1932 میں قائم ہونے والی اور الحاق پاکستان کا ساری زندگی دم بھرنے والی کشمیر کی سواداعظم جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے امریکہ میں سینئر نائب صدر سردار زبیر احمد کو واشنگٹن میں جب میری موجودگی کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر مجھے اپنے ہاں کھانے پر مدعو کرلیا یاد رہے کہ مسلم کانفرنس واحد ریاستی جماعت ہے جسکی ذیلی تنظمیں بیرونی دنیا میں آج بھی موجود ہیں اگرچہ مسلم کانفرنس کو نوازشریف نے بالخصوص اور دیگر پاکستانی لیڈروں سمیت ہمارے ریاستی اداروں نے ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت کمزور کردیا ہے بلکہ دیوار سے لگا دیا ہے جس سے کشمیری بُری طرح تقسیم ہوگئے ہیں حالانکہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مرحوم و مغفور کہا کرتے تھے کشمیری بلامعاوضہ پاکستان کے بیرون ملک سفیر ہیں اج 2023-2022 میں اب یہ پاکستان یا کشمیریوں کے نہیں بلکہ نواز شریف آصف علی زرداری اور عمران خان کے سفیر ہیں اور آزادکشمیر میں بھی یہی حال یے جو کچھ پاکستان کی سیاست میں ہوتا ہے وہی بیرون ملک اور آزادکشمیر میں بھی ہوتا ہے سرادر عبدالقیوم نے سب سے پہلے برطانیہ و یورپ اور امریکہ کا سفر 1960 کی دھائی میں جب شروع کیا تو ہر جگہہ مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی 1990 میں جب میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو کشمیر ہاؤس میں اس وقت سردار عبدالقیوم خان نے انکے اعزاز میں پہلا استبقالیہ دیا تو سردار عتیق احمد خان نے جن چند نوجوانوں کو اس استبالیئے میں نواز شریف سے ملوایا تو ان میں راقم بھی موجود تھا میاں نواز شریف نے استقبالیے سے تقریر میں کہا کہ سرادر عبدالقیوم خان کی صُحبت میں گزرے ہوئے چند لمحات میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں” یاد رہے کہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق مرحوم سردار عبدالقیوم کو اپنا پیر یا شیخ کئی بار کہہ چکے تھے سرادر عبدالقیوم کی وفات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب کشمیر میں قیادت کا قحط پڑ گیا ہے اور کشمیری نیشن لیڈر کے بغیر ہے جیسے گاڑی سٹیرنگ کے بغیر-
نواز شریف کا اقتدار 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوا تو وہ سعودی معاہدہ کرکے چلے گئے تو مسلم کانفرنس جنرل پرویز مشرف کی اتحادی بن گئی سردار عبدالقیوم خان سے میں نے کئی بار استفسار کیا بلکہ شکوہ کیا کہ آپ کو جنرل پرویز مشرف کی نہ کشمیر قومی کمیٹی کا چیرمین بننا چاہیئے تھا اور نہ ہی ملٹری ڈیموکریسی کا نعرہ لگانا چاہئیے تھا مجھے مسلم کانفرنس کا ایک دفعہ سیکرٹری اطلاعات بننے کی آفر بھی کی گئی جس سے میں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں صحافی ہوں اور صحافی ہی رہنا چاہتا ہوں یاد رہے کہ میں جنرل پرویز مشرف کا افغانستان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے اور سارے ُابلے ہوئے انڈے تھالی میں رکھ کر پیش کرنے کا سخت ناقد رہا ہوں اکبر بگٹی قتل لال مسجد اپریشن پر میں نے جنرل شرف کے خلاف سینکڑوں کالم لکھے-
مجاہد اول سردار عبدالقیوم سے میری آخری ملاقات 2013 میں ہوئی اس وقت آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن قائم ہوچکی تھی میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن چکے تھے مجاہد منزل میں ہونے والی اس ملاقات میں سرادر عبدالقیوم صاحب سے میں نے پوچھا میاں نواز شریف پھر وزیراعظم بن گئےہیں انہوں نے برجستہ جواب دیا نواز شریف کا اقتدار زیادہ دیر نہیں چلے گا یہ پھر فوج سے پنگا کرے گا مجاہد اول مرحوم کی 2014 میں وفات ہوگئی لیکن انکی بات 2017 میں سچ ثابت ہوئی اور نوازشریف نااہل ہوکر اقتدار سے الگ ہوئے
برحال واشگنٹن میں سردار زبیر احمد کا سامنا کرتے ہی مجھے مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مرحوم کی ایک اور نصحیت یاد آگئی کہ جہاں بھی جاؤ وہاں اپنا تعارف اول طور پر کشمیری اور دوم مسلم کانفرنسی ضرور کراؤ اب تو مسلم کانفرنس کا نیٹ ورک کمزور ہوگیا ہے لیکن 1998 میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کے خطرات لاحق ہوئے تو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بیرونی دوروں پر سردار عبدالقیوم کو ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ کشمیریوں کی حمایت حاصل ہو سردار عبدالقیوم کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے 2005 میں ہارٹ ٹو ہارٹ کانفرنس میں نئی دہلی چلے گئے کہا جاتا ہے انہوں نے بھارت جانے کے لئے کوئی این آو سی نہیں لیا شاید مسلم کانفرنس کو آج اسی کی پاداش بھگت رہی ہے سرادر عبدالقیوم نے پورے ہندوستان کے میڈیا کا سامنا کیا اور پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ لڑا آجکل کی کشمیری قیادت کوہالہ سے کراچی اور لاہور جانے کے لیے اجازت مانگتی ہے اور جاتی عمرہ اور لاڑکانہ کے دورے سے پہلے اپاٹمنٹ بنواتی ہے- جس کرسی پر سابق صدر اور وزیراعظم سردار عبدالقیوم بیٹھتے تھے بعد میں وہاں ایسے ایسے مسخرے بٹھائے گئے ہیں کہ کشمیری قوم اپنی توہین اورشرم محسوس ہورہی ہے ۔
واشگنٹن میں برحال سردار زبیر احمد نے جہاں یاد گار کھانا کھلایا وہاں دوسرے کئی دوستوں سے میری ملاقات کروائی سابق پروفیسر اور سینئر صحافی آصف علی بھٹی جو آجکل امریکہ میں جرنلزم میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور یوسف چوہدری سے ملنا کسی سعادت سے کم نہیں تھا ، میں نے واشنگٹن سے نیو یارک جانے کے لئے بس پکڑی تو میں ان سوچوں میں گُم ہوگیا کہکشمیر پر ہماری پسپائی کا رونا کیا روئیں کچھ نہیں سوجھتا جو جنرل قمر جاوید باجوہ نے سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی بنیاد رکھ دی ہے کیا یہ فیصلہ 22 کروڑ عوام اور خود کشمیری قوم اس کو ہضم کر پائے گئی-پھر 75 سالوں سے وہ لوگ جو اس پار اس امید اور آس پر اپنا سب کچھ لٹاتے رہے کہ پاکستان ہمیں ایک دن بھارت سےآزادی دلائے گا
واشگنٹن سے میرا سفر چار گھنٹے کا تھا لیکن سات گھنٹے میں بس نیو یارک پہنچی پہلی وجہ ٹریفک بنی دوسری وجہ نیویارک سے 40 منٹ دور ڈرائیور نے بس سروس سٹیشن پر روک دی اور کہنے لگا میری ڈیوٹی کے دس گھنٹے پورے ہوگئے ہیں قانون کے تحت میں دس گھنٹے سے زیادہ ڈرائیونگ نہیں کرسکتا میری انشورنش کوور نہیں کرتی حادثہ ہوسکتا ہے میں نے کہا یار آدھا گھنٹے کا سفر ہے کھینچ بس اور ہمیں اپنی منزل پر پہنچا دے لیکن ڈرائیور نے ہمیں ایک گھنٹہ تک انتظار کروایا اور پھر دوسرا بس ڈرائیور آیا تو وہ پہلے والا بس ڈرائیور بھی مسافروں کی ہمارے ساتھ ہی نیویارک گیا میں نے سوچا حادثات کو کم کرنے کے لیے جب ڈرائیونگ کے اوقات مقرر ہیں تو پھر ٹھیک ہی یے منزل پر نہ پہنچنے سے تو بہتر ہے بندہ دیر سے پہنچے مجھے تو چناب ایکپریس تیز رو اور تیز گام میں سفر کی عادت۔رہی ہے ایک ہی ڈرائیور کراچی سے 35 گھنٹے تک ٹرین کو کراچی سے اسلام آباد تک کھنچتا تھا بعض دفعہ ٹرین کی بوگیاں مسافروں سے کچھا کھچ بھری ہوتی تھیں اور ٹرین کئی گھنٹے ایک سٹیشن پر رُکی رہتی تھی بعد میں معلوم پڑتا تھا ڈرائیور نیند پوری کررہا تھا آج بھی کوچوں ٹرکوں اور بسوں کے جو حادثادت ہوتے ہیں اس میں ڈرائیوروں کی وجہ سے ہوتے ہیں ،نیویارک پہنچنے پر میرےصحافی دوست حفیظ کیانی نے مجھے پک اپ کیا
(جاری ہے )
Comments are closed.