حضور ضیاء الامتؒ،ایک عہد ساز شخصیت

0 404

جب ہم اسلامی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے نظر آتی ہے کہ ہر دور میں اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے ایسی شخصیات اس دنیا میں تشریف لائیں جنہوں نے انتھک محنت ، بے داغ کردار اورعلمی و روحانی برکات سے انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں اور إن کی کاوشوں نے رہتی دنیا تک دیرپا اثرات چھوڑے۔ایسی ہی اولوالعزم اور صاحب بصیرت ہستیوں میں سے ایک شخصیت مفسر قرآن حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمة اللہ علیہ کی ہے، جن کا عرس مبارک ہر سال محرم الحرام کے تیسرے ہفتے میں بھیرہ شریف ضلع سرگودہا میں انعقاد پذیر ہوتا ہے۔

راقم نے زندگی کا ایک حصہ آپ کی بارگاہ سے اکتساب فیض و برکت میں گزارا اسی لیے کچھ احوال ضبط تحریر میں لانے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ بحمد اللہ ہمیں آپ رحمة الله عليه کی صحبت میں بیٹھنے کے بے شمار مواقع میسر آئے۔ حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رح کا تعلق دریائے جہلم کے کنارے ضلع سرگودہا کے ایک تاریخی شہر بھیرہ سے ہے۔ اسی شہر میں 1918 میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپکا تعلق سلسلہ چشتیہ کے عظیم علمی اور روحانی خانوادہ سے ہے۔ آپ کی روحانی وابستگی آستانہ عالیہ سیال شریف میں خواجہ شمس العارفین رحمة الله عليه کی خانقاہ سے ہے۔ آپؒ کی بیعت طریقت قمر الملت والدین خواجہ قمر الدین سیالویؒ کے ہاتھ پر تھی۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ میں ہی حاصل کی۔ جب مولانا نورالحق علیہ الرحمہ کے پاس حصول علم کیلئے لاہور تشریف لائے تو ایک سال تک آپکی قیام گاہ حضرت داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کے دربار پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے حجرہ اعتکاف کے ساتھ متصل ایک کمرہ میں تھی۔ 1942 میں دورہ حدیث کیلئے اس وقت کے علوم اسلامیہ کے متبحر عالم دین مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمة الله عليه کے پاس مراد آباد تشریف لے گئے اور 1943 میں واپس آئے اور 1951 تک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دئے۔ 1951سے 1954 تک جامعہ الازہر مصرمیں اعلی تعلیم کیلئے گئے۔ آپ نے یکم رمضان بروز پیر بمطابق اٹھائیس فروری 1960 کوقرآن کی تفسیر ’’ضیا ء القرآن ‘‘ لکھنے کا آغاز کیا اور بروز پیر چھ اکتوبر 1975 کو پانچ جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر پایہ تکمیل تک پہنچی۔ ’’ضیا ء النبی ‘‘ کے نام سے سات جلدوں پر مشتمل سیرت النبیﷺ بھی آپ ہی کا علمی کارنامہ ہے۔ سال تو مجھے یاد نہیں رہا البتہ 80 کی دہائی کے آغاز میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو بوقت سحر آپ رح نے "ضیاء النبی شریف” کی تحریر کا آغاز فرمایا۔ راقم اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے کہ جس وقت آپ نے ضیاء النبی شریف کی "بسم اللہ الرحمن الرحیم” اپنے قلم سے تحریر فرمائی تو اس بابرکت تقریب میں میں بھی موجود تھا۔ اس وقت دارالعلوم میں چھٹیاں تھیں اور امتحان کی تیاری کیلئے ہم چند ہی طلبہ دارالعلوم میں قیام پذیر تھے۔ قبلہ پیر صاحب رح نے استاذنا المکرم حضرت مولانا محمد خان نوری صاحب رحمة الله عليه کو ارشاد فرمایا کہ سحری کے وقت وہاں موجود اساتذہ اور طلبہ نے میرے پاس آنا ہے اور ضیاء النبی شریف کی بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر دعا کرنی ہے۔ اس طرح اس بابرکت مجلس دعا میں اللہ کریم نے اس حقیر پر تقصیر کو بھی موقع عنایت فرمایا جسے اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں۔ اسی طرح آپ نے "ضیائے حرم” کے نام سے ماہنامہ مجلہ شروع فرمایا جو کہ سابقہ نصف صدی سے مستقل شائع ہو رہاہے۔

حضور ضیاء الامت 1982 میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایپلیٹ کورٹ کے جج کے طور پر تا دم وصال 1998 تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپؒ کی دور رس نگاہ نے نباض قوم کے طور پر جدید و قدیم علوم پر مشتمل ایک مربوط نظام تعلیم متعارف کرایا۔ آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی وقت، حالات اور ماحول کے مطابق نشاۃ ثانیہ ہے۔ یہ ادارہ 96 سال پہلے 1925 میں معرض وجود میں آیاجس کی بنیاد آپ کے والد گرامی حضرت پیر محمد شاہ نور الله مرقدہ نے رکھی اور حضور ضیاء الامت رح اس کے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس وقت یہ ادارہ ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہزارہا طلبہ و طالبات اس دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہو کر دنیا بھر میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ اس دارالعلوم کی صرف پاکستان میں سینکڑوں شاخیں ہیں۔ برطانیہ و یورپ میں بھی کثیر تعداد میں حضور ضیاء الامت ؒکے فیض یافتگان اور اس ادارے کے فضلاء دینی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔آپ کے علمی فیضان کے سلسلے کی ایک کڑی برطانیہ میں جامعہ الکرم ہے جو کہ آپ ہی کے نام پر قائم ہے۔ اس ادارے کے بانی اور مہتمم پیرزادہ امداد حسین ہیں۔ ابھی تک سینکڑوں کی تعداد میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے اور بچیاں اس ادارے سے سند فراغت حاصل کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پیر زادہ امداد حسین صاحب کی مہربانی سے الحرا ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سنٹر لوٹن کا الحاق بھی جامعہ الکرم سے کر رکھا ہے۔ ان شاء اللہ حضور ضیاء الامت رح کے فیضان کی روشنی اسی طرح پھیلتی رہے گی۔ ضیاء الامہ فاؤنڈیشن، مسلم ہینڈز اور مسلم چیرٹی بھی آپ ہی کے تربیت و فیض یافتگان چلا رہے ہیں جو دنیا بھر کے دکھی اور پریشان حال لوگوں کی مدد میں مصروف عمل ہیں۔

پچھلے 23 سال سے جامعہ الکرم ریٹفورڈ میں آپؒ کی یاد میں عرس کی باوقار تقریب کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے سکالرز شرکت کرکے آپکی خدمات کا اعتراف اور آپ کے مشن کو اجاگر کرتے ہیں۔ إن تقاریب میں انڈیا، پاکستان اور یورپ بھر سے علماء و مشائخ اور اور آپ کے وابستگان نے شرکت کرتے ہیں ۔ ہمیشہ ان تقاریب کی صدارت جانشین ضیاء الامت، سابق وزیر مملکت برائے مذہبی امور حکومت پاکستان پیر محمد امین الحسنات شاہ صاب سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ بھیرہ شریف فرماتے ہیں۔ عرس کی چند تقاریب کی نقابت راقم نے کی اور بعد ازاں روئے داد بھی لکھی۔ جانشین حضور ضیاء الامت صاحبزادہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کےایک خطبہ کا اقتباس کچھ اس طرح ہے کہ "میرے بزرگوں نے نوے سال پہلے جس رستے کا انتخاب کیا تھا وہ علم کا رستہ ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا آبائی شہر بھیرہ ہندو آبادی کاشہرتھا ۔ میرے دادا جان گھر گھر جا کر مسلمانوں کے دروازے کھٹکھٹاتے اور انہیں حصول علم کا احساس دلاتے۔ اگر کوئی غربت کی وجہ سے فیس کی ادئیگی میں مشکلات بتاتا تو آپ فرماتے کہ حصول علم دین کیلئے بچہ تم دے دو فیس میں ادا کروں گا۔ آپ مریدوں سے فرماتے کہ مجھے آپ کے پیسے، جانور یا نذرانہ نہیں چاہیے بلکہ علم دین سکھانے کیلئے تمہارے بچے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے والد گرامی حضور ضیاء الامت کے توکل علی اﷲ اور خود داری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ1992 میں نواز شریف صاحب بھیرہ آئے تو پیر صاحب سے پوچھا کہ آپ کے ادارے کو کس چیز کی ضرورت ہے جو میں پوری کرسکتا ہوں۔ آپ نے جواب دیا کہ جس مالک حقیقی سے میرا تعلق ہے ان کے خزانے بے بہا ہیں مجھے کسی سے مانگنے کی ضروت نہیں”

ہم سمجھتے ہیں کہ حضو ر ضیاء ا الامت کی شخصیت نظام خانقاہی کے سجادہ نشینوں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ ؒنے پیری مریدی کو ذاتی جاہ و جلال اور مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا بلکہ امت مسلمہ کی بہتری کیلئے کام کیا۔ تمام خانقاہیں آپ کی طرز پر علمی مراکز قائم کریں تو ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ آپ نے علم و عرفان کی روشنی کو پھیلانے کیلئے دن رات کاوشیں کیں۔ راقم الحروف کی زندگی کا ایک حصہ بھی آپؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے میں گزرا۔ آپ کثرت کے ساتھ ذکر الہی کرنے والے سچے عاشق رسول تھے۔ آپ کی زندگی سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس جمیل نظر آتی تھی۔ سادگی آپ کا شعار تھا اور خلوص و خود داری سے آپ کی زندگی کے شب و روز آراستہ تھے۔ آپ کا وصال 1998 میں عیدالاضحی کے دن ہوا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Leave A Reply

Your email address will not be published.