امریکہ کے دورے میں نیویارک جانے کی دو وجوہات تھیں میرے صحافی دوست حفیظ کیانی جو 22 سال پہلے نیویارک چلے گئے تھے اور آجکل وہیں اپنا کاروبار کرتے ہیں ان کے بڑے بھائی کی وفات پر تعزیت دوسرا استاد محترم پروفیسر محمد رفیق بھٹی سے ملاقات شامل تھی نیویارک شہر بلند وبالا عمارتوں کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے یہ شہر بہت سی تاریخی معلومات رکھتا ہے شہر کا نقشہ سو سال پہلے بنانے والا انگریز کوئی نجومی تو نہیں ہوا ہوگا لیکن آج اس شہر کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ وہ واقعی کوئی بڑی سوچ اور ویژن والا لائق تعریف شخص تھا تو غلط نہیں ہوگا شہر کی بڑی بڑی کشادہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں جن پر بیک وقت پانچ سے چھ گاڑیاں ایک ساتھ چلتی ہیں پیدل چلنے والوں کے لئے لمبے چوڑے فٹ پاتھ ہیں جو ہمارے ملک کی سڑکوں سے بھی بڑے ہیں ہر ایک عمارت میں پاورفل جنریٹرز لازمی نصب ہوتے ہیں جبکہ عمارتوں کو سیفٹی اور سیکورٹی کے اعتبار سے محفوظ بنانے کی اپنی سی انسانی کوشیش کی گئی ہے اور قانون کی عملداری سب کے لئے یکساں ہے بیچارے پولیس والے یا کسی فیڈرل ادارے کا کوئی بڑا آفیسر چائے قافی کا ایک کپ بھی مفت میں نہیں پی سکتا بلکہ قطار میں باوردی کھڑے ہو کر اپنی چائے یا قافی کا کپ یا کوئی چیز خریدتا یے شہر کی صفائی ستھرائی کا انتظام بھی بہت شاندار یے لوگوں کا ہر طرف ایک جم غفیر ہے جیسے کراچی صدر آئی آئی چندریگر روڈ یا طارق روڈ پر ہوتا یے لیکن دھکم پیل بالکل نہیں ڈسپلن میں لوگ دوسروں سے بچ کر اور انہیں بچا کر ہی چلتے ہیں ہر ملک اور ہر رنگ ونسل کا انسان ملتا یے حفیظ کیانی صاحب نے رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چونکہ ٹریفک کا رش نہیں ہوتا مجھے نیویارک کی اہم جگہوں کی جتنا ہوسکتا تھا سیر کروائی لیکن نیویارک کوئی چھوٹی سی جگہہ نہیں پوری ریاست ہے جس کا بارڈر کینڈا سے جاکر ملتا یے جس میں گھومنے اور اس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک ماہ چاہیے حفیط کیانی نہایت مخلص اور باکمال انسان ہیں انہوں نے پاکستانی صحافت تو چھوڑ دی ہے لیکن صحافتی مزاج، بے تکلفی جنون و مستی ویسی ہی ہے تھکاوٹ سے پہلی رات میری ہمت جلد ہی جواب دے گئی تو دوسرے دن بزنس مین اور کشمیری رہنما مختار احمد نے خلوص کے پھول نچھاور کئے اور ہمیں جوائن کرلیا اگرچہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا لگا جیسا کوئی کھویا ہوا بھائی مل گیا ہو۔
نیویارک شہر مین ہٹن کے ریلوے اسٹیشن پر بھی جانے کا اتفاق ہوا جو ایک وقت میں سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن تھا یہاں ٹرینوں کا جال بچھا ہوا ہے جس کے کئی فلور ہیں سٹیشن گرینڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
مجھے 11 ستمبر 2001 میں دہشت گردی میں تباہ ہونے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹوئن ٹاور کی جگہہ بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں اب فریڈم ٹاؤر تعمیر ہوچکا ہے یاد رہے یہ وہ جگہہ ہے جس پر ہائی جیکروں نےخود کش حملے کیے تھے حملہ آوروں نے پہلے دو جہازوں سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو ہٹ کیا تھا ایک جہاز پیٹاگان کو مارا تھا جبکہ ایک جہاز کرش ہوگیا تھا یہ جگہہ دہشت اور خوف کی علامت ہے کہا جاتا ہے 19 ہائی جیکر تھے جبکہ یہاں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد دنیا تبدیل ہوگئی تین ہزار افراد یہاں ہونے والی دہشت گردی میں جان بحق ہوگئے تھے ہزاروں افراد زخمی ہوئے تھے.جس کے بعد امریکہ نے وار آن ٹیرر شروع کی جس کے بعد شید رد عمل کا آغاز کیا دنیا بھر میں انسانیت تڑپ آٹھی سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پاکستان اور افغانستان کا ہوا حالانکہ پاکستان کا یہاں ہونے والی دہشت گردی کا کوئی زرہ برابر بھی لینا دینا بالکل نہیں تھا پاکستان وار آن ٹریر میں امریکہ کا فرنٹ لائن سٹیٹ بنا ہمارے ساتھ وہی ہوا جیسے کمزور کی بیوی ہر کسی کی بھابھی –پاکستان اس دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات کا خمیازہ آج بھی بھگت رہا ہے امریکہ نے بدلہ لینے کے لیے القاعدہ کا نیٹ ورک ختم کیا طالبان کی حکومت کی مڈل ایسٹ کی حکومتیں تبدیل ہوئیں امریکہ کی فوجیں 20 سال کے بعد افغانستان سے نکلیں تو طالبان نے پھر آکر حکومت قائم کرلی ۔
9/11 کے بعد امریکہ کیا بلکہ پورے دنیا میں سفر کرنے کے لیے بھی سختیاں کی گئیں بلکہ چرابیں سونگھنے والے کُتے بھی رکھے گئے جہاں 2001 میں سات ٹاورز ہوا کرتے تھے اب وہاں ایک ہی ٹاؤر فریڈم بنایا گیا ہے جبکہ ایک میموریل پارک بھی بنایا گیا ہے ان تمام لوگوں کے نام موجود ہیں جو ٹوئن ٹاور کے گرنے سے جان بحق ہو گئے تھے میں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا وزٹ بھی کیا یہ ادارہ بظاہر عالمی سطح پر اقوام عالم کے حقوق کا علمبردار ہے لیکن عام غریب ملکوں میں تاثر یہ ہے کہ حقیقت میں یہ ادارہ صرف طاقتور کےحقوق کا ادارہ ہے. یہاں کشمیری فلسطینی ہمیشہ اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے لیکر احتجاج کرتے ہیں۔
امپائر سٹیٹ کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا جو 1930 میں تعمیر ہوئی یہ عمارت ایک زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی عمارت تھی ایک سو دو منزلہ یہ عمارت ایک شاہکار میں شمار ہوتی ہے اس کے اوپر سے تین امریکہ کی ریاستیں نظر آتی ہیں قوموں نے کسطرح ترقی کی نیویارک میں ٹائم اسکوائر پر جانے کا اتفاق ہوا یہاں ایک بڑی کلاک نصب ہے جہاں سے ہر سال 31 دسمبر ایک بال گرتا ہے اور نئے سال کا آغاز ہوتا ہے یہاں پر عمارتوں کا ایک ایسا جال ہے جن پر الیکٹرونکس یا ڈیجٹل ایڈورٹائزنگ کی روشنیاں دیدہ زیب تو ہیں مگر آنکھوں کو اندھا کردیتے ہیں۔
پاکستانی کمیونٹی کی زیادہ تر تعداد کونی آئیرلینڈ میں ہے اس کو "جناح” ایونیو بھی کہا جاتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی وجہ سے یہاں پاکستانیوں کے زیادہ کاروبار ہیں جناح کے بنائے ہوئے پاکستان کو ہم وہ مقام نہ دے سکے جو باقی دنیا نے اپنے اپنے ملکوں کو دیا ہے جبکہ 22 کروڑ عوام قائداعظم کے تین متعین کردہ سُنہری رہمنا آصولوں یقین اتحاد اور ڈسپلن پر بھی پورا نہیں اتری حکمران اشرافیہ کا تو قوم کے قائد اور مُحسن سے دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں لیکن اورسیزز پاکستانی باہر آکر نہ صرف وطن سے محبت کرتے ہیں بلکہ ملک کی خدمت کرتے ہیں یہاں پروفیسر ًمحمد رفیق بھٹی صاحب نے ایک استقبالیے کا اہتمام کیا۔
(جاری ہے)
Comments are closed.