تحریر:خواجہ محمد سلیمان برمنگھم
صحافی بننے کے لئے بڑی محنت درکار ہوتی ہے یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہر روز نئی ترقی ہوتی ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی اس قدر آگئے بڑھتی جا رہی ہے کہ دن بدن نئی نئی ایجاد میں آرہی ہیں کہ قلم دوات کی جگہہ کمپوٹر نے لے لی ہے اب ہاتھ سے لکھنے کا رواج ختم ہو رہا ہے اب ٹیکسٹ اور ٹویٹر کے ذریعے پیغام دیئے جارہے ہیں کل کیا دریافت ہو گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا شیراز خان ایک ایسا صحافی ہے جو زمانے کی رمز جانتا ہے اس نے اپنے کیریئر کا آغاز کالم لکھنے سے شروع کیا اس میں تجزیاتی انداز اختیا ر کیا تاکہ پڑھنے والا حالات سے بخوبی اگاہ ہو جائے صحافت کا اصلی مقصد یہی ہے کہ عوام تک اصلی حقائق پہنچائے جا ہیں اور اقتداری طبقے کو عوام کے آگئے جوابدہ بنایا جائے حکمران بھی صحافت کو استعمال کرکے اپنے لئے عوامی حمایت حاصل کرتے ہیں ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ ان وسائل سے بعض دفعہ صحافیوں کو خرید لیتے ہیں لیکن شیراز خان ایک ایسا صحافی ہے کہ دنیا کے ساتھ دین شناس بھی ہے اسے علم ہے کہ ایک دن میں نے اپنی صلاحیتیوں کا جواب اس ذات کو دینا ہے جو میرے دل میں آنے والے خیال سے بھی آگاہ ہے دنیا سے تو انسان سب کچھ خفیہ رکھ سکتا ہے لیکن اس مالک سے کیا پوشیدہ ہے۔
آج دنیا میں انسان اس قدر مگن ہے کہ اسے اپنی آخرت بھول گئی ہے خاص کر اہل ثروت طبقہ دنیا حاصل کرنے کے لئے حلال حرام کو بھی بھول چکے ہیں برطانیہ میں صحافت کا پیشہ اختیار کرنا کافی دشوار ہے کیونکہ آج کل اخبارات اور رسائل پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے ٹیلیویژن بھی لوگ کم دیکھتے ہیں موبائل فون کے ذریعے معلومات سکینڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے آج صحافت میں کامیاب ہونے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں آدمی وقت کے ساتھ نہ چلے تو وہ ماضی حال ہو جاتا ہے شیراز خان صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی شخصیت کا بھی مالک ہے یہ بڑی خوبی ہے انسان کے اچھے اخلاق ہوں تو اس کو ہر آدمی پسند کرتا ہے اور اس کا اپنا دوست بنانے کی کوشش کرتا ہے شیراز خان کے کالم ہوں یا ان کے ٹی وی کے پروگرام ہوں سب آدمی ان کی کاوشوں کو پسندکرتے ہیں اور وہ تھوڑے ہی عرصے میں صحافت کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ انسان کی محنتوں کا پھل اسے جلدی ملنے لگے بعض دفعہ کسان کھیت پر بڑی محنت کرتا ہے لیکن فصل اتنی اچھی نہیں ہوتی لیکن بعض دفعہ تھوڑی محنت سے بھی فصل زیادہ ہو جاتی ہے یہ کوئی قدرتی نظام ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے جیسے دنیا میں رزق کا معاملہ ہے۔
بعض لوگ اتنے تعلیم یافتہ بھی نہیں ہوتے لیکن وہ بڑے بڑے کاروبار کے مالک ہوتے ہیں اور دوسری طرف کئی ڈگریوں کے مالک کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں بر حال انسان جس حال میں بھی ہو اس کا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے ہماری کمیونٹی کو چاہئے کہ ایسے صحافیوں کی قدر اور سپورٹ کرے جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں وہ کمیونٹی کی بہتر انداز میں خدمت کر سکتے ہیں ان سے کمیونٹی کو صحیح معنوں میں فائدہ پہنچ سکتا ہے پاکستان آزاد کشمیر کی سیاسی صورت حال سے ہم متاثر ہوتے ہیں مسلم دنیا میں کیا ہورہا ہے یہ بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے اگر کسی جگہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو اس کے بارے میں بھی یہی صحافی ہمیں اگاہ کرتے ہیں ہم ان کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں اس کے بارے میں بھی معلوم ہونا چاہئے کیونکہ مظلوم کی مدد کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے آج کے میڈیا کے دور میں صحافت زندگی کا ایک لازمی جز بن گیا ہے دنیا سکڑ کر ایک گلوبل و لیج بن گئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس سچی اور کھری معلومات ہو وہ ایک بیباک صحافی ہی دے سکتا ہے جھوٹی معلومات اور خبریں اکثر گردش کرتی ہیں لوگ ان کو سچ سمجھ کر یقین کر لیتے ہیں اور پھر اسی پر رائے زنی کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کے بعض دفعہ سب سے بڑا جھوٹ بولنے والے لیڈر پاپولر بن کر اقتدار میں آجاتا ہے مثلاً انڈیا کے موجودہ وزیر اعظم نریندر موودی کو دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے گجرات میں ہندو مسلم فسادات کروائے انڈیا میں مقبولیت حاصل کی اور پھر اس کی انتہا پسند پارٹی انڈیا میں اقتدار میں آگئی ہے لیکن اس کے پاس سوائے نفرتوں کے اور کچھ دینے کے لئے کچھ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کرونا کے دوران لاکھوں ہندو اس بیماری سے مرے ہیں لیکن نریندر موودی کی حکومت کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں وہ پاکستان کی دشمنی میں دنیا سے فوجی سازوسامان خریدنے میں لگا ہوا ہے بھارت میڈیا اس نے خریدا ہوہے وہ بھی پاکستان کی دشمنی میں دن رات ایک کرتاہے شیراز خان کی نبض شناس صحافت مسلمانوں کے خلاف منافرت کے خلاف کسی جہاد سے کم نہیں کشمیر اسلام پاکستان اور مسلمانوں کے مفادات کا بلامعاوضہ دفاع کرتا ہے اللہ تعالیٰ مزید استقامت دے آمین