اسلامی نظام حکومت کے خد و خال اور مروجہ جمہوریت

0 371

اسلامی نظامِ حکومت سے مراد حکمرانی کا وہ تصوّر ہے، جس میں ایک مملکت اپنے تمام شہریوں کی جان، مال، عزّت وآبرو کی حفاظت کیلئے نہ صرف عملی اِقدام کرتی ہے، بلکہ اس کی مکمل ذمہ داری بھی اٹھاتی ہے۔ اپنے تمام شہریوں کے ساتھ مُساوی سُلوک برتتی ہے، ان کے حقوق کا یکساں خیال رکھتی ہے اور ان کے ما بین لسانی، مذہبی یا اقتصادی ومُعاشرتی بنیادوں پر امتیاز نہیں کرتی۔الحمد للہ ہماری خوش قسمتی ہے! کہ خالقِ کائنات نے دینِ اسلام کی صورت میں ہمیں ایک ایسا مکمل اور قابلِ عمل نظامِ حیات عطا فرمایا، جس کے ذریعے مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے مثالی طرزِ حکمرانی کی بنیاد ڈالی، اور اپنے عدل وانصاف، اُخوّت ومُساوات، اور فلاح وبہبود پر مشتمل اِقدامات کے ذریعے "ریاستِ مدینہ” جیسی عظیم اسلامی وفلاحی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار فرمائی۔

خلفائے راشدین بھی اپنے اپنے اَدوارِ خلافت میں نبئ کریم ﷺ کے نقشِ قدم کی پَیروی کرتے رہے اور پھر چند ہی سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے، اسلامی نظامِ حکومت کا دائرۂ کار وسیع تر ہو کر دنیا بھر میں پھیلتا چلا گیا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے مذہبی امتیاز سے بالا تر حُسنِ سُلوک کو دیکھ کر، دُکھ درد کے مارے اور مصیبت کے ستائے ہوئے لوگوں نے، اپنی تمام امیدیں دینِ اسلام سے وابستہ کر لیں ۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل اسلامی نظامِ حکومت کے تحت خلفائے راشدین، بالخصوص خلیفۂ ثانی امیر المؤمنین سیِّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا بھر میں پہلی بار یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور بزرگ شہریوں کی داد رسی، اور فلاح وبہبود کے لیے بیت المال قائم کیا، ظلم وستم کے خاتمے کے لیے عدالتیں بنائیں، ان میں میرٹ پر قاضی تعینات کیے، پانی کی فراہمی کے لیے نہریں کھدوائیں، مسافروں کی سہولت کے لیے مسافر خانے، لا وارِث بچوں کی پروَرش کے لیے وظائف مقرّر کیے، اور علم کے فروغ کے لیے مدارس قائم کیے۔

آج بھی ہمارے مسلم حکمرانوں کو چاہیے، کہ رسولِ اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے اَخلاقی کردار اور مثالی طرزِ حکمرانی کو اپنا رول ماڈل بنائیں، ان کی پیروی کریں؛ تاکہ ہمارے اندر بھی رحمت، شفقت، برداشت، احسان، اِیثار، عدل وانصاف اور مُساوات جیسی خوبیاں پیدا ہوسکیں۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی برکت سے ریاستِ مدینہ امن، محبت اور برداشت کا گہوارہ بنی، اور ریاست کے ہر شہری کو، بلا تفریقِ مذہب و ملت، عدل وانصاف کی فراہمی ممکن ہوئی۔ اللہ رب العالمین ہمارا خالق ومالک اور قادرِ مطلق ہے، اس کائنات پر اصل حاکمیت اُسی کی ہے، ساری دنیا بشمول اپنے تمام حکمرانوں کے اسی کی حاکمیت کے تابع ہے، اسلامی نظامِ حکومت کا یہ وہ بنیادی اصول ہے جس میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش موجود نہیں، ارشاد ِباری تعالیٰ ہے "حکم نہیں مگر اللہ کا”۔ ایک اَور مقام پر ارشاد فرمایا "اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے”۔

دنیا کا کوئی بھی حکمران اللہ کی منشا ومرضی کے بغیر مَسندِاقتدار پر برا جمان نہیں ہوسکتا، اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے "یوں عرض کر، کہ اے اللہ، مُلک کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت دے، اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے” یہ تمام آیاتِ کریمہ اس اَمر پر واضح دلیل ہیں، کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاکمیت کا حق نہیں، جبکہ اِلحادی فکر کے نتیجے میں جنم لینے والی، نام نہاد جُمہوریت میں حاکمیت کا یہ حق عوام کے لیے تسلیم کیا جاتاہے۔ حاکمیت کا معنی یہ ہے، کہ کسی دوسرے کاپابند ہوئے بغیر حکم جاری کرنا، اور فیصلے کا کُلّی اختیار اپنے پاس رکھنا، اور یہ اللہ رب العزّت کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر کوئی شخص اس معنی میں کسی اَور کی حاکمیت کا قائل ہو، تو وہ اسلامی نظریہ حاکمیت کے خلاف ہے لہٰذا اللہ کی حاکمیت کا صحیح اور واضح مفہوم یہ ہے، کہ خالقِ کائنات نے وحی کے ذریعے جو ہدایات، بنی نَوعِ انسان تک پہنچائی ہیں، وہ اسلامی نظامِ حکومت کا اوّلین ماخذ اور اس کی ترجیحات ہونی چاہئیں۔

آج دنیا کا ہر سیکولر (Secular) حکمران اپنی عوام کو یہ سبز باغ دکھاتا نظر آتا ہے، کہ وہ انہیں زیادہ سے زیادہ خوشی فراہم کرے گا، ان کے بنیادی حقوق کا تحفّظ کرے گا، ان کے لیے مفت علاج مُعالجے اور تعلیم کا بندوبست کرے گا، ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مَواقع فراہم کرے گا …وغیرہ وغیرہ۔ ان حکمرانوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا، کہ ہم اپنی عوام کی دینی واَخلاقی تربیت کریں گے، نیکی کو فروغ دیں گے، برائی سے منع کریں گے، بےحیائی اور برے کاموں پر پابندی لگائیں گے، یہ باتیں دنیا بھر میں کسی بھی سیکولر جُمہوریت کے نظامِ حکومت یا سیاسی جماعت کے منشور میں نہیں، جبکہ اس کے برعکس اسلامی نظامِ حکومت کی ترجیح ومعیار ہی نفاذِ شریعت ہے۔اسلامی نظامِ حکومت کی ترجیحات کو اللہ رب العزّت نے قرآنِ پاک میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا "وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں حکومت دیں، تو وہ نماز قائم رکھیں، اور زکوۃ دیں، اور بھلائی کاحکم کریں، اور برائی سے روکیں”۔

آج سوشل میڈیا پر بے حیائی کا طوفان بدتمیزی بف پا ہے۔ مجال ہے کوئی ان کے خلاف کوئی ایکشن لے۔ اسی طرح اسلامی نظامِ حکومت کے تحت، مسلم حکمران کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے، کہ وہ اپنی رِعایا کے حقوق کی مکمل پاسداری کرے، ان کے ساتھ عدل وانصاف کا مُعاملہ کرے، ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے تحت مسلم حکمران کو، صرف مسلمان رِعایا ہی کی جان، مال، عزّت وآبرُو کے تحفّظ کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ غیر مسلم رِعایا کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنے، اور عدل وانصاف سے کام لینے کا حکم دیا گیا۔ اسلامی نظامِ حکومت، حاکم ومحکوم، امیر وغریب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر، کسی قسم کی تفریق یا عدمِ مُساوات کا ہرگز قائل نہیں، اسلامی نظامِ حکومت کے اعتبار سے خلفائے راشدین کا دَور، وہ مبارک اور درخشاں دَور ہے، جب حاکم ومحکوم کے ما بین منصب واقتدار کی بنیاد پر، کسی قسم کا کوئی تفاوُت نہ تھا، جبکہ حاکمِ وقت کو خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوُجود بطَورِ تنخواہ ایک عام مزدور جتنی اُجرت ادا کی جاتی۔اس میں ہمارےحکمران طبقے کے لیےبڑی نصیحتیں ہیں، اگر حقیقی معنوں میں وطن عزیز پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سادگی اپنائیں، پروٹوکول کے نام پر اپنے اور عوام کے بیچ امتیازی خلیج ہرگز حائل نہ ہونے دیں، دینِ اسلام کے درسِ مُساوات کو یاد رکھیں، شاہ خرچیوں سے پرہیز کریں، سہولیات اور تنخواہ ایک اوسط درجہ کے ملازم کے برابر لیں؛ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کی عوام کس حال میں جی رہی ہے، اور انہیں کیا مشکلات دَرپیش ہیں! اگر بالفرض یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تو پھر ریاست مدینہ کا نام لینا چھوڑ دیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.