’’بند راستہ بھی درست راستے کی رہ نمائی کرتا ہے!‘‘(میسن کولی)
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ انسانی زندگی کا سفر ضرورت سے جڑا ہوا ہے۔ ضرورت کا کمال یہ ہے کہ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ ضرورت ہے۔ انسا ن کبھی چلو میں پانی پیتا تھا، جب تسلی نہ ہوئی تو پہلے پیالہ پھر گلاس بنا لیا۔ اگر چلو سے گلاس تک کے سفر کو لیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح انسان نے اپنی آسانی کیلئے اور بہت ساری اشیا بنا لیں۔ لیکن ان چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کو ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت رہی۔
قدرت نے ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا کیے جن کافہم، جن کی عقل، جن کی سمجھ اور جن کی دانش زمانے سے بہتر تھی۔ وہ اپنے فہم اور فکر میں اتنے بلند تھے کہ اس وقت کو بھی دیکھ رہے ہوتے تھے کہ جس وقت کو زمانہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ہر دَور میں ان کی سنگتیں، ان کی محفلیں، ان کی گفتگو اور ان کی تبلیغ لوگوں تک پہنچتی رہی۔ یہ سارا سلسلہ چلتے چلتے آگے بڑھا۔ مادی دنیا میں نئی سے نئی چیزیں بنتی رہیں، لیکن کبھی رہ نمائی کی اہمیت ختم نہیں ہوئی۔ ہر دور میں رہنمائی، رہنما، استاد، مرشد اور مربی کی اہمیت باقی رہی ہے۔
جس طرح گلاس کے سفر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، اسی طرح رہنما اور رہنمائی کے سفر پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، کیونکہ یہ انسان کا ذاتی سفر ہے۔ اس سفر میں بے شمار چیزیں شامل ہوئیں جیسے کلچر، مذہب، علاقائی رسم و رواج، لوگوں کے تجربات، جہالت و تبدیلی وغیرہ وغیرہ۔ ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب بادشاہ وقت کو سجدہ لازم تھا، لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ جس دَور میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(مفہوم) ’’اگر تمہارے احترا م سے لوگ کھڑے ہو رہے ہیں اور تمہارے دل کو اس سے راحت محسوس ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تمہاری آخرت ضائع ہوگئی۔‘‘
سیکھنے سکھانے کے انداز، ادب اور تعلقات کے اطوار چلتے چلتے جب اس دور میں آتے ہیں تو معلومات اور علم کی اتنی بھر مار ہے کہ رہنمائی کیلئے دانشور اور استاد کی اہمیت کم ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھ گئی۔
سچی طلب کا حیرت انگیز واقعہ
حضرت امام ابن حنبلؒ ایک دفعہ سفر کر رہے تھے۔ پیسے ختم ہوگئے تو سوچا کہ کسی مسجد میں جاکر رک جاتے ہیں۔ مسجد میں گئے۔ رات کے پچھلے پہر مسجد کے رکھوالے نے انھیں باہر نکال دیا۔ باہر بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا، آپ میرے ساتھ چلیں۔ میرے گھر میں ٹھہر جائیں ۔ جب دونوں گھر چلے گئے توآپؒ نے دیکھا کہ وہ آدمی مصلے پر بیٹھا گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہاہے۔ جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو آپؒ نے پوچھا، تم اللہ تعالیٰ سے کیا دعا مانگ رہے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ میر ی بہت سی خواہشیں تھیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے پوری کردیں۔ بس ایک خواہش رہ گئی ہے جو آج تک پوری نہیں ہوئی۔ آپؒ نے پوچھا، وہ کیا خواہش ہے۔ اس نے کہا، میری خواہش یہ ہے کہ وقت کے امام حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے میر ی ملاقات ہوجائے۔ آپؒ رودیے اور کہا کہ تمہاری طلب اتنی سچی تھی کہ مجھے گھسیٹ کر تمہارے گھر تک لایا گیا۔ یہ معاملہ جتنی سچی طلب سے جڑا ہوا ہے، کسی اور چیز سے نہیں جڑا۔
حضرت مولانا رومؒ کلاس میں بیٹھے در س دے رہے تھے۔ پیچھے اُن کی لکھی ہوئی کتابیں رکھی تھیں۔ اسی دوران ایک درویش آیا اور کہاکہ تم کیا پڑھا رہے ہو اور یہ کتابیں کیسی ہیں؟ مولانا رومؒ نے فرمایا، باباجی چھوڑیں، آپ کو کیا پتا یہ کیا ہے۔ یہ صرف و نحو کی باتیں ہیں۔ آپ جائیں۔ درویش کو جلال آیا او رکتابیں تالاب میں پھینک دیں جس کی وجہ سے کتابیں خراب ہونے لگیں۔ مولانا نے یہ حالت دیکھی تو رو پڑے اور کہا، آپ نے میری زندگی کی کمائی ضائع کردی۔ درویش نے کہا، گھبراؤ نہیں۔ انھوں نے پانی میں ہاتھ ڈالا، خشک کتابیں جھاڑیں اور واپس رکھ دیں۔ مولانا رومؒ نے کہا، یہ کیا ہے؟ درویش نے جواب دیا، تم صرف و نحو کی باتیں کرو، یہ میرا کام تھا۔ یہ کہہ کر وہ درویش چل پڑا اور غائب ہوگیا۔ مولانا رومؒ سے رہا نہ گیا اور اس درویش کی تلاش میں نکل گئے یہاں تک کہ تین سال گزر گئے۔ تین سال بعد کہیں جاکر وہ درویش ملے توحضرت مولانا جلال الدینؒ پاؤں پڑگئے اور کہا کہ مجھے معافی دے دیں، مجھے آپ کو تلاش کرنے میں تین سال لگ گئے۔ درویش نے مڑ کر کہا، تمہیں تو صرف تین سال لگے ہیں، مجھے تم جیسا سچا شاگرد تلاش کرنے میں تیس سال لگ گئے۔ طلب اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ خود راستے بنا لیتی ہے۔
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا رہنما اس کی سچی طلب ہے۔ یہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ بعض اوقات جھوٹے پیر سے بھی فائد ہ دے جاتی ہے۔ تاریخ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا سفر کسی جھوٹے فرد کے ساتھ طے کیا، لیکن قدرت دیکھ رہی تھی۔ اس نے ان کے خلوص کا ایسا انعام دیا کہ ہدایت مل گئی۔ حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے پوچھا، مجھے سچا پیر نہیں ملتا۔ انھوں نے جواب دیا، ایک ہفتے بعد بات کریں گے۔ ہفتے بعد اس سے پوچھا، بھائی تمہارا کیا سوال تھا۔ اس شخص نے کہا، میں سوال بھول گیا۔ آ پؒ نے جواب دیا، جس سوال کو تم ایک ہفتہ نہیں رکھ سکے، اس کا جواب کہاں سے ملے گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پیٹ میں درد ہو اور مریض دوائی لینے جائے لیکن راستے میں لگے میلے میں چلا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ پیٹ میں درد نہیں ہے یا پیٹ کا درد ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
اگر طلب ہے تو دعا کرو
سچی طلب انسان کو بھگاتی ہے، رلاتی ہے، دعا مانگنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ گلی گلی دوڑاتی ہے۔ ہم کنفیوژ لوگ ہیں۔ اول تو ہم دعا ہی نہیں کرتے۔ کرتے ہیں تو اپنی دعاؤں پر بھی شک کرتے ہیں کہ پتا نہیں یہ قبول ہو گی کہ نہیں۔ ہم جب اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہوتے ہیں تو ہم ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جیسے وہ لوگوں کی طرح (معاذاللہ) کم ظرف ہے۔ وہ تو کائنات کی اعلیٰ ترین ظرف والی ذات ہے۔ جب ہم اس سے مانگتے ہیں تو سوچنا چاہیے کہ ہم کس سے مانگ رہے ہیں۔
ایک بزرگ واقعہ سناتے ہیں کہ مجھے ایک آدمی کی تلاش تھی، لیکن وہ مل نہیں رہا تھا۔ خاصی محنت اور تگ ودو کے بعد اس کا پتا لگا کہ وہ فلاں شہر میں رہتا ہے۔ اس کے پاس فون نہیں تھا۔ پڑوسیوں کے گھر فون تھا۔ میں نے فون پر اس سے رابطہ کیا۔ جب اسے میرا پیغام پہنچا تو اس نے جواب میں پیغام بھیجا کہ کل صبح میرے ساتھ ناشتا کرنا، کیونکہ میں تمہار ا شدید انتظارکر رہاہوں۔ بزرگ کہتے ہیں، میں بڑا حیران ہوا کہ مجھے صبح کے ناشتے ہی میں کیو ں بلایا۔ خیر میں جب اس کے پاس پہنچا تو ناشتا تیار تھا۔ ہم نے ناشتا کیا جو میں نے ان سے پوچھنا تھا، پوچھ لیا تو اس نے کہا، اب آپ جاسکتے ہیں۔ جب میں واپس اپنے گھر پہنچا تو مجھے ایک پیغا م ملا کہ آپ جس سے ملاقات کرکے آئے ہیں، ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ پتا نہیں وہ کب سے انتظار میں تھا کہ مجھے اس کو یہ باتیں سکھانی ہیں۔ ہم نے جو سیکھنا ہوتا ہے، وہ بھی رزق کی طرح بہانوں بہانوں سے چلتے چلتے دروازے پر آجاتا ہے یا پھر بعض اوقات آدمی خود اس تک پہنچ جاتا ہے۔
کیا ہم خود سچے نہیں
ہمیں سچا مرشد یا سچے لوگ اس لیے نہیں ملتے کہ ہم خود سچے نہیں ہوتے، کیو نکہ جھوٹا جھوٹے کی تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ سچے کی تلا ش کا نام ہی سچ ہے۔ طلب کا سچا ہوناراستے کو آسان کر دیتا ہے۔ آج تک کسی رانجھے نے کسی سے پوچھ کر کسی ہیر سے عشق نہیں کیا۔ جیسے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ اس عورت میں ممتا کی محبت ڈال دیتا ہے، اسی طرح کبھی بھی پوچھ کر ادب نہیں ہوتا، سیکھ کر ادب نہیں ہوتا۔ یہ وہ قدرتی انداز ہے جو خود بہ خود ہوجاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی میں کچھ ہو اور اس کیلئے ہمار ی نگاہیں نہ جھکیں اور اس کیلئے احترا م پیدا نہ ہو۔ ہم لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے کتنی عقیدت سے جھک رہے ہیں اور اسی کو عقیدت سمجھ لیتے ہیں۔ ہم جو احترام کرتے ہیں، یہ سیکھا ہوا نہیں ہوتا، یہ دل کا رجحان ہوتا ہے۔ یہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہوجاتا ہے۔ جب ہم عقیدے کو لے کر عقیدت ماپتے ہیں تو کنفیوژ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کے عقیدوں کو ماپنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ سوال خود لاگو کرنا چاہیے کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے، ہمارا خدا سے تعلق کیا ہے۔ میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان آنے والی چیز اصل ایشو ہے اور وہ میرا ہے، کسی اور کا نہیں ہے۔
تعلق کی ضرورت
اکثر ہمارا جی یہ چاہتا ہے کہ ہم جیسے ہی دو بول بولیں، یہ دنیا بدل جائے۔ ہم جہاں جائیں، ہمارے لیے تالیاں بجیں، پھو ل نچھاور کیے جائیں۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’بغیر تعلق کے تبلیغ بالکل ایسے ہی ہے جیسے غیر زبان میں تقریر۔‘‘ اگر تعلق نہیں ہے تو تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ پرابلم ہے جو تبلیغ کرنے والے کرجاتے ہیں، کیونکہ جب آپ بغیر تعلق کے تبلیغ کرتے ہیں تو آپ کلمے میں تو شامل کرتے ہیں لیکن روٹی میں شریک نہیں کرتے۔خلوص صرف زبان کی حد تک ہوتا ہے۔ تبلیغ تعلق سے ہوتی ہے۔ وہ تعلق چاہے نفرت کا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نفرت نے کبھی محبت میں بدلنا ہوتا ہے۔ اگر روز کوڑا پھینکا جائے اور سامنے کائنات کی سب سے معتبر ہستی ہو تو نفرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمیں بات نہیں منوانی ہوتی، ہمیں اپنا آپ منوانا ہوتا ہے۔ اگر ہم سچے نہیں ہیں، ہمارا معاملہ ٹھیک نہیں ہے، ہمارے کردار میں کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کے ساتھ تبدیلی کی جنگ لڑیں گے تو ہار جائیں گے۔
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی صادق اور امین ہو، چاہے وہ چھوٹے حلقے میں ہی ہو، اس کی بات سنی جاتی ہو۔ اگر وہ معاملے میں ٹھیک نہیں ہے تو بات نہیں سنی جائے گی۔ تنگ دل انسان تبلیغ نہیں کرسکتا۔ وہ کبھی اچھا استاد نہیں ہوسکتا، کیونکہ استاد کا اگر دنیا میں کوئی دوسرا نام رکھا جائے تو سخی سے خوبصورت کوئی لفظ نہیں ہے۔ علم کے معاملے استاد سخی ہوتا ہے۔ ہماری شاید کوئی وراثت آگے نہ جائے، لیکن علم ایک واحد چیز ہے جو مرنے کے بعد بھی ساتھ چلتا ہے۔ ایک پہلوان مرنے لگا تو کسی نے اسے طعنہ دیا کہ تمہار ی تو کوئی اولاد نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا، نہیں، میں بے اولاد نہیں مرسکتا کیونکہ جو سو کو سکھا دے، وہ بے اولاد تو نہیں ہوتا۔ وہ سو ہی اس کی اولاد ہوتے ہیں۔ مرشد کی اصل اولاد وہ ہوتے ہیں جنھوں نے اس سے سیکھا ہوتا ہے۔ وہ ا س کے علم کے محافظ ہوتے ہیں۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’مسجد سے جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ساتھ لے کر جاؤ۔‘‘ اس ساری محفل میں ایک نہ نظر آنے والی طاقت بھی ہے۔ اگر ہم سب کا یقین ہے کہ وہ دیکھ رہی ہے تو پھر معاملہ کچھ اور ہوگا، اور اگر خیال ہے کہ وہ نہیں دیکھ رہی، صرف مسجد میں دیکھتی ہے تو پھر یہ منافقت ہے۔