مذھب اسلام تو امن، محبت، احساس اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ پھر آخر اہل مغرب اسلام سے خوف زدہ کیوں ہیں؟ آیئے جانتے ہیں اس مضمون میں۔’اسلامو فوبیا‘ سے مراد اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے نفرت اور خوف کا اظہار اور عمل ہے۔
’اسلامو فوبیا‘ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکثر مسلمان جنونی ہوتے ہیں جو غیر مسلموں کے بارے میں متشددانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ مغرب بدترین اسلاموفوبیا کا شکار ہیں، لیکن یہ اصطلاح بجائے خود اس لائق ہے کہ اس پر کلام کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کی اصطلاح سے عام طور پر منفی معنی برآمد کیے جاتے ہیں اور ناصرف یہ بلکہ ان معنی کا بار خود بے چارے مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ فوبیا ایک نفسیاتی بیماری ہے اور کسی چیز کے شدید خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ مغرب میں اسلاموفوبیا کے عام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ اسلام کے شدید خوف میں مبتلا ہیں، مگر خوف کسی انتہائی طاقت ور چیز سے محسوس کیا جاتا ہے۔ انسان خدا سے ڈرتا ہے، اس لیے کہ وہ خدا کو انتہائی طاقت ور سمجھتا ہے۔ انسان جنوں اور بھوتوں سے خوف زدہ ہوتا ہے، کہ وہ انہیں خود سے ہزاروں گُنا زیادہ قوی خیال کرتا ہے۔ انسان پانی یا آگ سے خوف محسوس کرتا ہے، کہ وہ انہیں اپنے آپ سے زیادہ پُرقوت متصور کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اسلام اور اہلِ مغرب کے تعلق کا ہے۔ وہ اپنے باطن میں اسلام کو انتہائی طاقت ور، دل کش اور اثر انگیز محسوس کرتے ہیں۔ مغربی دنیا کا دانش ور طبقہ تو دُور بعض مسلمان اہلِ نظر بھی اسلاموفوبیا کی جڑیں مسلمانوں سے وابستہ منفی باتوں میں تلاش کرتے ہیں۔ آزاد خیال مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ترقی کے لیے یورپی طرز حیات کو اپنانا چاہیے۔
دوسری جانب مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین مغرب میں رہ کر بھی پردہ کرتی ہیں، روایتی لباس زیبِ تن کرتی ہیں۔ مسلمان ہر جگہ حلال گوشت پر اصرار کرتے ہیں۔ خواتین کو قیدی بناکر رکھتے ہیں، شراب پیتے ہیں اور نہ شراب خانوں میں جاتے ہیں اور سب سے اہم بات وہ اپنے پیغمبرؐ کے بارے میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرتے، لہٰذا ایسی عادات انہیں شدت پسندی کی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس سوچ کو اگر بغور دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر مسلمان پردہ، حلال حرام کی تمیز، شراب اور ناموس رسالت ﷺ ایسے معاملات میں یورپ کی تقلید کر لیں توشدت پسندی ختم کی جاسکتی ہے۔ دیکھا جائے تو جب نبی اکرم ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو اسلام دشمنی کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا، مگر ’اسلامو فوبیا‘ منظم طریقے سے صلیبی جنگوں سے شروع ہوا، کیوںکہ عیسائی دنیا کو فوج کی کثرت اور بے شمار وسائل کے باوجود کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ مشہور مصنفہ اور راہبہ کیرن آرم سٹرانگ نے اعتراف کیا کہ: ’’اسلامو فوبیا کی تاریخ صلیبی جنگوں سے ملتی ہے‘‘۔ یعنی عیسائی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف رکھنے کی تاریخ محفوظ ومدون ہے۔
’اسلامو فوبیا‘ میں مسلمانوں کو نفسیاتی، سماجی اور تہذیبی طور پر ہراساں کرنا اور اسلام کے ماننے والوں کو ملک و قوم کے اقتصادی، سماجی، سیاسی اور روزمرہ زندگی سے بے دخل کرنا بھی شامل ہے۔دنیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ عملاً ایسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ مخالفینِ اسلام کی طرف سے یہ مبنی برجاہلیت بات بھی دہرائی جاتی ہے کہ: ’’اسلام میں کوئی تہذیب ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ مغربی تہذیب سے ہر اعتبار سے کم تر ہے۔‘‘ علاوہ ازیں وہ خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو کم تر باور کرتے ہیں۔
برطانوی تحقیقی ادارے ’دی رُونی میڈٹرسٹ‘ نے1997 میں ’’اسلاموفوبیا ہم سب کے لیے چیلنج‘‘ کے عنوان کے تحت ایک دستاویز تحریر کی، عنوان سے ہی یہ تحریر مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید اور کھلے بغض کا اظہار تھی۔دوسری جانب دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کی سیکولر اور لبرل فکر نے مذاہبِ عالم اور مذہبی تہذیبوں کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔ مغرب کی سیکولر اور لبرل فکر عیسائیت کو کھاگئی، یہودیت کو ہضم کرلیا، ہندو ازم اور بدھ ازم کو دیوار سے لگادیا۔ لیکن اسلام سیکولر اور لبرل فکر کی ناصرف مزاحمت کرتا آرہا ہے بلکہ اس نے گزشتہ دو سو سال میں اپنے تشخص کا کامیابی کے ساتھ دفاع بھی کیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مصمم ارادوں کا ہی نتیجہ ہے کہ کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملوں میں شہید ہونے والوں کے ساتھ نیوزی لینڈ کے عوام اور حکومت سے لے کر دنیا کے ہر باشعور طبقے نے ایسی محبت کا اظہار کیا، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ نے اسلام اور پاکستان کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کیا، جس سے اسلامو فوبیا کی بو آرہی ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ مغرب کی مشہورِ زمانہ تکثیر پسندی تحلیل ہورہی ہے۔ یہ منظر بھی ساری دنیا کے سامنے ہے کہ جیسے ہی کسی مسلم ملک میں کوئی اسلامی تحریک جمہوریت کے راستے اقتدار میں آتی ہے، مغرب اس کے خلاف سازشیں کرنے لگتا ہے۔ اس صورت حال نے مغرب کی جمہوریت پسندی کو مذاق بنادیا ہے۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ مغرب کا اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کی طاقت سے زیادہ متعلق ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مغرب کے لوگوں کو کم مسلمان زیادہ نہ نظر آتے۔ اس سب کے باوجود مسلمانوں کو متحد ہوکر اپنی آواز میں قوت پیدا کرنا ہوگی وگرنہ دنیا کے ہر کونے میں گردنیں بھی مسلمانوں کی کٹیں گی اور دہشت گرد بھی وہی کہلائیں گے۔