’’ماں صدقے ماں قربان‘‘

143

آصف زرداری کی سیاست کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے کہ ایک زرداری سب پر بھاری – اگر یہ بات زر یعنی دولت کے حوالے سے ہے تو درست ہے کیونکہ ایک شاعر کہتا ہے کہ آنکھیں اندھی دل بھی اندھا اندھی یہ تیری قسمت بھی قبر صفت گھر میں بھی اندھیرا- اندھی یہ تیری دولت بھی لعنت دنیا بھر کی تو نے خوب اکٹھی کرلی ہے لاکھوں جیبیں خالی کرکے اپنی تھیلی بھر لی ہے یہ بے فیض خزانہ تیرا تیرے کام نہ آئے گا تُو نے دنیا کو ترسایا یہ تجھ کو ترسائے گا چین تیری تقدیر میں ہر گز اے میرے زردار نہیں مزدوروں کی چیخیں ہیں اشرفیوں کی کھنکار نہیں ۔

ان حقیقتوں کے پیش نظر بلاشک وشبہ موصوف سب پر بھاری ثابت ہوئے ہیں لیکن سیاسی حوالے سے میں یہاں حامد میر کے ایک حالیہ انٹرویو کا حوالہ دونگا جس میں حامد میر نے آصف زرداری سے پوچھا آپ اپنا ایک ٹارگٹ عمران خان کو اقتدار سے الگ کرکے پورا کر چکے ہیں اب بتائیں اب آپ کا دوسرا بڑا مقصد کیا ہے تو اس کے جواب میں آصف زرداری نے حسب عادت مسکراتے ہوئے جواب دیا "پاکستان”

حامد میر نے دوبارہ پوچھا کہ پاکستان سے آپ کی کیا مراد ہے آصف زرداری نے جواب دیا پاکستان ہی ٹارگٹ ہے اب میں پاکستان کے موجودہ تباہ حال حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کو اپنے قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ خود ہی آصف زرداری کی پنجاب اسمبلی میں اعلانیہ کاروائی کی روشنی میں معنی و مفہوم اخذ کر لیں کہ کس طرح موصوف نے پاکستان کی سیاست، معیشت اور دفاع کو یرغمال بنایا ہوا ہے حالیہ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے پیچھے جو گجراتی خط منظر عام پر لایا گیا اس کے مصنف بھی آصف علی زرداری ہیں ایسا لگتا ہے آصف زرداری صاحب مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق دونوں سے اپنا پورا حساب چکتا کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب سردار دوست محمد مزاری کے جاہلانہ اور جانبردارنہ فیصلے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے البتہ پاکستان کی معیشت، سیاست اور اخلاقیات کا بیڑہ غرق کردیا گیا ہے اور آصف زرداری تو اپنے ٹارگٹ پر تیر برسانے اور پاکستان کی خستہ حالی پر پوری طرح کمربستہ ہیں جہاں تک اعلیٰ حضرت چوہدری شجاعت کا تعلق ہے ان کے پاس قریب کان لگا کر بھی بیٹھو تو انکی بات سمجھ میں آتی ہی نہیں ہے نہ جانے ڈپٹی سپیکر کے پاس کون سا عامل جن یا بھوت تھا کہ شجاعت صاحب کی بات اسمبلی کے شور شرابے میں بیٹھ کر فون پر بات صاف سن لی ہے چوہدری شجاعت کی جوانی میں بھی مجھے بات سمجھ نہیں آتی تھی البتہ ان کے برخوردار بھائی پرویز الہی ان کی بات انکے مکبر کے طور پر آ گئے پہنچایا کرتے تھے ۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کے خاندان کی نیک نامی اور روایات کا جنازہ جس طرح نکالا گیا ہے یہ تاریخ میں اچھے حروف میں نہیں لکھا جائے گا اور نہ ہی پاکستان کے باشعور لوگ اس عمل کو عزت سے دیکھیں گے 22 جولائی سے ڈپٹی سپیکر سردار دوست مزاری کی تحسین و تعریف تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان کے اندر اور باہر بڑے زور و شور سے جاری ہے ڈپٹی سپیکر نے پی ٹی آئی کی پشت میں چھرا گھونپ کر میر جعفر اور میرصادق کے طور پر سامنے آئے ہیں نام دوست ہے لیکن دشمنی اور غدّاری کی وجہ سے اپنے قبیلے اور خاندان کے لئے قابل فخر قطعاً نہیں انہوں نے جس طرح اپنے مفادات کی خاطر ملک و قوم کا سودا کیا ہے یہ بھی مستقبل کے محب الوطنوں کے لئے نفرت کی علامت رہیں گئے نہ دنیا کے رہے نہ آخرت کے. اور ڈپٹی سپیکر کے اس عمل سے ہمارا بوسیدہ اور بدبودار سیاسی اور جمہوری نظام جس طرح مزید بدبودار ہوا ہے اس کا تماشا دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں کسطرح کی شیم شیم ڈیموکریسی ہے کہ 179 والا جیت گیا اور 186 والا ہار گیا پاکستان کی جمہوریت کا جنازہ ان جیسے وطن فروشوں، کفن فروشوں اور ضمیر فروشوں کی وجہ سے نکلا ہے آخر میں منڈی بہاولدین کے بڑے چوہدری صاحب سے جان کی امان چاہتے ہوئے گزارش کرنا چاہتا ہوں کن لوگوں کو ہمارے ملک کے آوپر مسلط کردیا ہے جنہوں نے ہماری معیشت سیاست اور دفاع کو کمزور کردیا ہے آپ خود ہی اس حکومت کا جنازہ پڑھائیں چونکہ ان کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام آیا ہے جس سے معاشی بحرانوں نے جنم لیا اور ہم اج کمزور ہوئے ہیں کہتے اپنے وطن کی زمین دھرتی ماں کہلاتی ہے جیسے اپنی ماں ہوتی ہے اس کی حفاظت کے لئے آپ نے حلف لیا ہوا ہے ۔

ماں آج پکار رہی ہے آگئے بڑھیں اور دھرتی ماں کو بچائیں تاریخ میں امر ہوجائیں ابھی وقت ہے اور دھرتی ماں کی دعائیں لیں ماں صدقے ماں قربان۔

Comments are closed.