بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

418

پورے ملک پاکستان میں وزارتوں کی منڈی لگی ہوئی ہے ایک دوسرے کو چور لٹیرے اور ڈاکو کہنے والے آئین پاکستان کا حلف لے رہے ہیں کہ ہم اس ملک کو ٹھیک کریں گے ۔۔اگر اس ملک کی 50 سال کی سیاست کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور پھر آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ دیکھا جائے تو دماغ ماوف ہوجاتا ہے اور سوچ ختم ہوجاتی ہے یہ کون لوگ ہیں انہوں نے ایک دوسرے پر کیا بہتان تراشیاں نہیں کیں کیا کیا بُرا بھلا نہیں بولا کیا وہ کل غلط تھا یا کہ آج درست ہے کون پوچھے ان سے ؟؟؟

یہ قوم کیوں خاموش ہے کیوں نہیں پوچھتی کہ دو خاندانوں نے گزشتہ کتنے عرصے سے ملک کے پورے نظام کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ۔یہ عدالتوں سے یہ بچ جاتے ہیں ۔اداروں سے یہ بچ جاتے ہیں جھوٹ سرعام بولتے ہیں یہ اشرافیہ کا ٹولہ ہے جو امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں اقتدار صرف ان کے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے ۔پورے 22 کروڑ عوام میں کوئی حمزہ جیسا قابل نہیں کہ وہ وزیراعلی بن سکے ۔پوری پاکستان پیپلز پارٹی میں کوئی 27 سالہ بلاول جیسا قابل سیاست دان نہیں کہ وزیر خارجہ بن سکے کیا مزاق ہے یہ ؟؟

کون سی دنیا میں رہتے ہیں ہم لوگ؟؟ ۔یہ 22 کروڑ عوام کیا بھیڑ بکریاں ہیں کہ ان کو صرف چند افراد ہی چلا سکتے ہیں پچیس پچیس سال کے بچوں کے سامنے ساٹھ سالہ سیاست دان ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔اور پھر وہی 60 سالہ سیاست دان ان کو بیٹھ کر انکا دفاع کر رہے ہوتے ہیں کدھر گئی تمہاری خود داری تم کیوں غلام بن رہے ہو ۔ان میں ایسا کیا ہے جو تم میں یا تمہارے بچوں میں نہیں ہے ۔یہ کون لوگ ہیں کیوں ان کے غلام بن رہے ہو کیوں نہیں تم کو سمجھ آتی کہ یہ اقتدار میں کیوں آتے ہیں صرف اور صرف حکمرانی کرنے کے لیے۔کیوں ملک غریب ہے اوریہ ارب پتی ہیں کیوں ان کا پیدا ہونے والا بچہ ہی کل آپ لوگوں کا لیڈر بنتا ہے میرے آپ کے بچے کیوں نہیں بن سکتے ۔

کس نے آپ لوگوں کو روک کر رکھا ہے کہ اس غلامی اور خاندانی حکمرانی کے خلاف نہ بول سکو۔کیوں اندھے ہو کیوں نہیں ان کا رہن سہن اپ کو نظر نہیں آتا کیسے یہ اقتدار میں آکر آپ کے ٹیکسوں کے پیسوں سے عیاشیاں کرتے ہیں ۔۔کیسے ان لوگوں نے اداروں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے کیسے یہ ججوں کو اور عدالتوں اور میڈیا کو خرید لیتے ہیں۔

کب تک ہم لوگ یہ ظلم دیکھنے رہیں گے اور برداشت کرتے رہیں گے ۔۔اپنی آنے والی نسلوں کو ان کی اولادوں کے غلام بناتے رہیں گے کب تک کیوں ہم ان کے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کرتے رہیں گئے کہ وہ بڑے ہو کر ہم پر حکمرانی کریں۔کیوں ہم نے اپنی ضمیروں کو مردہ کر دیا ہے ۔کیوں نہیں ہم جاگتے کیوں نہیں ہم ان خاندانوں کے حصار سے باہر نکل پاتے ذہن کیسے تسلیم کر رہا ہے کہ 22 کروڑ کے ملک میں صرف باپ وزیراعظم بن سکتا ہے اور بیٹا وزیراعلی۔۔
کیسے ذہنن یہ مان رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں درجنوں سینئر سیاست دانوں کی موجودگی میں صرف بلاول زرداری ہی وزیر خارجہ بن گیا ۔

یہ کیا مزاق ہے اس ملک کے ساتھ ۔۔کیسے اقتدار کو اس طرح تقسیم کیا جا رہا ہے جیسے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں ہیں۔۔اور لوگ خاموش ہیں۔
اور وہ بھی وہ لوگ ساتھ مل گے ہیں جو ایک دوسرے کہ خون کے پیاسے ہوتے تھے ۔ایک دوسرے کو غدار ڈاکوں اور کرپٹ نہ صرف بولتے تھے بلکہ ایک دوسرے پر کرپشن کہ سینکڑوں کیسز موجود ہیں۔
یہ کیسا نظام ہے یہ کیسا دستور ہے؟؟ ہم کب سوچیں گے ۔

۔ایک شخص نے اس سسٹم کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو اس کو اسمبلی میں اکثریت ہونے کے باوجو بازو توڑ کر ہاتھ پائوں باندھ کر مکھی کی طرح اس پورے سین سے اداروں کی مدد سے اور سازش سے نکال دیا گیا ۔۔۔
کیا یہ باتیں ہم سب کی سوچنے کی نہیں ہیں کیا ہر پاکستانی کو یہ سوال پہلے خود سے اور پھر ان سے نہیں پوچھنا چاہئے؟؟؟
سنا ہے شہر کی خاموشیوں پر قہر ٹوٹے گا
اسی کا جسم بولے گا اسی کی ذات بولے گی
تمہیں معلوم ہے کُچھ بولنا کتنا ضروری ہے؟
اگر خاموش ہو جاو گے تو پھر مات بولے گی ؟؟

Comments are closed.