ سے زیادہ ہوگی لیکن میں تسلیم اس لئے نہیں کرتا کہ نتائج ملک اور عوام کی بہتری کے لئے دکھائی نہیں دیتے ایک شخص کو اقتدار میں نہ آنے دینے کے لئے ملک کو اس طرح چلانا کہاں کی دانش اور فہم و فراست ہے افراتفری، نفرت، لاقانونیت اور خوف و ہراس کے اس ماحول میں گھٹن محسوس ہوتی ہے بیرون ملک مقیم تارکین وطن ملک کے بلامعاوضہ سفیر ہیں جو ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں وہ ملکی معاملات سے لاتعلق ہو گئے ہیں ہر طرف ایک سوال ہم کدہر جا رہے ہیں اور دنیا کدہر جا رہی ہے۔
عمران خان 92 ورلڈکپ کر کٹ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے ، نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال کی وجہ اور سابق وزیراعظم کی حیثیت سے بہرصورت پاکستان کی تاریخ میں زندہ اور زیر بحث رہے گا سیاست میں اس کی غلطیاں، انا ضد اور جزباتی فیصلے اپنی جگہہ موجود ہیں جو کسی صورت بھی لائق تحسین نہیں پھر بھی ہونا تو یہ چاہیے کہ اسے بھی باقی جماعتوں کے سربراہان کی طرح اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیا جائے جن معاشروں نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنے لئے ایک نظام کو وضع کیا ہے اور سختی سے اس پر ملک کی ساری اکائیوں نے عملدرآمد کرنے کی ٹھانی ہے اور اپنی اپنی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس کے آگے سرنڈر کیا ہے اسی لئے وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے ہیں ان ترقی یافتہ معاشروں میں شخصیات کسی طور پر بھی طاقتور نہیں بلکہ ریاست اور اس کے قوانین طاقتور ہیں عمران خان اور پی ٹی آئی سے لڑائی کی خاطر جو ملک کا نقصان ہو رہا ہے جو کشمکش ہے اس کا جلد خاتمہ ضروری ہے ساری جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی آزادنہ اجازت دی جائے سیاست دانوں کو ملک چلانے دیا جائے تاکہ ہم بھی ہمارا ملک ایک عظیم ملک اور قوم تر بنیں اپنے لوگوں کی چیخیں نکالنے اور گھروں میں گھس کر مارنے میڈیا کا گلہ دبانے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے سے ملک اور قوم کو پتھر کے زمانے میں دوبارہ دھکیلنے کے مترادف ہے اللہ حامی و ناصر
Comments are closed.