آزاد کشمیر میں نیاز مندانہ تبدیلی

0 204

وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بغض مخالفت یا تنقید معروف صحافی سلیم صافی کا ایک معمول کا مشغلہ سا لگتا ہے ہم صحافی رائے عامہ ہموار کرنے والے لوگ ہیں ہمیں کچھ زمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے سلیم صحافی کا ایک ٹیویٹ سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم عمران خان کے ہم قبیلہ پختوان قرار دیا ہے سلیم صافی صاحب نے اس کی مذمت بھی کی .نامور صحافی سلیم صافی کی اس تنقید سے وزیراعظم عمران خان کا تو کچھ نہیں‌ بگڑا مگر موصوف کی اپنی کریڈیبلٹی متاثر ہوئی ہے. آئیے جانتے ہیں اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے .

آزاد کشمیر کے نئے وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی اس وقت اہل پاکستان و آزاد کشمیر کے لوگوں میں پوری طرح متعارف ہوئے جب باغ آزاد کشمیر میں وزیراعظم عمران خان نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کا اعلان کرنا شروع کیا تو جب عبدالقیوم نیازی کا نام اعلان کیا تو انکی حیرانگی اس وقت نمایاں ہوگی اور بے ساختہ بول آٹھے نیازی ادہر آزاد کشمیر میں کہاں سے آگئے پھر سوچ کر بولے کہ ہمارے نیازی ہرجگہہ چھا گئے ہیں تحریک انصاف الیکشن جیت گئی قیوم نیازی بھی – پھر فیورٹ گھوڑوں کی دوڑ گئی وزارت عظمیٰ کے دو بڑے امیدواروں بیرسٹر سلطان محمود اور سردار تنویر ایک دوسرے کے ناموں پر اتفاق رائے قائم نہ کرسکے تو قرعہ فال سردار عبدالقیوم قیوم نیازی کے نام نکل آیا اب لوگ عمران خان کو یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ وزیراعظم نے برداری ازم کیا اور اپنے قبیلے کے بندے کو وزیراعظم منتخب کروایا کوئی کہتا ہے لفظ عین کی وجہ سے وہ وزیراعظم بن گئے یعنی عین سے عمران، علوی عثمان اور عبدالقیوم جتنے منہ اتنی باتیں قصہ کچھ یوں ہے کہ

سردار عبدالقیوم خان نیازی دولی قبلیہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ خاندان مغل قوم کی ذیلی شاخ ہے نیازی ان کا تخلص ہے جس سے ایک دلچسپ کہانی جڑی ہے 90 کی دہائی کے اوائل میں سردار عبدالقیوم خان نیازی ضلع کونسل پونچھ کےممبر تھے اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان آزاد کشمیر کے وزیر اعظم تھے دونوں کا نام یکساں ہونے کی وجہ سے ان کے اخباری بیانات اور سرکاری احکامات میں تمیز مشکل ہو جاتی تھی اور ضلع پونچھ کی انتظامیہ کئی مرتبہ ضلع کونسل کے ممبر کے احکامات کو وزیر اعظم آزاد کشمیر کے احکامات سمجھ کر ان پر عملدرآمد کر دیتی تھی .

اس پر مسلم کانفرنس کے سربراہ اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے ان کو اپنے نام کے ساتھ کوئی دوسرا نام لگانے کی تجویز دی اور انہوں نے یوں اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھنا شروع کر دیا واضح رہے نیازی ان کا خاندانی نام نہیں ہے یہ ان کا تخلص ہے ان کے خاندان کا کوئی دوسرا شخص اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتا یہاں یہ قصہ تمام ہوا– دوسری جانب اب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے شہر میرپور سے میں اپنے استاد محترم پروفیسر رفیق بھٹی صاحب کا ایک مراسلہ کالم کا حصہ بناتا ہوں جنہوں تبدیلی کے حوالے ایک بالکل مختلف و شاندار دوسری رائے دی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں واقعی تبدیلی کیسے رونما ہوئی مراسلہ ملاحظہ فرمائیں

شیراز خان صاحب!!!!میرے علم اور مشاہدے کے مطابق آزاد کشمیر میں جب کبھی کسی با اختیار عہدے پر کسی فرد کی تعیناتی ہوتی ہے تو لوگ اکثر پوچھتے ہیں یہ کس برادری کا ہے اسی طرح جب کوئی معزز جج تعینات ہوتا ہے تو یہی سوال پوچھا جاتا ہے اور جب کسی سیاسی منصب پر کوئی براجمان ہوتا ہے تو برادری کا تذکرہ زبان زدِ عام ہوتاہے کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ زیر بحث شخص کتنا باکردار صاحبِ عقل ودانش یا شریف النفس ہے آج یہ خواص کمزوری بلکہ نالائقی تصور ہوتے ہیں قبیلہ برادری اور خاندان کو اہلیت اور شرافت ودیانت کو نااہلی سمجھا جاتا ہے آج تک آزاد خطے میں خاندانی وراثتی جمہوری اقتدار کا معیار رہا ہے یہ تبدیلی سرکار کا کمال ہے کہ پہلے پنجاب میں ایک غیر معروف شخص عثمان بُزدار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیرِ اعلی بنا کر سابق سیاسی کلچر کا خاتمہ کیا گیا اور اب آزاد کشمیر میں اس عمل کو دہرا کر تبدیلی کو سچ کر دکھایا ہے

اگر ایمانداری غیر جانبداری اور نیک نیتی سے سوچا جائے تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جس طرح آج تک کُچھ مُفاد پرست اور ابن الوقت لوگ عثمان بُزدار کو کمزور و ناکام وزیرِ اعلی ثابت کرنے میں ناکامی سے دو چار ہیں اُسی طرح عبدالقیوم نیازی کو بھی ایک کمزور وزیرِ اعظم کہنے کی باتیں بنانے لگے ہیں یہ اُس سیاسی کلچر کا حصہ ہے جس میں وراثتی خاندانی جمہوریت پروان چڑھتی رہی ہے ابھی عبدالقیوم نیازی نے حلف نہیں اُٹھایا لیکن کمزوری اور ناکامی کا واویلا شروع کر دیا گیا ہے..

یاد رہے نہ تو عمران خان کی مرکزی حکومت کمزور و ناکام ہے اور نہ ہی عبدالقیوم نیازی کی حکومت نا کام ہو گی یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارا سیاسی کلچر شرافت اور دیانت کی بجائے سیاسی موقعہ شناسی ابن الوقتی اورخاندانی وراثتی جمہوریت کا مُجرمانہ حد تک عادی ہو چُکا ہے البتہ ہم وزیراعظم عمران خان اور وزیر عبدالقیوم نیازی یہ توقع رکھیں گئے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی تشخص اور جغفریائی سالمیت کوئی آنچ نہیں آنے دیں گئے اور اس مشن کی تکمیل کو حتی الامکان یقینی بنائیں گے جس کے لئے لاکھوں کشمیریوں نے قربانیاں دی ہیں وزارت عظمیٰ کے لئے سیاسی بلیک میلنگ کرنے کے لئے نامور کھلاڑی اپنے ڈھول دھمکے دریائے نیلم یا جہلم میں بہا کر ہی واپس گھروں کو لوٹیں گئے ٹائیں ٹائیں فش-
سواد ہی آگیا شیراز جی – گھوڑے بھیج کر سونے کا جی چاہتا ہے

Leave A Reply

Your email address will not be published.