"سیلاب زدگان کی امداد اور جیب کُترے”

134

وطن عزیز میں سیلاب نے جو بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہوئی ہے اور غریب لوگوں کا جسطرح جانی و مالی جو نقصان ہوا ہے اس پر ہر درد دل انسان کو رونا آتا ہے سیلاب سے تباہی کے مناظر دیکھنے کے بعد اپنے ملک کا گھٹیا انفراسٹرکچر دیکھ کر اور بھی زیادہ دکھ ہوا ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں جس کی اتنی خستہ حالت ہے کہ ہمارے پاس ان آفات سے نمٹنے کیلئے کچھ نہیں ہے بہرحال سیلاب کی تباہ کاریوں کے لئے بیرونی ممالک سے انسان دوست ملکوں،حکومتوں،سماجی تنظیموں اور مخیر حضرات کی جانب سے فراخدلانہ امداد کا سلسلہ جاری ہے جو لائقِ تحسین ہے سوچنا اور دیکھنا یہ ہے کہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی یہ امداد متاثرین سیلاب تک پہنچتی ہے یا گِدھ ہمیشہ کی طرح کھا جائیں گے۔

ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ قبل ازیں جتنی بھی امداد ملتی رہی ہے وہ مُردار خوروں کے پیٹ بھرنے میں جاتی رہی ہے 2010 کو آنے والے سیلاب اور 8 اکتوبر 2005 میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے بعد جو غیر ملکی امداد ملی اس کا زیادہ تر حصہ جیب کُترے کھا گئے جن میں حکمران بیوروکریٹس، سماجی تنظیمیں اور انسانوں کی بھلائی کے نام پر چلنے والی بعض نام نہاد چیریٹیز شخصیات پیروں فقیروں اور صاحبزادوں کے کھیسوں میں چلی گئی یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آج اگر ہمارے پاس کوئی بتانے اور حساب و کتاب کرنے والا ہو تو پوچھے کہ بیرون ملک سے کتنی امداد آئی اور کہاں خرچ ہوئی ہے اور اب جو آرہی ہے وہ کتنی امداد آئی اور کون اس کا حساب دے گا میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں وزیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر اگرچہ یقین دہانی تو کروائی ہے کہ باہر سے آنے والی پائی پائی سیلاب کے متاثرین پر خرچ کی جائے گی لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ شہبازشریف خود کب تک وزیراعظم رہیں گے اور ان پر خود اس حوالے سے کئی سوالیہ نشان ہیں یہاں رفاعی تنظیموں کے نام پر بعض دوکانیں بھی کھلی ہوئی ہیں جو یتیموں غریبوں کے نام پر مال بناتے اور کفن چوری کرتے ہیں لہٰذا محب وطن مقتدر قوتوں اور حلقوں سے دست بدستہ اپیل ہے کہ وہ اس امداد کی پائی پائی اور پیسہ پیسہ مستحقین اور متاثرین تک پہنچانے کے عمل کو یقینی بنائیں اور کوئی ایسا طریقہ کار وضع کریں تاکہ دینے والے بھی سکون محسوس کریں اور لینے والے بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں ۔

حالیہ سیلاب نے جو ہمارے ملک میں تباہی مچائی ہے اس سے محض طفل تسلیاں دے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کی نااہلی خود غرضی اور مفاد پرستی کا نتیجہ ہے ہمیں آج سے 20 سال پہلے بارشوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پانی کی اس نعمت کو محفوظ بنانے کے لئے ڈیم بند اور محفوظ جزیرے تعمیر کرنے چاہیئے تھے تاکہ اللہ کی یہ نعمت ہماری نالائقی کی وجہ سے آج زحمت نہ بنتی یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں آتی ہیںجہاں آفاقی اور سماوی بلاوں کا نزول ہوتا رہتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے سال زلزلوں سیلابوں آندھیوں اور طوفانوں کی آمد و رفت ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ دیگر ممالک کی حکومتیں اور حکمران اپنے ملکوں اپنے اپنے ہموطنوں سے محبت رکھتے ہیں۔

انہوں نے ہزاروں کے حساب سے ڈیم بنارکھے ہیں مضبوط پختہ سڑکیں بنا رکھی ہیں اپنے لوگوں کو بجلی پانی اور صحت کی سہولیات دے رکھی ہیں ان ملکوں میں جب کوئی طوفان آتا ہے زلزلہ یا سیلاب آتا ہے تو تباہی اتنی نہیں آتی جتنی ہمارے ملک میں ہوتی ہے چونکہ دیگر ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کی طویل المدتی بنیادوں پر منصوبہ بندی کررکھی ہے مثلاً ان ہی دنوں میں ہمارے پڑوس چین میں بھی سیلاب آیا ہے اور بہت بڑے علاقے میں شدید بارشوں کے باعث دریائوں میں طغیانی ہے لیکن وہاں جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا ہے اور چین نے امداد کے لئے دنیا سے اپیل کی دوہائی بھی نہیں دی سندھ میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ چالیس سالوں سے آن آف حکومت ہے جہاں بھٹو کے نام پر سندھیوں سے ووٹیں لی جاتی ہیں اور ہر الیکشن میں گڑھی خدابخش کے قبرستان میں مدفون بھٹو زندہ کردیا جاتا ہے لیکن سندھی لوگ آج سیلاب میں ڈوب گئے وہ کس حالت میں ہیں بے یارو و مددگار ہیں اللہ بھلا کرے پاک افواج کے جوانوں کا جو ان سیلاب زدگان کی دن رات مدد کر رہے ہیں سوال یہ بھی ہے کہ کون نہیں جانتا کہ زرداری خاندان خود امیر ترین ہے۔

انہوں نے خود اپنے اکاونٹس سے کتنی امداد دی بلوچستان میں بھی لوگ بے یارو مددگار تڑپ رہے ہیں اور مکس مصالحوں والی سول صوبائی حکومت کسی جگہہ نظر نہیں آتی مجھے سندھ اور بلوچستان سے سیلاب زدگان میں لسبیلہ سے محمد بخش رنجھو ضلع نصیر آباد سے ڈاکٹر منصب علی بلوچ نسرین انصاری لاڑکانہ اور بدین سے کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے سیلاب زدگان نے اپروچ کیا اپنے اپنے علاقوں کی ویڈیوز ارسال کیں تو میں نے بڑی مشکل سے جی سی آو حیدر آباد میجر جنرل دلاور خان صاحب اور پھر بلوچستان میں پاک افواج کے افسروں سے رابطہ کرکے اپیل کی تو ان متاثرین کو امداد دی گئی لیکن تباہی بہت زیادہ ہے ایک مشکل اور بھی ہے کہ پنجاب سوات آزاد کشمیر یا خیبرپختونخوا میں امداد ہم زیادہ آسانی سے باہر کے ملکوں سے ارسال یوکے یورپ یا امریکہ میں رہنے والے فراہم کرسکتے ہیں چونکہ ان علاقوں کے لوگ ان ملکوں میں آباد ہیں لیکن اندرون سندھ یا بلوچستان کے لوگ باہر کے ملکوں میں زیادہ موجود نہیں ہیں ۔

برطانیہ یورپ امریکہ وغیرہ میں بڑے پیمانے پر لوگ سیلاب زدگان کے لئے پیسہ اکٹھا کررہے ہیں جو پنجاب خیبر پختونخوا میں تو جارہا ہے لیکن جہاں سب سے زیادہ متاثرین ہیں وہ سندھ اور بلوچستان ہے وہاں مستحقین تک امداد پہنچنے کی گارنٹی نہیں ہے ہونا تو یہ چاہیئے کہ کوئی بڑا پلان بنے ڈیم تعمیر ہوں اور لوگوں کو پکے گھر تعمیر کرکے دیئے جائیں تاکہ مستقل بنیادوں پر آئندہ بڑی تباہی سے بچایا جاسکےپاک فوج جہاں زلزلوں سیلابوں طوفانوں اور بحرانوں میں خدمتِ خلق کا کام کرتی ہے وہاں کرپٹ حکمرانوں بیورو کریٹوں چوروں ڈکیتوں فراڈیوں کو بھی منطتقی انجام تک لا سکتی ہے اگر یہ کنٹرول ہو جائیں تو قدرتی بلائیں زحمت کی بجائے رحمت بن سکتی ہیں

Comments are closed.