لندن لوٹن منعقدہ تقریب اور ہائی کمشنر کی عدم شرکت

0 160

بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوں کے لئے سفارت خانے اپنے ملک کی طرح ہوتے ہیں مجھے برطانیہ میں رہتے ہوئے تقریباً تیس سال ہوگئے ہیں اور کم وبیش ہر پاکستانی سفیر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے اسی دوران پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں یہاں مقیم ہر پاکستانی کی وطن سے محبت کو سلام پیش کرتا ہوں جنکا کردار بلامعاوضہ پاکستانی سفیر کہ جیسا ہے جو کھاتے، کماتے اور رہتے تو برطانیہ میں ہیں لیکن پاکستان کے وسیع تر مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں کارگل محاذ ہو کشمیر کی آزادی کی تحریک ہو یا پاکستان کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کی جارہی ہوں محب وطن پاکستانی ہمیشہ پاکستان کے دفاع میں پیش پیش رہتے ہیں لوٹن کی ممتاز مذہبی سماجی شخصیت علامہ قاضی عبدالعزیز چشتی کا شمار انہی پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو ہمہ وقت پاکستان کے لئے نہ صرف اپنی مسجد جامع اسلامیہ غوثیہ میں دعائیں مانگتے ہیں، بلکہ وہ اور انکی اولاد پاکستان کی سلامتی واستحکام اور امیج بہتر بنانے کے لئے عملی طور پر کوشاں رہتے ہیں. کرونا اور لاک ڈاؤن کے دوران پاکستانی مسلمانوں کی تدفین کے معاملے پر علامہ قاضی عبدالعزیز چشتی جان پر کھیلتے رہے ہیں ہسپتال سے میت ریلیز کرواتے غسل دلواتے اور قبرستان میں نماز جنازہ پڑھاتے رہے ہیں اور انہیں یہ احساس تھا کہ یہ بڑا مشکل کام تھا یہ سارا کام کرتے ہوئے ان کا براہ راست رابطہ اور تعلق ہسپتال کورونر، کونسل،پولیس وغیرہ سے رہا لاک ڈاؤن ختم ہوا تو انہوں نے لندن لوٹن کے ایک نہائت شاندار عالیشان ہوٹل میں ایک تقریب منعقد کی ، جس کا مقصد تمام ایسی ایجنسیوں اور شخصیات کو ایوارڈز سے نوازتا تھا جنہوں نے کرونا کے دوران اپنی بہترین خدمات سرانجام دیں

تقریب میں چار سو سے زائد افراد شریک ہوئے بیڈفورڈشائر کی ہر سرکاری ایجنسی موجود تھی اور تقریباً تمام پاکستانی وکشمیری مقامی تاجر،کمیونٹی کے چیدہ چیدہ نمائندے بھی موجود تھے جس میں لوٹن کے کونسلرز بیڈ فورڈشائر میں ملکہ برطانیہ کے نمائندے ممبران آف پارلیمنٹس لارڈر مئیرز اور نہایت اہم شخصیات نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ لوٹن کی کل آبادی تقریباً 214 ہزار جس میں پاکستانی آبادی تیس فیصد ہیں علامہ قاضی عبدالعزیز چشتی نے مختلف مساجد کے علمائے کرام کو بھی دعوت دے رکھی تھی تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ ساری کاروائی انگریزی زبان میں تھی اور قاضی کبیریا نے سٹیچ کچھ اس طرح سنبھالا ہوا تھا کہ تقریب میں شریک نوجوانوں کی بڑی تعداد پوری لگن سے کاروائی سنتی رہی تقریب سے قبل دو دن پہلے میں نے قاضی صاحب سے استفسار کیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان کو آپ نے کیا دعوت دے رکھی ہے یا نہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں توقع کررہا ہوں کہ وہ تشریف لائیں گئے دعوت تو بہت اچھی طرح دے رکھی ہے لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ پاکستان کے سفیر معظم احمد خان تقریب میں تشریف نہیں لائے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی سفیر اگر تقریب میں تشریف لاتے تو وہ پاکستان کے حوالے سے ممبران آف پارلیمنٹ سمیت وہاں موجود نوجوانوں، کونسلروں اور گورنمنٹ برطانیہ کے نمایندگان کے لئے ہمارے ملک کی بہتر انداز میں نمائندگی کرسکتے تھے۔ اس وقت پاکستان کو افغانستان کے معاملے پر اپنی سفارت کاری کے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے برطانیہ میں ہمیشہ ہمیں موثر لابنگ کی ضرورت تو رہتی ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد کشمیر کی تحریک زور پکڑ سکتی ہے۔

پاکستان اس وقت معاشی بحرانوں کا شکار ہے جس کی واحد آمدنی اورسیزز پاکستانیوں کی زرمبادلہ کی صورت میں بھیجی جانے والی رقوم ہے، جو دو ارب سے زائد ہے۔ اگر سرکاری سفیر پیپلز ٹو پیپلز رابطے بڑھائیں تو یہاں کے پاکستانی پاکستان میں اپنی انوسٹمنٹ بڑھا سکتے ہیں بات صرف اعتماد بڑھانے کی ہے آج کل سفیروں کو ورچل میٹنگز کا بہانہ مل گیا ہے یا چسکا پڑ گیا ہے کمرے میں بیٹھ کر تقریری جگالی کرتے جاؤ اور خبریں شائع کرواتے جاؤ لوٹن سے لندن پاکستان کے سفیر کی سرکاری رہائش گاہ پاکستان ہاوس 45 منٹ کے فاصلے پر ہے جہاں پر یہ تقریب منعقد تھی ایک اور قابل افسوس ناک بات یہ ہے کہ آجکل سابقہ سفیر نفیس زکریا کے دور سے ایک روایت پڑ گئی ہے کہ برطانیہ میں نشان پاکستان نشان قائداعظم ایوارڈز دیئے جارہے ہیں جن میں پاکستانی نژاد برٹش پارلمنٹرین شامل ہیں جو تن من دھن سے پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں لیکن جب آپ ان پاکستانی پارلمنٹرین کو ایوارڈ سے نوازتے ہیں تو وہ دوسروں کی نظر میں نشانہ بن جاتے ہیں جن کا انہیں اپنے حلقہ انتخاب میں نقصان ہوتا ہے کہ انکے ووٹر اور سپورٹر دوسری کمیونٹیز سے بھی ہوتے ہیں اگر ایوارڈز دینے ہی ہیں تو نظر دوڑائیں پاکستان کے پہلے کیوسی بیرسٹر صبغت اللہ قادری، تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی کے چیئرمین مشتاق لاشاری کو دیں جنگ لندن کے سابق مدیروں ظہور نیازی، محمد سرور، قیصر امام، مولانا بوستان قادری مرحوم راجہ اسحاق مرحوم، علامہ قاضی عبدالعزیز چشتی، برمنگھم کے موجودہ مئیر کونسلر افضل خان اور دیگر سینکڑوں پاکستانیوں کو دیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں کمیونٹی خدمت پر لگائی ہیں اور برطانیہ میں پاکستان اور کشمیر کا علم بلند رکھا ہے پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانے پاکستانیوں کے ہیں اس میں جب اچھا ہورہا ہو تو ملک کی بہتری ہوتی ہے ہمیں من حیث القوم اپنی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کو ملک وقوم کی بہتری کے لئے بروئے کار لانی چاہیئے اور سفارت خانوں سے فائدے آٹھا کر کسی کمی کوتاہی کو چھپانا بھی نہیں چاہیئے میرے ان الفاظ کا مقصد اصلاح و احوال کے تقاضے پورے کرنا ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.