انسان کے ہاتھوں انسانی اقدار کی پامالی

0 147

اس کائنات کی جملہ رعنائیوں اور رنگینیوں کا محور ’’انسانیت‘‘ ہے۔ ہمارا ہر روز کا مشاہدہ اس قرآنی حقیقت پر شاید عادل ہے کہ جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے اسے انسان (کی بہتر اور خوشحال زندگی) کے لیے عدم سے وجود بخشا گیا۔ اجرام فلکی کا پورا نظام اور سونا اگلتی زمینیں ہمہ وقت خدمت انسانیت میں مصروف عمل ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ دیگر مخلوقات تو خدمت انسانیت کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں اور انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے باہم سہولیات مہیا کررہی ہیں لیکن انسانی حقوق کی پامالی خود انسان ہی کرتا ہے۔ انسانیت کے احترام کی دھجیاں بھی خود انسانوں کے ہاتھوں سے ہی بکھرتی ہیں۔ انسان ہی انسان کا بہت بڑا دشمن اور خون کا پیاسا ہے۔ جو ممالک انسانی حقوق کے چیمپئن ہیں اور اس کا واویلا کرتے تھکتے نہیں انہوں نے ہی انسانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے مہلک ترین کیمیائی ہتھیاروں کے انبار بھی لگا رکھے ہیں۔ ہیروشیما سے لے کر عراق، افغانستان، شام، کشمیر، فلسطین اور پاکستان تک لاکھوں افراد ان کی زد میں آکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جرائم پیشہ اور دہشت گرد افراد کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ بے گناہ انسانوں کی جانیں تلف نہ ہوں۔ ایک ایک انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ بادشاہ اور فقیر کے خون کی رنگینی میں کوئی فرق نہیں ہوتا، کیونکہ دونوں ہیں تو انسان ہی۔ احترام انسانیت کا آغاز سب سے پہلے ہر انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے انسان اپنے لیے وہ رستہ اختیار کرے جو بنی نوع انسان کے لیے باعث فخر ہو نہ کہ ننگ و عار۔ وہ کردار اور حسن عمل اختیار کرے جس سے سماج کے دوسرے لوگ مستفید ہوں۔

اس کے رویے دوسرے انسانوں کے لیے سود مند ہوں نہ کہ تکلیف دہ۔ اس کے بعد احترام انسانیت کا دائرہ گھر کی چار دیواری تک پہنچتا ہے۔ گھروں میں بسنے والے افراد خواہ وہ بوڑھے، جواں اور بچے ہوں یا مرد و زن، حفظ مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے کی عزت و احترام اور جذبات و احساسات کا لحاظ رکھیں۔ دنیا کا ہر ضابطہ اخلاق اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں سے شفقت کا رویہ رکھو۔ لیکن آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو فقط انسانیت کی بنیاد پر احترام خال خال ہی نظر آتا ہے۔ خونی رشتے نبھانے کے لیے ایک حد تک باہمی احترام کا تعلق کسی حد تک ابھی بھی استوار ہے۔ یہ بھی غنیمت سے کم نہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ گھروں میں کام کاج کرنے والے بچے اور بچیاں بھی انسان ہیں۔ ان کے کھیلنے اور پڑھنے کی عمر تھی، لیکن حوادثات زمانہ اور غربت و افلاس کی مصیبتوں نے انہیں گھروں میں کام کاج پر مجبور کردیا ہے۔ کیا ہم انہیں بھی اپنے بچوں جیسا سمجھ کر کبھی نرمی اور شفقت سے بات کرتے ہیں۔ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں یا اپنے بچوں کی طرح ان سے بھی حسن سلوک رکھتے ہیں۔ یقیناً عمومی طور پر معروضی حالات کے تناظر میں جواب نفی میں ہے۔ بلکہ کچھ عرصہ سے تو ہمارے معاشرے کی انتہائی تکلیف دہ خبریں اس حوالے س منظرعام پر آرہی ہیں۔ کہیں مالکان نے ان کام کرنے والے کم سن بچوں اور بچیوں کو جسمانی تشدد کرکے برا حال کردیا۔ حالات خراب ہونے پر کسی ہسپتال کی چوکھٹ پہ پھینک آئے یا اہل خانہ کو لالچ دے کر راضی نامہ کرلیا۔

سوچنا یہ ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم کیوں اپنی اخلاقی اور ثقافتی اقدار سے بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے آخری خطبہ میں بھی یہی تلقین کی تھی کہ جو خود کھائو، وہی اپنے ملازموں کو کھلاؤ۔ جو خود پہنو، وہی اپنے ملازموں کو پہناؤ۔ دولت کے نشے میں یہ بدمستیاں یقیناً انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے انسانی اقدار کو پامال کیا انہیں اللہ نے معاف نہیں کیا۔ فرعون جیسے ظالم اور قاتل انسانیت کو بحر قلزم کی موجوں میں غرق کردیا گیا۔ انسانیت کی حالت زار سے بے حس قارون کو محلات اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ ایک مچھر نے نمرود کی خودساختہ خدائی کا بانڈہ سربازار پھوڑ دیا۔ سر کو چکرا چکرا کر موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ واقعات ہمارے لیے تازیانہ عبرت سے کم نہیں-

گھروں کے بعد پورے معاشرے میں احترام انسانیت کی فضا پیدا کرنے کی باری آتی ہے۔ معاشرے میں بہو، بیٹیوں کے ساتھ رکھا جانے والا ناروا سلوک معمول بن چکا ہے۔ کئی روح فرسا واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ساس اگر بہو کو اپنی بیٹیوں جیسا درجہ انسانی بنیادوں پر دے اور بہو اسے اپنی ماں کی طرح جانے تو کئی معاشرتی فسادات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہمارے تمام رشتے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا پہلا رشتہ یہ ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک ہی ماں، باپ کی اولاد ہیں اور وہ ہیںحضرت آدم علیہ السلام اور حضرت مائی حوا علھیا السلام۔

اسلامی نقطہ نظر سے اس تمام ظلم و ستم اور جور و بربریت کے پس منظر میں خدا خوفی اور فکر آخرت کا فقدان ایک اہم عنصر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احترام انسانیت کے لیے کسی بھی قسم کے رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تفریق نہیں۔ بلکہ ہر ایک کا احترام بہیثیت انسان کرنا ضروری ہے۔ وقتاً فوقتاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیر مسلموں کے وفود آیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھتےحسن سلوک فرماتے اور نرم لہجے میں ان سے محو گفتگو ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں پسندیدہ ترین وہ بند ہے جو مخلوق خدا سے اچھا برتاؤ کرتا ہے۔‘‘ لوگوں کے ساتھ ملنساری کے ساتھ مسکراکر ملنا بھی ان کی عزت افزائی میں شامل ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ ’’مسکراکر بات کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘

آج ہمیں ضرورت ہے کہ انسانی اقدار کو پہچانیں سوچ اور فکر کے زاویے بدلیں۔ معاشرے میں بسنے والے دوسرے لوگوں کا خیال رکھیں ان کو راحت و آرام پہچانے کا عزم کریں۔ خودغرضی اور نفس پرستی کی بجائے دوسروں کے احترام کا خیال رکھیں۔ یقیناً اس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی نفرتیں اور عداوتیں ختم نہ بھی ہوسکیں تو ان میں نمایاں کمی ضرور واقع ہوگی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.