” واپسی کا سفر پرانے پاکستان میں”

530

جب یہ کالم شائع ہوگا تو پرانے پاکستان کے اقتدار پر پرانے جانے پہچانے بلکہ آزمودہ چہرے دوبارہ براجمان ہو چکے ہونگے میری طرح کے تارکین وطن جن کی اکثریت پچھلے تین چار سالوں سے کچھ زیادہ ہی پاکستان کے بارے میں پُر امید تھی اسکی بڑی وجہ ایک ہی شخص تھا پھر اس کے ساتھ جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے پاکستان میں عوامی وزیر اعظم عمران خان جدید پاکستان کے ایک معمار کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات میں اپنا نام اور مقام رقم کرواچکا ہے علی سردار جعفری نے اج سے 50 سال پہلے ایک طویل نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا- ایشیاء جاگ آٹھا – باقی سب ممالک تو جاگ گئے مگر پاکستانی اب جاگنے لگے تھے اور اپنے اس عمل کے دوران وہ ایک بہت بڑے حادثے کا شکار ہوئے ان سے انکی قیادت کو چھیننے کی ایک مذموم سازش ہوئی ہے علی سردار جعفری نے کچھ لوگوں کی نشاندہی کی تھی اس نے کہا تھا
"یہ لٹیرے ملک کے غدار ڈالر کے غلام
جن کے منہ میں تم نے ڈالی ہے حکومت کی لگام
یہ بخل بچوں یہ پٹھو بھی نہیں آئیں گے کام
یہ تو ہیں بھاڑے کے ٹٹو ان سے مت بازی لگائو
بھاگ جاؤ ایشیاء سے بھاگ جاؤ
گو کہ عمران خان کو وقتی طور پر اقتدار سے الگ کردیا گیا ہے انصاف کی ایک نئی کہانی رقم ہوئی عدالتیں اتوار کو بھی دن کی روشنی میں کھلیں اور رات کے اندھیرے میں بھی کھلیں-اتوار کو بھی اور سوموار کو بھی – ایٹم بھی ایک- کمرہ عدالت بھی ایک – ایجنڈا بھی صرف عمران ہٹاو ایک- -ہائے کیا غضب کا انصاف ہے دن کے ساڑھے 12 بجے عمران خان کی نظر ثانی کی درخواست اس لئے قبول نہیں کی گئی کہ اب دن کے ساڑھے 12 بج گئے ہیں خچروں اور گھوڑوں کی خرید و فروخت کو نظر انداز کردیا گیا حالانکہ عمران مخالف اپوزیشن جماعتوں کی فرمائش پر رات کے اندھیروں میں ججوں کی دوڑیں لگ گئیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
سلام ہو اسد قیصر اور قاسم سوری کو جنہوں نے ایک غیر جمہوری عمل کو اور بیرونی سازش کا معلوم ہونے کے بعد عہدوں کو ٹھوکر مار دی توقع کی جارہی ہے کہ عمران خان ایک مرد آہن کی طرح عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں گئے اور عوام ان کی پکار پر لبیک کہیں گے

آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گئی

وہ لوگ جو طلوع ہوئے ہیں امریکی ایندھن کی مدد سے وہ عوامی ریلے سے جلد ہی غروب ہوجائیں گے یہی تاریخ کا فیصلہ ہوگا کیونکہ بقول شاعر
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

عمران خان 2013 کے الیکشن سے تھوڑے پہلے میرے ٹی وی کے پروگرام منزل بہ منزل کی ریکارڈنگ کے لئے تشریف لائے تو میں نے سوال کیا امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تحریک انصاف کی عمران خان کی کیا پالیسی ہو گی آپ کو امریکہ فرینڈلی کردار ادا کرنے کی آفر ہوتی ہے – عمران خان بلا جھجک بولے امریکہ کی دوستی میں کوئی قباعت نہیں لیکن امریکہ کی غلامی نہیں کریں گے یہ جو ڈالروں کے پجاریوں نے ڈالر لے لے کر جو اپنے پاکستانی قتل کروائے یہ سب بند ہونے تک میں احتجاج کرتا رہوں گا یاد رہے کہ ان دنوں عمران خان امریکی ڈراون حملوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور اسی وجہ سے 2013 کے الیکشن میں انکی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے انہیں طالبان خان کے القابات سے پکارا گیا پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ امریکہ کو افغانستان میں ہزیمت آٹھانی پڑی طالبان کا دفتر دوحا میں کھل گیا اور امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور طالبان آج پھر افغانستان کے حکمران ہیں آج اہل پاکستان کی طرح اوورسیز پاکستانی پوچھتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں ہٹایا گیا میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے امریکہ کا پریشر آیا ہے اور ہماری قیادت اس کو ہینڈل نہیں کرسکی پھر سادہ لوح لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں چھ لاکھ فوج ہے 22 کروڑ عوام ہیں اتنا بڑا ملک ہے پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ تو پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتا تھا وہ تو اسلاموفوبیا کے خلاف بات کرتا تھا اس نے غریب کو دس لاکھ کے ہیلتھ کارڈز عوام کو دیئے وہ غریبوں کا ہمدرد تھا اس نے اپنے قریبی ساتھیوں علیم خان اور جہانگیر ترین کے خلاف کیسوں میں انکی ناراضگی مول لی جو اب اس کی مخالفت کررہے ہیں
ایک برطانوی ہوٹل کے مالک بھارتی سکھ نے پوچھا کہ پاکستان میں عمران خان کے ساتھ کیا ہورہا ہے میں نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے جو ایک دستوری عمل ہے آئین پاکستان میں شامل ہے کہنے لگا کہ اس نے پڑھا ہے کہ امریکہ نے تین سو ملین ڈالر دیئے ہیں اور ممبران آف پارلیمنٹ خریدے گئے ہیں یار اتنے پیسے تو ہم دو چار سکھ ہی عمران کو دے دیتے کرتارپور راہداری کھول کر عمران خان نے بابا گرونانک کی زیارت کروا دتی بابا گرونانک اس کو سلامت رکھے

مانا عوامی وزیراعظم عمران خان انسان ہے اس کو اقتدار کا تجزبہ نہیں تھا حکمرانی کے اسرار و رموز سے ناآشنا تھا اس سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن وہ ایک محب وطن پاکستانی ہے اس کی عوامی مقبولیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے شاید یہی وہ خوف ہے کہ اپوزیشن جماعتیں الیکشن میں جانے سے گھبرا رہی ہیں لیکن عوامی طاقت اور عوام میں عزت نے آج اس کے وقار میں اضافہ اور اسے عظیم تر کے رتبے پر فائز کیا ہے اقتدار اس کی نے بلکہ پاکستان اور اہل پاکستان کی ضرورت تھی پاکستان سلامت رہے آج اس سے روشنی لے کر کئی مائوں کی گود میں اور عمران خان ہیدا ہوچکے ہیں جیسے وفاقی وزیر علی احمد خان جس کی ایک تقریر 32 تقریروں پر بھاری تھی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Comments are closed.