31 دسمبر کو اسلام آباد میں لوکل گورنمنٹ کے الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا تو شہرجھوم اٹھا۔ بینر ، جھنڈے اور کارنر میٹنگوں کا سلسلہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے۔لیکن بقول شاعر نادان گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔۲۲ دسمبر کو وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، مقامی حکومت ترمیمی بل 2022منظور کرکے فوری نافذ کردیا۔اس بل نے سارا ماحول ہی سوگوار کردیا۔
بل کے تحت وفاقی دارالحکومت کی یونین کونسلز کی تعداد101 سے بڑھا کر 125کردی گئی ہیں۔بل کے مطابق اب میئر اور ڈپٹی میئر کا الیکشن براہ راست ہوگا۔باالفاظ دیگر اب اسلام آباد میں لندن کی طرح میئر کا الیکشن براہ راست ہوگا۔ قبل ازیں میئر کو چیئرمین یونین کونسلز منتخب کیاکرتے تھے۔اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود حکومت نے اگلے دن ہنگامی طور پر سینیٹ سے بھی یہ بل منظور کرالیا۔ کچھ لوگ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرچکے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن اپنی مقررہ تاریخ پر ہوں گے لیکن وفاقی حکومت نے جس طرح اسلام آباد لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں روڑے اٹکائے ہیں اسے سوائے بدنیتی کے اور کچھ نہیں قراردیا جاسکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی کہ الیکشن سے چند دن قبل اسے ہوش آیا اور اس نے یونین کونسلز کی تعداد بھی بڑھا دی اور میئرکے الیکشن کا طریقہ کار بھی بدل دیا۔ میئر کا الیکشن کا براہ راست ہو نا ایک اچھی بات ہے ۔اس الیکشن میں اسلام آباد کی مقامی لیڈرشپ ابھرسکے لیکن موجودہ ترمیمی بل ایک طرح سے الیکشن سے فرار ہے۔
اسلام آباد میں جاری الیکشن مہم سے اندازہ ہوتاہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور حکمران مسلم لیگ نون کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔تقریباً ایک ملین ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور کافی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ چار ہزار کے لگ بھگ امیدوار میدان میں اترچکے ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت جانتی ہے کہ اسلام آباد لوکل گورنمنٹ الیکشن کے نتائج کا چند ماہ بعد ہونے والے جنرل الیکشن پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی پس منظر میں پی ٹی آئی اور نون لیگ دونوں جارحانہ الیکشن مہم چلا رہی ہیں۔ اگرچہ اسلام آباد کا شمار ملک کے بڑے شہروں میں نہیں ہوتا لیکن یہاں ہر علاقے اور رنگ ونسل کے لوگ آباد ہیں۔ اس لیے اسلام آباد لوکل گورنمنٹ الیکشن کے نتائج سے ملک گیر عوامی رجحانات کا اندازہ کرنا ممکن ہوگا۔ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے اسلام آباد شہر اور دیہی علاقے سے قومی اسمبلی کی دو نوںنشستیں جیتی تھیں۔ پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ اپنی مقبولیت کی موجودہ لہر سے فائدہ اٹھاکر وہ لو کل گورنمنٹ الیکشن جیت جائے گی۔ گزشتہ برسوں کے دوران پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں مضبوط سیاسی نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں اس کا اثر و رسوخ نمایاں ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ نون نے اسلام آباد میں متعدد تعمیراتی منصوبے تیزی سے مکمل کر ائے ہیں۔ ماس ٹرانزٹ، دو میٹرو سروسز اور سبز اور نیلی لائنوں کا اجرا بھی کیا۔ شہریوں کو ان اقدامات سے کافی راحت ملی۔نون لیگ لوکل گورنمنٹ الیکشن جیتنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ البتہ اشیا خوردونوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں اور غربت کی سطح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مسلم لیگ نون مشکلات کا شکار ہے۔ کچھ یونین کونسلوں میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی مشترکہ امیدوار بھی کھڑے کر رہی ہیں۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے 2015 میں ہونے والے آخری الیکشن میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی تھی۔ پی ٹی آئی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔ فروری 2021 میں پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے باوجود میٹروپولیٹن کارپوریشن کو وفاقی حکومت نے عضو معطل بنائے رکھا۔ اسے مالی اور انتظامی اختیار نہیں سونپا گیا۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کا چارج جوں ہی منتخب میئر نے سنبھالااسلام آباد کے طاقتور حلقوں نے اس کے پاؤں زمین پر ٹکنے نہیں دیئے۔ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے درمیان دائرہ اختیار، ٹیکس لگانے اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے معاملات پر کشمکش شروع ہو گئی۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن کی نو منتخب قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے مطابق سی ڈی اے سے اپنے اختیار ات حاصل کرے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ لوکل گورنمنٹ تبھی موثر ہو سکتی ہیں جب وہ انتظامی اور مالی طور پر بااختیار ہو۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ایم سی آئی اور سی ڈی اے کے درمیان تنازعات کا حل نون لیگ اور پی ٹی آئی کی دونوں وفاقی حکومتوں نے تلاش نہ کیا۔ اثاثوں اور انسانی وسائل کی تقسیم تو دور کی بات رولزآف بزنس تک کو بھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔ نتیجے کے طور پر میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین کی تنخواہیں سی ڈی اے ادا کرتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ کو جو ٹیکس وصول کرنا چاہیے وہ بھی سی ڈی اے وصول کرتا ہے۔
سی ڈی اے حکام کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کی منتخب لیڈرشپ آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو فعال کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ساتھ کھڑاہونا ہوگا۔قانون کے مطابق سی ڈی اے کو صرف ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ اس کا کام شہر کے ماسٹر پلان کی منصوبہ بندی، ترقی اور دیکھ بھال ہے۔ لوکل گورنمنٹ کو میونسپل سروسز اور انفراسٹرکچر کی نگرانی اور انتظام کرنے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
سی ڈی اے 1960 کی دہائی سے دارالحکومت کا مختار کل ہے۔میٹروپولیٹن کارپوریشن ایک نیا ادارہ ہے ۔جس کی لیڈرشپ عوامی نمائندوں کے پاس ہے جو سی ڈی اے حکام کے مقابلے میں کم انتظامی اور منصوبہ بندی کی مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں۔ موقع ملے تو منتخب میئر اور کونسلر رفتہ رفتہ شہرکی یک رنگی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔
اسلام آباد بھی ملک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کئی مسائل اور بری حکمرانی کا شکار ہے۔ سابق قبائلی علاقہ جات اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد نے اسلام آباد کے مضافات میں پناہ لے رکھی ہے۔ شہر میں درجنوں کچی آبادیاں موجود ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ دو دہائیوں میں اسلام آباد کا دیہی علاقہ کچی آبادیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں اورآبادیوں کے بیچ پانی کھڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور بیڈ گورننس کے نتیجے میں عوامی خدمات کا معیار بری طرح گر چکا ہے۔ پوش علاقوں میں سی ڈی اے زیادہ تر مالی وسائل خرچ کرتاہے تاکہ حکمران طبقات کی نظر میں اس کا اعتبار قائم رہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کا بڑا حصہ نظر انداز اور مایوسی کا شکار ہے۔ پانی کی کمی، سیوریج کے انتظام کی عدم موجودگی اور خستہ حال سڑکیں اسلام آباد کے دیہی علاقے کی پہچان ہیں۔
Comments are closed.