مار او ٹَلہَاریا ٹَہُول

0 335

محنتی کو کمین کہتے ہیں
بے ایمان کو زہین کہتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ لوگ
بے حیا کو حسین کہتے ہیں

بزدلوں کے معاشرے میں "دلیروں” کو بے وقوف کہا جاتا ہے، بناوٹ کا شکار معاشرے میں شاطر اور بدنیت لوگ فطین کہلاتے ہیں، افلاس زدہ لوگ اہلِ ثروت کو صاحبِ تکریم سمجھتے ہیں،سطحی شعور رکھنے والے لوگ طاقتور عناصر کو قائد بناتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بدعنوان ہوں. حق بات کرنے والا کمزور شخص طنز کے نشتر سہتا ہے. بیمار زہن تو حکمران کے کتے اور رعایا کے کتے کو بھی دو طبقات میں تقسیم کر کے اُن کو مساوی طور پر پلید خیال نہیں کرتے۔

ناڑ حلقہ چڑہوئی کا ایک قصبہ ہے، اُسی قصبے کی نسبت کو اپنے نام کے ساتھ شامل کرنے والے ایک محترم "ناڑوی صاحب” کی تقریر کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔اُن کے خوبصورت اور جذباتی انداز میں اظہارِ خیال کے درمیان اچانک ڈھول بجانے کا حکم "مار او ٹلہاریا ٹہول” ایک چاشنی پیدا کرتا ہے اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے، شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس نے اگر وہ وڈیو دیکھی تو مکمل نہ دیکھی ہو،ناظرین کو خود میں محو کر لینا بھی کامیاب مقرر کی پہچان ہے۔

سوشل میڈیا پر اُن صاحب کے انداز کو کسی کامیڈی فلم کے کردار کی طرح تمسخر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن مجھے افسوس اُس وقت ہوتا ہے کہ جب ہم شاخ کی نوک پر بیٹھ کر پیچھے سے خود شاخ کو کاٹتے ہیں،ہم نااہل سیاستدانوں/حکمرانوں کو دن رات کوستے ہیں، ہر سانس کے ساتھ ہم اپنی محرومیوں کا زمہ دار نااہل سیاستدانوں/حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں اور اِس بات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ نئے لوگوں کو آگے آنا ہو گا، ہم روز ہوٹلوں پر چائے کی ہر سِپ کے ساتھ روایتی سیاستدانوں اور اِن کی اولادوں کی موجودگی میں نظام کی بہتری کے امکانات کو رد کرتے ہیں مگر کوئی نیا چہرہ بھلا کیوں سیاست میں آئے اور ہمارے مسیحا کا کردار کیوں ادا کرے ؟

جو سیدھی کھری باتیں کرے، جو جھوٹ سے ماورا بات کرے، جو منافقت کو کامیابی کی کنجی نہ سمجھے، جسے باتیں گھما کر جلیبی بنانا نہ آتی ہوں، جو اپنی مادری زبان میں ہمیں مخاطب کرے، جو ڈی جے بٹ کو اپنے قافلے میں شامل کرنے کی مالی استطاعت نہ رکھتا ہو ہم اُس کا مذاق اڑاتے ہیں اُسے رد کرتے ہیں گویا ہم اہلِ سیاست کے لیے خود یہ معیار مرتب کرتے ہیں کہ ہمیں مطلب کے وقت میٹھی باتیں کرنے والے منافق ، زبان سے پھر جانے والے بدعنوان اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے چور اور پھر چوری کے مال سے ہمیں خوش کرنے والے سخی لیڈرز چاہئیں۔

میں اعتراف کرتا ہوں اپنی بزدلی کا کہ ہم خود عملی میدان میں آ کر سیاست کرنے کی جرأت تو رکھتے نہیں ہیں مگر کوئی ہم میں سے دلیری کا مظاہرہ کرے تو ہم اُس کا وہ حشر کرتے ہیں کہ اسے دیکھ کر باقی لوگ عبرت پکڑیں اور دنیا سے جاتے وقت اپنی نسلوں کو بھی سیاست سے باز رہنے کی تلقین کرتے جائیں جو قابلِ افسوس امر تو ہے مگر اب قابلِ غور بھی سمجھا جانا چاہئے۔

مجھے امید ہے "ناڑوی صاحب” کی تقریر کا تمسخر کبھی اُن کو بددل نہیں کرے گا مگر جو حشر اُس تقریر کا سوشل میڈیا پر کیا جا رہا ہے اُس کو دیکھ کر کوئی بھی نوجوان خود کو الیکشن کا امیدوار بنانے سے قبل ہزار بار سوچے گا،آئیں ہم اخلاص اور خدمت کے جذبے سے آگے آنے والوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں اور اگر حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو اُن کی حوصلہ شکنی نہ کریں ورنہ وہ وقت قریب ہے کہ جب اہلِ حکم کے اشاروں پر تھانہ کچہری میں ہماری سرِ عام تذلیل بھی کروائی جائے گی اور ساتھ ہی کہا جائے گا "مار او ٹلہاریہ ٹہول” تب ہم ہتھیلیاں ملتے رہ جائیں گے۔

آئیں ہم موروثی، روایتی، دقیانوسی اور گدی نشینی کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے اپنی گود میں کھیلتی نسل کو بہتر مستقبل دینے کی سعی کریں۔

(نوٹ)
لکھاری کھوئی رٹہ میں "پاک لینڈ گرلز کالج ” کے نام سے اپنا تعلیمی ادارہ چلا ر ہے ہیں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس ہیں اور ایک اچھے ڈیبیٹر ہیں

Leave A Reply

Your email address will not be published.