لندن :ایک یونین نے متنبہ کیا ہے کہ برطانوی یونیورسٹیاں اور کالجز اپنے کیمپسز پر جنسی تشدد کی ’’انتہائی سطح‘‘سے نمٹنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 10 میں سے ایک کالج اور یونیورسٹی سٹاف کو کام کے مقام پر براہ راست جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یونیورسٹی اینڈ کالج یونین (یو سی یو) کے مطابق بعض تعلیمی ادارے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے سے قبل اپنی ’’سٹار تعلیمی ادارہ‘‘ کی شہرت کا تحفظ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی اور کالج کے تقریباً 4000 سٹاف سے کئے گئے پول سے پتہ چلا کہ ابتدائی کیریئر والے اور غیر محفوظ سٹاف کو اتفاقی جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، بشمول پوسٹ گریجویٹ تحقیق کاروں کو جنسی تشدد کا زیادہ تجربہ ہوا۔
یوسی یو کے جنرل سیکرٹری جو گریڈی نے کہا کہ یہ گروہ، جو ایک طالب علم اور اکیڈمک ہونے کے درمیان ہونے کا رجحان رکھتا ہے، اپنے کیریئر کی ترقی کے لئے عملے کے زیادہ اہم اراکین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر انحصار کرتا ہے، جس سے وہ ان لوگوں کے لئے "زیادہ کمزور” ثابت ہوتا ہے، جو اپنی طاقت کا غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران مجموعی طور پر 12فیصد خواتین اور 5فیصد مرودوں کو کام کے مقام پر براہ راست جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔
یو سی یو کی ’’جنسی تشدد‘‘ کی اصطلاح میں مختلف جنسی جرائم بشمول ریپ، جنسی حملہ، تعاقب، انتقامی فحاشی اور آن لائن یا آف لائن دنیا میں روزمرہ کے انتقامی رویئے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر تین متاثرہ افراد میں دو سے زائد (70 فیصد) نے اسے روزمرہ کے رویہ کی حیثیت سے دیکھا جبکہ 52فیصد نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے نہ تو کسی دوست اور فیملی یا اپنے ایمپلائرز کو بھی آگاہ نہیں کیا۔
یونین نے متنبہ کیا ہے کہ یہ ’’ایک ایسا شیطانی چکر‘‘ ہے، جس میں یونیورسٹیز اور کالجز کے سینئر انتظامی افسران جنسی تشدد پر کوئی کارروائی نہیں کرتے اور متاثرہ شخص رپورٹنگ کے عمل پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔ یو سی یو کا جنسی تشدد ٹاسک گروپ، جس نے یہ رپورٹ تیار کی تھی، اس نے متاثرین سے انٹرویوز کئے تھے۔ ماہرین تعلیم نے ان کے اور مجرم کے درمیان طاقت کے فرق کے اثرات کو اہم وجہ قرار دیا، جس کی وجہ سے کوئی کارروائی نہ ہونے یا بدلہ لینے کا خوف پیدا ہوتا ہے۔