سالار جمہوریت کے نام کھُلا خط: آزاد کشمیر میں فرنچائز سیاست بند کی جائے؛ راجہ فریاد خان یوکے

0 350

سالارجمہوریت سردار سکندر حیات خان صاحب آپ کا عزیز آپ کا جانثار ہونے کے ساتھ ساتھ میں آپ کا ادنی سا کارکن بھی ہوں 1985 سے لیکر آج تک آپ کے ساتھ ملاقاتوں کا طویل سلسلہ رہا اور آج تک آپ کے ساتھ محبت عقیدت اور آپ کی پیروی کرنے کا عقیدت مندانہ سفر جاری ہے اور انشاءاللہ تادم مرگ جاری و ساری رہے گا اُس کی بنیادی وجہ جہاں قبیلائی تعلق ہے وہاں بطور وزیراعظم اور بحیثیت ایک سیاستدان آزادکشمیر کے عوام کے لئے تعمیر و ترقی کے حوالے سے آپ کی وہ خدمات ہیں جنہیں میرے سمیت آزادکشمیر کا بچہ بچہ حتی کہ آپ کے سیاسی مخالفین بھی جانتے اور اعتراف کرتے ہیں بلکہ آپ کو آج بھی تعمیروترقی اور سیاست کا بادشاہ کہہ کر پکارا جاتا ہے لیکن ان ساری باتوں کے باوجود بھی آج تک آپ کے ساتھ سیاسی حوالے سے کبھی گفت و شُنید نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے اپنے آپ کو اس قدر قابل محسوس کیا کہ آپ کے سامنے کوئی لب کشائی کر کے گُستاخی کا ارتکاب کر سکوں ۔

لیکن آج سیاسی بات کرنے پر مجبور اور بے بس ہُوا ہوں اور ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ آپ تک اپنے جذبات کھُلے خط کی صورت میں پہنچاؤں جناب سالار جمہوریت آزادکشمیر کے حساس خطے میں مجاہداؤل سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب رحمہ اللہ علیہ اور آپ کا بعض سیاسی امور پر اختلاف کے باوجودمضبوط اور ناقابل تسخیر رابطہ اور تعلق رہا جس کی وجہ سے آپ رہنماؤں نے اپنی قیادت اور ریاضت میں آزادکشمیر کی سواد اعظم جماعت کو کشمیرکے باسیوں کو عزت اور وقار کی زندگی سے ہمکنار کئے رکھا بلاشُبہ پاکستان کے ساتھ ہمارے جغرافیائی اور عقیدت مندانہ لنک کی وجہ سے تعلق بھی برقرار رکھے گئے لیکن مجموعی طور پر اپنے اچھے بُرے فیصلے کرنے کا اختیار اپنے پاس ہی رکھا آپ ناراض ہوتے مجاہداؤل منا لیتے اور اگر مجاہداؤل کو کوئی گلہ شکوہ ہوتا تو آپ اُنھیں منا لیتے الغرض اپنے فیصلے خود ہی کرتے، لیکن ایک وقت ایسا بھی ہُوا کہ سواد اعظم مسلم کانفرنس اور آزادکشمیر کے لوگوں پر بُرا وقت آیا پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اس میں کس کا قصور تھا کس کی سُستی تھی کس نے کم عقلی کی کس نے غیر سیاسی کھیل کھیلا اُسے تاریخ دان پر چھوڑتے ہیں چونکہ یہ واقعات ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہُوا ہے لوگ بخوبی آگاہ ہیں تاریخ اُنھیں معاف نہیں کریگی۔

سابق وزیر اعظم آذاد کشمیر سردار سکندر حیات خان اور راجہ فریاد خان جرنلسٹ یو کے تصویر میں ایک ساتھ

لیکن آج سوچنے اور سر جوڑنے کا وقت آن پہنچا ہے آزادکشمیر کے لوگ پاکستان میں میاں نوازشریف سمیت دیگرسیاستدانوں کی قدر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گئے لیکن اب ضرورت پیدا ہو گئی ہے کہ کشمیری اپنا تشخص بحال کریں اور آزادکشمیر میں آپ کے بزرگوں اور آپ کی اپنی بنائی ہوئی سواد اعظم جماعت کو مضبوط اور منظم کریں ہم نے پاکستانی جماعتوں کی فرنچائز کے نیچے گزرے وقت کو سالہا سال جہاں چیک کر لیا ہے آپ سمیت آزادکشمیر کے سینئر اور مہذب ترین سیاستدانوں کی عزت و ناموس کو تار تار ہوتے دیکھا ہے وہاں آزادکشمیر میں بننے والی ہماری فرنچائز کے سربراہ کے بھی بطور ایڈمنسٹریٹر آزادکشمیر کرتوت دیکھے ہیں آپ نے کشمیری قوم کو ایسے شخص کے حوالے کر دیا ہے جس نے نہ اپنی عزت کا احساس کیا اور نہ کارکنوں کی عزت نفس کو برقرار رکھا اور کارکنوں کے جذبات اور احساسات کو ایسامجروح کر کے رکھ دیا کہ کارکن بددل ہوکر گوشہ نشینی پر مجبور ہو گئے بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی اپنے ساتھیوں کو بھی ذلیل و خوار کیا بلکہ اپنے محسنوں کو بھی خوار در خوار کیا اور اُن کی شان میں گستاخانہ الفاظ بکنے میں جھجک محسوس نہ کی اُن محسنوں میں سرفہرست آپ بھی ہیں جن کے بارے میں غلیظ بازاری زبان استعمال کی گئی اُس کے برعکس سردار عتیق احمد خان کے ساتھ آپ کے ہزار اختلافات کے باوجود کبھی بھی ایسی غیر شائستہ اور غیر پارلیمانی زبان کے استعمال کا تصور اور خیال بھی ناممکن ہے۔

اس لئے اب آج کھُلم کھُلاایک کھُلے خط کے ذریعے استدعا کر رہا ہوں کہ آزاد کشمیر میں فرنچائز بند کی جائے اور آپ آگے بڑھ کر اپنی سواد اعظم جماعت کو تھام لیں تاکہ کشمیریوں کا تشخص بحال ہو سکے اس سے جہاں آزادکشمیر کے سیاسی سوجھ بُوجھ سے عاری شخص سے ہماری جان چھوٹے گی وہاں آپ کو نہ رائیونڈ کا چکر لگانے کی ضرورت محسوس ہو گی اور نہ ہی اپنے فیصلے کروانے کے لئے رائیونڈ جانا پڑے گا خدا راہ وہی مجاہداؤل اور اپنے والا دور ہمیں واپس لا کر دیا جائے جس میں اپنےمقدر اور اپنے مُستقبل کے فیصلے آپ خود کریں اور آنے والی مُستقبل کی ہماری نسلیں کر سکیںجناب سالار جمہوریت اگر آج اس وقت سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا تو آنے والی ہماری نسلیں اور تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گئ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.