آپ کا مستقبل آپ کے ماضی جیسا نہیں ہونا چاہیے! (ٹونی روبنس)
یہ ٹونی روبنس کی کتاب Notes from a Friend کا خلاصہ ہے جس میں ٹونی روبنس نے اپنا فلسفہ بیان کیا ہے۔ ٹونی روبنس کا شمار دنیا کے ان اسپیکر ز میں سے ہے جس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا۔ یہ حجم کے اعتبار سے چھوٹی سی کتاب ہے، لیکن اس کا انداز عوامی ہے۔ اس کو کتاب بہ آسانی ایک دونشستوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کا آغاز ایک گھر کی کہانی سے ہوتا ہے جس میں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں ہر وقت میاں بیوی کی لڑائی رہتی ہے اور اس لڑائی کی وجہ سے اُن کا بچہ ہر وقت سہما سہما رہتا ہے۔ بچہ ایک دن کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک دن میرے والدین آپس میں لڑ رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک شخص ہاتھ میں گفٹ لیے کھڑا تھا۔ اس نے وہ گفٹ مجھے دے دیا۔ جب میرے والد نے دیکھا تواس نے اسے لینے سے انکار کردیا، لیکن جب اس شخص نے اصرار کیا تو وہ گفٹ ہم نے لے لیا۔ جب اس نے یہ تحفہ کھولا تو اس میں ایک پرچی تھی جس پر لکھا ہوا تھا، ’’یہ آسانی آپ پر اس لیے ہو رہی ہے کہ کبھی اسی طرح کسی اَن جان نے یہ تحفہ بھیجنے والے پر آسانی کی تھی۔ آج اسی آسانی کا بدلہ کسی انجان پر اتار رہا ہوں۔‘‘
اس کہانی کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم پر کسی نے نیکی کی ہوتی ہے، ہم اس کا جواب دینے کیلئے کسی انسان کو تلاش کرتے ہیں اور اس پر نیکی کرتے ہیں اور اس طرح نیکی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ٹونی روبنس کہتا ہے کہ یہ کہانی کسی اور کی نہیں ہے، میری اپنی ہے۔ میرے گھر میں غربت اور افلاس تھی، لیکن میری زندگی اس بے لوث انسان کے تحفے کی وجہ سے بدل گئی۔ اس تحفے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’جب تک انسان اپنے قابل نہ ہوجائے، تب تک وہ دوسروں کے قابل بھی نہیں ہوتا۔‘‘ ہمیں مدد وصول کرنے سے مدد کرنے تک کا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم مدد لینے والے کو مدد دینے والا بنادیں تو ہم نے معاشرے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔
حالات کا سامنا
ٹونی روبنس کہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں جتنے بھی ناپسندیدہ حالات کیوں نہ ہوں، اصل میں وہ حالات ہی آپ کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے آدمی کو ایسے حالات سے پالا پڑجاتا ہے جو وہ نہیں چاہتا۔ اصل میں اس کے پیچھے قدرت کی یہ حکمت کارفرما ہوتی ہے کہ اس نے آپ کے اندر وسعت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح گاڑیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے اوزار اور ہتھیار ہوتے ہیں، اسی طرح قدرت کے پاس جو جو اوزار ہیں، وہ حالات کی صورت میں ہوتے ہیں۔ قدرت اس طر ح کے حالات پیدا کردیتی ہے کہ آدمی جن چیزوں میں کمزور ہوتا ہے، ان حالات کی وجہ سے اس کی وہ چیزیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات ایک فرد کے ساتھ کوئی حادثہ یا واقعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس سے اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ جو حالات ناپسندیدہ ہیں اور ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے متعلق مان لینا چاہیے کہ یہ ہماری ہی بہتری کیلئے ہیں۔ جس طرح آپریشن ہو رہا ہو تو اُس وقت مریض کو یہ شعور نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے، کیونکہ وہ بے ہوش ہوتا ہے، لیکن آپریشن ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اس ناسور کا نکالنا کتنا ضروری تھا۔
خواب کی تعبیر کیسے؟
یہ کتاب آپ کو سوچنے اور محسوس کرنے کا نیا زاویہ دیتی ہے۔ درحقیقت، خواب کا مکمل ہونا اور اس کا مکمل چاہنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں خواب کو تعبیر بنانے کے طریقہ کار کا بھی علم ہونا چاہیے۔ اور اگر خواب حاصل نہیں ہورہا تو ہمارے اندر پوری گنجائش ہونی چاہیے کہ ہم طریقہ کار کو تبدیل کریں۔ جو شخص بار بار ایک ہی غلطی کر تا ہے، دراصل وہ غلطی سے سیکھتا نہیں ہے اور جو شخص غلطی سے سیکھ جاتا ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ قدرت اتنی سخت استاد ہے کہ وہ بار بار وہی عمل دہراتی ہے اور اس وقت تک دہراتی رہتی ہے جب تک آدمی سیکھ نہیں جاتا۔ ماضی گزرا ہوا وقت ہوتا ہے اور اس میں بے شمار تجربات ہوتے ہیں۔ یہ تجربات غلطیوں سے آتے ہیں۔ پھر انھی تجربات کی مدد سے آدمی اپنے مستقبل کو بہتر کرتا ہے۔ ماضی کے معنی کو بدل دیجیے۔ زیادہ تر لوگوں کیلئے ماضی کا معنی پچھتاوا ہوتاہے۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ ماضی کا معنی تجربہ بن جائے اور پھر یہی تجربہ بہتر مستقبل میں معاون ثابت ہو۔ اپنے اچھے دوست بنیں۔ جو اپنا اچھا دوست نہیں ہوتا، وہ کسی کا بھی اچھا دوست نہیں بن سکتا۔ کبھی بھی رکنے والا چلنے والے کا اچھا دوست نہیں بن سکتا۔ چلنے والا ہی چلنے والے کا دوست بنتا ہے۔ اُڑنے والا ہی اڑنے والے کا دوست بنتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عزائم مختلف ہوں، لیکن بڑی بات یہ ہے کہ سارے چلتے رہیں۔ چلتے رہنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد کو سامنے رکھنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلاں شخص ہماری اڑان کو ممکن بنا دے اور پھر ہم اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کے پر کٹے ہوئے ملتے ہیں۔ پھر پتا چلتا ہے کہ یہ تو اڑنے والی مخلوق ہی نہیں ہے۔ بعض انسان اڑنے والوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور چلنے والوں کے ساتھ اڑنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ غلط قدم اس اعتبار سے بہت قیمتی ہوتا ہے کہ وہ آدمی کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ مجھے اپنے طریقہ کار کو بدل لینا چاہیے۔ جو شخص غلط قدم اٹھانے کے بعد اپنا طریقہ کار تبدیل نہیں کرتا، وہ بہت احمق ہے ۔غلطی کو غلطی نہ ماننا، بہت بڑی غلطی ہے۔ غلطی کو غلطی سمجھ لینا اور غلطی سے سیکھ لینا عقل مندی ہے۔ جبکہ غلطی پر قائم رہنا جمود کی نشانی ہے۔
تبدیلی کا جذبہ
جتنے لوگ کچھ کر کے دکھاتے ہیں، ان میں تبدیل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ جس میں یہ مادہ جتنا کم ہوتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ جمود کا شکار ہوتا ہے اور جس میں یہ مادہ جتنا زیادہ ہوتا ہے، وہ اتنا ہی متحرک ہوتا ہے۔ تبدیلی کا جذبہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے شروع کرتا ہے اور زمانہ بدل دیتا ہے۔ بعض اوقات انسان فتح خود کو کرتا ہے اور پھر پتا لگتا ہے کہ اس نے دنیا کو فتح کرلیا ہے۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ بڑے پڑھے لکھے لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد بڑے عہدوں پر بیٹھنے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان میں تبدیلی کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف عام سے لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے جذبۂ تبدیلی کے ذریعے بڑی تبدیلی لے آتے ہیں۔ ہمیں تبدیلی کے جذبے کو جگانا ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ برف کی طرح پگھلتا رہتا ہے۔ اس برف کو سنبھالنے میں جتنی دیر ہوگی، یہ اتنی ہی کم ہوگی۔ بعض اوقات انسان کے ہاتھ میں برف ہوتی ہے، لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ جب خاصی دیر بعد وہ ہاتھ کی طرف دیکھتا ہے تو اس وقت تک برف پگھل چکی ہوتی ہے۔ پھر اس کیلئے تبدیل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ جذبے کا صحیح وقت پر استعمال بہت ضروری ہے۔ اگر یہ صحیح وقت پر استعمال ہوجاتا ہے تو یہ اس قدر کارآمد ہے کہ اس سے پوری زندگی بدل جاتی ہے۔
ٹھہری ہوئی ٹرین
دنیا میں خوش بخت، خوش قسمت اور خوش نصیب انسان وہ ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل ماضی کی طرح نہ بنے۔ بعض لوگ ایک ایسی ٹرین میں بیٹھے ہوتے ہیں جو ٹھہری ہوتی ہے۔ وہ جتنی دیر مرضی بیٹھے رہیں، وہ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ اگر آپ اپنا مستقبل بدلنا چاہتے ہیں تو اس ٹرین میں سوار ہونا پڑے گا جو چل رہی ہے۔ مسئلہ ہمیشہ کیلئے نہیں آتا، لیکن انسان کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف شاید ہمیشہ کیلئے ہے۔ مسئلہ اصل میں انسان میں وسعت پیدا کر تا ہے۔ چنانچہ انسان آگے بڑھتا ہے۔ آپ یوں تو اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل روزانہ ہی حل کرتے ہوں گے اور عشروں سے حل کرتے چلے آرہے ہوں گے، لیکن جس دن کوئی بڑا اور غیر معمولی مسئلہ حل کرڈالا، اس دن آپ کی زندگی بھی غیر معمولی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس دن آپ کے روشن مستقبل کی جانب آپ کا سفر شروع ہوجائے گا۔ انسا ن کے پاس سب سے بڑی طاقت فوکس کی طاقت ہے۔ فوکس کیا ہے؟ ہمارا فوکس اسی طرح ہوتا ہے جس طرح فرض کیجیے، کمر ے میں اندھیر ا ہو اور ہاتھ میں ٹارچ ہو۔ آپ کی ٹارچ کا رُخ جس طرف ہوگا، آپ کا فوکس اسی طرف ہوگا۔ چنانچہ ہمیں پوری دنیا میں وہی نظر آتا ہے جس پر ہم فوکس کرتے ہیں۔ بعض اوقات فوکس ہی اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ مجھے عجیب و غریب نظر آرہا ہے۔ باباجی اشفاق احمدؒ اپنے استاد سے کہتے ہیں کہ مکھی کی ایک ہزار آنکھیں ہوتی ہیں۔ استاد نے جواب دیا لعنت ہے، ایسی مکھی پر جس کی ایک ہزار آنکھیں ہیں، لیکن پھر بھی وہ گندگی پر بیٹھتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ مسائل تلاش کر تے رہتے ہیں۔ وہ وہاں فوکس کرتے ہیں جہاں فوکس کرنے کا کوئی حل نہیں ملتا۔ ہمیں حل کی طرف فوکس کرناچاہیے۔ جب بندہ حل کی طرف فوکس کرتا ہے تو مسئلے کو حل کرنے کے نئے نئے طریقے سامنے آنے لگتے ہیں۔ فوکس اس مجنوں کی طرح ہے جو ایک نمازی کے سامنے سے گزرتا ہے تو نمازی نماز توڑ کر اس کا گریبان پکڑتا ہے اور کہتا ہے کہ تم میری نماز کے آگے سے کیوں گزرے۔ مجنوں جواب دیتا ہے، میں تو لیلیٰ کے پیچھے جا رہا تھا، مجھے تو تمہاری نماز کا پتا نہیں چلا۔ لیکن حیرت ہے کہ تمہاری نماز پر کہ جس کے دوران تم نے مجھے دیکھ لیا۔
غلط فیصلوں کی اہمیت
انسان کو کامیابی اس کے اچھے فیصلوں کی وجہ سے ملتی ہے اور اچھے فیصلے تجربات کی وجہ سے آتے ہیں۔ اور یہ تجربات غلط فیصلوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ فیصلے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جس لمحے آدمی فیصلہ کررہا ہوتا ہے، اسی لمحے اس کی تقدیر بن رہی ہوتی ہے۔ اس لیے فیصلے پختہ ہونے چاہئیں۔ فیصلہ ایسا نہیں ہونا چاہے کہ جیسے ریت پر لکیر لگی ہو، ذرا سی ہوا چلی اور وہ لکیر مٹ گئی۔ فیصلہ ایسا ہونا چاہے کہ گویا پتھر پر لکیر ہے جو مٹ ہی نہ سکے۔ اگر آپ محنتی ہیں اور جدوجہد کررہے ہیں تو کبھی کبھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھیں اور اپنے آپ سے کہیں، ’’ابھی انتظار کرو، دوست ابھی کہانی باقی ہے۔‘‘ اس جملے میں اتنی طاقت ہے کہ کہنے والے کے اندر امید جاگ جاتی ہے۔ اپنے آپ سے سوال پوچھئے کہ میں کدھر جارہا ہوں؟ جو میں کر رہا ہوں، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں ایک عرصے سے کیا کرتا جا رہاہوں؟ فلاں شخص میری زندگی میں کیوں آیا؟ اس کے آنے کا مطلب کیا ہے؟ اس وقت ہی ایسا کیوں ہوا؟ پہلے کیوں نہیں ہوا ؟ ابھی تک ایسا کیوں نہیں ہورہا ؟ کیا میں کہیں جارہا ہوں ؟ کیا میں رکا ہوا ہوں؟ میری زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے؟ میری زندگی کسی معنی سے بھی وابستہ ہے کہ نہیں؟ مجھ سے کسی کو کوئی فائدہ ہورہا ہے کہ نہیں؟ میں دنیا میں آنے کا حق ادا کر رہا ہوں؟ میں اس دنیا سے جاؤں گا تو یاد بھی رہوں گا کہ نہیں؟ یہ سارے وہ سوالات ہیں جو آدمی کا ذہن تبدیل کر دیتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی ایک سوال سے خود کو جوڑ لیں۔ بار بار اپنے آپ سے وہی سوال پوچھئے۔ جب ایسا ہوگا تو آپ میں سنجیدگی پیدا ہوگی اور تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ جب آدمی خود ہی مجرم بنتاہے، خود ہی منصف بنتا ہے تو تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔ زندگی کے متعلق آپ نے جو نام رکھے ہیں، انھیں تبدیل کیجیے۔ جیسے زندگی جبر مسلسل ہے۔ اس کو اس طرح بدلیے کہ زندگی ایک امتحان ہے، اطمینان سے اس امتحان کی تیار کیجیے۔ اگر آپ صرف الفاظ بدلیں گے توالفاظ میں ا تنی قوت ہے کہ چند روز بعد یہ الفاظ آپ کی زندگی میں سرایت کرجائیں گے اور آپ کی زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔ بے بسی والی شاعری، بے بسی والے جملے، بے بسی والا لٹریچر انسان کو بھی بے بس بنا دیتا ہے۔ وہ انقلاب نہیں لاسکتا۔ انقلا ب کیلئے انقلابی ادب چاہیے، انقلابی کتابیں چاہئیں اورانقلابی شخص چاہیے۔ تبھی زندگی میں انقلاب آئے گا۔