’’مداخلت یا سازش نہیں تو پھر کیا ہوا‘‘

137

کتنے بے وقوف ہیں اور کس کو بیوقوف بناتے ہیں جب کوئی کسی کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو پہلے اس کے بارے میں سوچ کر سیکم یا پلان بناتا ہے اور بعد میں اس پر عمل کرتا ہے پہلے سوچنا یا پلان بنانا اور پھر عمل کرنا مداخلت ہے لہذا سازش اور مداخلت بیک وقت لازم و ملزوم ہوتے ہیں اس لئے قومی سلامتی کمیٹی کا موقف الجھا ہوا غیر واضح اور مبہم ہے بڑا تعجب ہوتا ہے جن کی اپنی سیکورٹی کلیر نہیں وہ آج نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں بیٹھے ہیں، جو اس ساری تبدیلی یا عمل سے مستفید ہورہے ہیں وہی اس کے حق میں فیصلہ دے سکتے ہیں یا کیا اس کی تصدیق کرسکتے ہیں یہاں مجھے اپنے استاد محترم پروفیسر محمد رفیق بھٹی کا ایک شعر یاد آیا
میرے کھوجی کا اندازہ نہائت معتبر نکلا
کُھرا چوری کا جاکے چوہدری صاحب کے گھر نکلا

قومی سلامتی کمیٹی کے اس بیانیے سے تین سچائیاں سامنے آتی ہیں
1-عمران خان حکومت کو گرانے کے لئے خط لکھا گیا اور خط اپنے سفیر نے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سارے متعلقہ اداروں یا افراد کو ارسال کیا
2- سازش اور مداخلت بیک وقت واقع ہوئی ہے
3-قومی سلامتی کمیٹی اپنے ہی بیانیے میں پھنس گئی ہے دوسری بار اس کی تصدیق کرچکی ہے –
مزے کی بات تو ہے کہ آرمی چیف آف سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی ایک خاص میٹنگ لیکس بیانئے کے طور پر یہ کہا کہ انہوں نے عمران خان کو سمجھایا تھا کہ بھائی امریکہ سے ہمارے مفادات وابسطہ ہیں اس لئے ہاتھ ہولا رکھو ان تین حقائق کی روشنی میں اگرچہ کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں بقول چوہدری شجاعت مٹی پاؤ جی کی کوشش کی گئی ہے لیکن بلّی تھیلے سے باہر نہیں آئی بلکہ تھیلا ہی بلّی کو چھوڑ گیا اب اس سارے گورکھ دھندے سے باہر نکلنے اور نیک نامی حاصل کرنے کا ایک ہی واحد راستہ ہے کہ عمران خان کے معصومانہ مطالبے پر جتنا جلدی ہوسکے الیکشن کروا کر اس کمبل سے جان چھوڑوا لی جائے بقول شاعر
جان بچی تو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدو گھر کو آئے

ماضی قریب کی بات ہے ستمبر 2019 کو میری ذاتی طور چیف آف ارمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکہ جاتے ہوئے لندن لوٹن کے ایک تُرکش ریسٹورنٹ میں ایک اچانک ملاقات ہوئی تھی وہ امریکہ جاتے ہوئے لندن میں رُکے تھے میں نے موقع کی مناسبت سے ان سے چند اپنی گزارشات تحریری طور پر بھی اور پھر زبانی بھی نفس نفیس انکے گوش گزار کی تھیں میں نے مودبانہ گزارش کی تھی کہ جن لوگوں پر کرپشن کے کیسزز ہیں چیف صاحب انکو اگر وہ قصور وار ہیں تو انکو منطقی انجام تک پہنچانے میں قومی کردار ادا کریں میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ میں خود ایک فوجی کا بیٹا ہوں ہم جیسے پڑھے لکھے عام محب وطن پاکستانی ملک چھوڑنے پر اس لئے مجبور ہوئے ہیں کہ ہمارے ملک کے وسائل کو تباہ کیا گیا بے دردی سے لوٹا گیا ہے اور عام آدمی کے لئے روزگار اور انصاف نہیں آج ہم بیرون ملک میں رہ کر ملک کی خدمت کرتے ہیں ہمارے دل ملک کی بہتری کے لئے تڑپتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ مملکتِ خداداد پاکستان ترقی کرے اور ہماری آئندہ نسلیں اسی طرح ذلیل نہ ہوں میں نے کہا تھا باجوہ صاحب آپ استقامت دکھانا آپ کو میری عمر لگ جائے یہ جملہ جب بیگم باجوہ صاحبہ نے سنا تو انہوں نے مجھے منح کیا تھا کہ ایسا نہ کہیں میں نے اپنے ایک صحافی دوست اسرار خان جو لوٹن ایشیئن پوسٹ کے ایڈیٹر ہیں انکا بھی تعارف کروایا تھا کہ انہوں نے بھی ڈگری کی ہوئی ہے لیکن ہم اپنے ملک سے باہر محنت مزدوری کرتے ہیں ہمیں تو اپنے ملک میں ہونا چاہیئے تاکہ ہم اپنے ملک کی خدمت کرسکیں ہمارا ملک اشرافیہ کے سپرد ہے جو ہمارے ہی وسائل لوٹ مار کرکے نسل در نسل امیر تر ہورہے ہیں چیف صاحب نے وعدہ کیا تھا ان شاء اللہ پاکستان کے لئے بہتر ہوگا آپ فکر نہ کریں میں نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ ہمارے ملک میں ہماری افواج کا سول حکومت کو چلانے میں بڑا کردار رہا ہے سچ یا غلط یہ ہر زبان زد و عام ہے چونکہ ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہور براہ نام ہے اور پھر سیاست دان بھی ناعاقبت اندیش ہیں جو ہر دفعہ چور دروازے سے آتے ہیں اور مار کھاتے ہیں اب جب کہ 2022 میں ہم دیکھتے ہیں کہ شرجیل میمن جیسا گورنر سندھ بن گیا نہ لندن میں اس کے لئے شراب نوشی اسکی رکاوٹ بنا نہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس کے ہسپتال میں شراب کی بوتلیں پکڑتے ہیں نہ کرپشن کیسزز اس کے لئے مسئلہ ہے کیا سوچ رہے ہونگے ہمارے کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز جب اس کو اب سلیوٹ کریں گے میمو گیٹ سکینڈل والے اور ڈان لیکس والے جنہوں نے اس پاک فوج کو دنیا میں بدنام کروانے کے لئے ہر پلیٹ فارم استعمال کیا تھا ہر طرح کی ہرزہ سرائی کی آپ کی موجودگی میں ان میں سے کوئی وزیر دفاع بن گیا جنہوں نے نواز شریف کے دور میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ کہا کہ ہماری فوج نے آج تک کیا کاکردگی دکھائی ہے 1947 اور 1965 میں ہماری فوج کو شکست ہوئی 1971 میں ان کی وجہ سے ملک ٹوٹا 1998-99 میں یہ لاشیں چھوڑ کر کارگل سے واپس آ گئے تھے اب وہی خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں اور انکے سرپرست اعلیٰ شہبازشریف نوازشریف ہیں آپ شاید بھول گئے ہونگے نوازشریف کے بیانات آپ کے بارے میں اور فوج کے بارے میں کیا رہے ہیں مجھے کیوں نکالا سے لے کر بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور اجمل قصاب کے بارے میں یہ کیا کچھ کہتے رہے ہیں آج 36 رکنی کابینہ میں 24 کرپشن کے کیسزز میں ضمانت پر رہا ہیں یہ پاکستان کوئی بنانا ریپبلک ہے جہاں آئین نہیں ہے یا دستور نہیں ہے عدالتیں ہیں قوم کے جزبات اور احساسات اگر بڑھکے ہوئے ہیں تو اس کے جواز بے شمار ہیں اگر آج کے حکمران بالکل پاک صاف ہیں تو پھر ان ہی ادروں ان ہی عدالتوں نے انہی قوانین کے تحت انہیں نااہل بھی قرار دیا تھا اور سزائیں بھی سنائیں جو آج دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھائے گئے ہیں یا ماضی میں جو کچھ ہوا وہ غلط تھا یا آج جو کچھ ہورہا ہے یہ غلط ہے یہ جو ملک میں ایک طرح کی خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوگے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے آج 90 لاکھ سے سے زائد تارکین وطنوں میں شدید غم و غصہ اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ناانصافی ہوئی ہے یہ اورسیزز پاکستانی پاکستان کے بلامعاوضہ سفیر اور سپاہی ہیں جو ہر محاذ پر ہر پلیٹ فارم پر پاکستان کے عظیم مفادات میں ہمیشہ دفاع کرتے ہیں آج اپنے ہی سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے کررہے ہیں یہ آگ کیوں اور کس نے لگائی ہے یہ میرے ملک کے ساتھ بُرا ہوا ہے امریکہ اور بھارت اور پاکستان کے دشمن یہی تو چاہتے تھا کہ پاکستان کی قوم کو تقسیم کیا جائے آج فیملیز آپس میں لڑائیاں کررہی ہیں دوست رشتہ داروں میں بری طرح تقسیم ہے خدا کے لئے اس ملک کو سنبھالیں اس قوم کو دوبارہ متحد کریں یہ قوم منتشر اور مشتعل ہے اور تاریخ میں کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف صف آراء ہوجائیں آج میرے ملک کے فیصلے لندن میں ہورہے ہیں اور پھر وزرت خارجہ کے امور امریکہ میں بیٹھے ہوئے حسین حقانی چلا رہے ہیں پھر باقی رہ کیا گیا ہے کہ بحث کرنے کے لئے – کہ سازش ہے یا مداخلت؟
پھر اب اس ملک کے آئین اور قانون و دستور کی کتابوں سے غدار کا باب حزف کردیا جائے تو بہتر ہے سابق ڈی جی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس موجود ہے جس میں انہوں نے محسن داوڑ اور دیگر پر باہر سے فنڈز وصول کرنے کی تصدیق کی تھی اب اختر مینکل علی وزیر اور داوڑ جیسے لوگ ہمارے وزیر ہونگے اس ملک کا الله ہی حافظ ہے

Comments are closed.