پاکستان سے باہر رہ کر جب اپنے ملک کے مستقبل، اداروں اور جمہوریت،عدلیہ،سیاست،معیشت،عسکری اور سول لیڈرشپ کا دوسرے ملکوں سے موازنہ کریں تو دور دور تک مایوسی، ناامیدی اور تاریکیوں کا عنصر غالب نظر آتا ہے،عمران خان فیکٹر کے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد تو یہ حقیقت اور بھی زور وشور سے اجاگر ہوگئی ہے کہ پاکستان کی موجودہ عدلیہ، مقننہ، عسکری لیڈرشپ، میڈیا اور کرپٹ ترین سسٹم کی موجودگی میں کسی کا احتساب نہیں ہوسکتا نہ ہی پارلیمانی نظام اور جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے نہ آئین پاکستان کی روح سے تفویض شدہ اختیارات کے مطابق ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتے ہیں نہ ہی ملک کا چیف ایگزیکٹو کچھ کر سکتا ہے حتٰی کہ نہ کسی کی تقرری کو روک سکتا ہے نہ کسی کی تقرری عمل میں لا سکتا ہے سوال یہ بھی ہے کہ رواں ماہ 10 اپریل کو ملک کا بظاہر وزیراعظم تو عمران خان تھا لیکن ملک کس کے حکم سے چل رہا تھا
افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ نظریہ ضرورت اور انتقام کے تحت فیصلے ہورہے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ ہم ایک کمپرومائزڈ قوم ہیں. پھر سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان ناکام ہوا ہے یا ہم پاکستانی من حیث القوم ناکام ہوئے ہیں ہم جو تبدیلی کے خواب دیکھ رہے تھے اس کا مرکز و محور تو عمران خان ہی تھا اس میں اچانک بریک کیس نے لگائی؟
عمران خان کی طرح ہمیں پچھلے ساڑھے تین سالوں میں ان سارے عوامل اور خرابیوں کا ادارک تو کم از کم ہوگیا ہے کہ خرابی کہاں ہے عمران خان نے ان خرابیوں کو حل کرنے کیلئے کوششیں تو ضرور کی ہوں گی مگر وہ شاید بے بسی کی وجہ سے کچھ زیادہ نہیں کرسکا لیکن تعفن زدہ ناسور، بدعنوان اور کسی حد تک لا علاج مرض کی تشخیص تو کم از کم ہوگئی ہے کہتے ہیں مرض تشخیص ہوجائے تو علاج مشکل نہیں ساری قوم کو پتہ تو چل گیا ہے کہ نسل در نسل موروثی، خاندانی اور کرپٹ نظام میں بریک تھرو کرنا کتنا مشکل ہے ہمارے ملک کی مافیا ایک چین آف کمانڈ ہے ہماری قومی لیڈرشپ اور وہ سب لوگ بے نقاب تو ہوئے جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی باگ ڈور ہے آج بچہ بچہ وہی کہہ رہا ہے جو عمران خان کہہ رہا ہے سازش تھی یا مداخلت- ایک عوامی حکومت کا دھڑن تختہ اچانک کیسے ہوا – کچھ فورسز تو ہیں جس نے یہ آگ لگائی ہے بڑی خطرناک ہے اسلام آباد سے خیبر تک کراچی تا واشنگٹن اور یورپ کی گلی محلوں کی سڑکیں بلاک ہورہی ہیں ہمارے اداروں کی عزت کی ایسی تیسی ہورہی ہے گالیاں پڑ رہی ہیں بچے بوڑھے نوجوان اور خواتین بیک زبان ایک ہی بات کہتے ہیں امپورٹڈ حکومت نامنظور،امریکہ کی غلامی نامنظور
خدانخواستہ ایمرجنسی لگ جاتی فوج ایوان اقتدار سنبھال لیتی تو عوام کا ردعمل اتنا شدید نہ شاید نہ ہوتا فوج اور عدلیہ اتنی بدنام نہ ہوتی ہمارا ملک بدنام نہ ہوتا قوم میں مایوسی نہ بڑھتی، میڈیا میں بیٹھے ہوئے بعض لوگ مراعات یافتہ پلاٹوں اور لفافوں کے رسیا یہ پٹھو یہ غلام بعض صحافی اور بعض خود ساختہ اینکر،بدبودار یوٹیوبرز میڈیا مالکان عمران کے بغض اور حسد میں پاکستان میں اس کے عوامی جلسے جلسوں میں بڑھتی تعداد کو بھی فوٹو شاپ کا کمال دکھا رہے ہیں اندھا دھند سفید چورن کو دن کی روشنی میں کالا کر کے فروخت کررہےہیں خباثت اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کو کبھی امریکہ مخالف بیانیہ قرار دے رہے ہیں کبھی لغو فضولیات بکتے ہیں دنیا بھر میں ہونے والے یہ مظاہرے لندن برسلز واشنگٹن پھر ہر شہر میں عمران خان حکومت کی حمایت میں یہ عام پاکستانیوں کے مظاہرے کس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں نہ کہ وہی گھسے پٹے آزمودہ چہروں کو جوڑ توڑ , پکڑ دھکڑ کر ایک ڈھانچہ کھڑا کر دیا گیا ہے یہ ہمارے آئین قانون اور عدالت و انصاف کی توہین ہے یہ اندھیر نگری ہے باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ بن جاتا ہے یہ کیا کسی بولی ووڈ لولی ووڈ کی فلم کا اسکرپٹ نہیں ہے باہر کی دنیا میں آباد پاکستانی اپنے ہی ملک کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کررہے ہیں ہمارے لئے تو پاکستانی سفارتخانے ہی پاکستان ہیں اورسیزز میں آباد پاکستانی جو اپنے ملک کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور پاکستان کے وسیع تر مفادات کا ہمیشہ ہر پلیٹ فارم پر ہر محاذ پر تحفظ کرتے ہیں وہ آج مایوس کیوں ہیں اور اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں یہ پاکستان کے بلا معاوضہ سفیر ہیں یہ پاسبان وطن ہیں یہ ملک کی معیشت چلاتے ہیں میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں یہ تحریک رُکنے والی نہیں ہے
پاکستان کی چار نسلیں اسٹیبلشمنٹ اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے اپنی خوا ہشات کا خون بیچارگی کے ہاتھوں قبول کرچُکے، بھٹو کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عوام میں پھر پاکستان کا مطلب لا الہ الا الله اور حقیقی آزادی کی امید اور تحریک نے جنم لیا ہے اگر اس وقت سماجی و سیاسی رہنما اپنے ذاتی مفادات کو بھُلا کر اکٹھے نہ ہوئے تو وہ وطن کی بُنیادوں میں شامل پچھلی نسلوں کے خُون سے غداری کریں گے اور آنے والی نسلیں ان کے نشان تک مٹا دے گی ۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مغل غوری سلجوک عثمانی خاندانوں کا کوئی وارث نہیں ملتا۔
مملکتِ خدا داد پاکستان، مسلمانان برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ علامہ اقبال رح کا خواب اور قائد اعظم رح کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو؛ معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور اَمانت و دیانت جس کے معاشرتی امتیازات ہوں؛ جہاں حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں؛ جہاں فوج آزادی و خود مختاری کی محافظ ہو؛ جہاں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہو اور جلد اور سستے انصاف کی ضامن ہو؛ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو؛ جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟
عمران خان کو ختم کیا جارہا ہے اس کی کردار کشی کی جائے گئی فارن فنڈنگ کیس چلایا جارہا ہے اس کی پارٹی کو بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے اسے جیل ڈالا جاسکتا ہے لیکن جو شمح اس نے جلائی ہے جو امید اس نے جگائی ہے وہ ایک عظیم تر قوم بننے کا خواب ہے جب سات سالہ بچہ کمپیوٹر پر گیم چھوڑ کر عمران خان کی تقریر سننا شروع کر دے تو پھر سمجھ لیا جائے کہ نہ وہ مر سکتا ہے نہ دب سکتا ہے اور یہاں سے انقلاب کا آغاز ہوتا ہے ہجوم سے ایک قوم بننے کا – زرہ حوصلہ صبر اور استقامت دکھانی ہے ایران اور فرانس کے انقلاب کو مدنظر رکھنا ہے عوام کی طاقت بہت ہوتی ہے سامنے نطریہ پاکستان یے پاکستان کی خود مختاری اور ازادی کا تحفظ ہے جب کہ بے بیباک اور ولولہ انگیز لیڈر کا ساتھ دینا ہے
Comments are closed.