برطانیہ کے سب سے بڑے شہر لندن کے شمال مغرب میں واقع لیوٹن ایک کثیرالثقافتی اورکثیر النسل قصبہ ہے۔ گرین ہلز کے بیچ و بیچ پھیلے اس قصبہ کی ابتدائی تاریخ کا سرا چھٹی صدی کے اینگلو سیکسن دور سے جا ملتا ہے، لیوٹن کا ماخذ لی ٹن (Lea-tun) ہے، جس کے معنی ہیں لی کے کنارے فارم ( farm by the Lea) دریائے لی lea River لیوٹن سے بہتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دسویں صدی میں یہ نام اینگلو سیکسن کرونیکل میں لیا گیا ہے، تاہم مختلف تبدیلیوں کے بعد 1195 سے اس کا نیا نام Luton ہے، مقامی اردو میڈیا رپورٹر اسے اردو میں اس طرح بھی لوٹن لکھتے ہیں تاہم برطانیہ کے قومی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی اردو رپورٹس میں اسے یوں (لیوٹن) لکھا گیا ہے، 2011 کی مردم شماری کے مطابق اور 2019 میں بارو کونسل ویب سائٹ پر لکھی ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی سوا دو لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے –
آبادی کے لحاظ سے برطانیہ کے چند گنجان آباد قصبوں میں سے ایک ہے تاہم اسے ابھی تک شہر کا درجہ نہیں مل سکا، ماضی قریب میں عالمی میڈیا نے اسے بہت حد تک دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی منسلک کرنے کی کوشش کی جو حقیقت کم اور منفی تاثر پہ زیادہ مبنی تھی – اُس وقت لیوٹن ’کونسل آف فیتھ‘ کے سربراہ پروفیسر ظفر خان، جن کا آبائی تعلق کوٹلی پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے ہے نے لیوٹن میں مختلف مذاہب کے درمیان رواداری ، ہم آہنگی اور یکجہتی کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے ان کے مطابق یہ سب آٹے میں نمک کے برابر تھا، اپنی ایک رپورٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’بعض اوقات ان اقلیتی گروہوں کی سیاست کو بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔‘‘
لیوٹن میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے علاوہ آئرش، سکاٹش ایفرو کریبین، بنگلہ دیشی، سری لنکن ، ہندو، سکھ بے شمار اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے اور دیگر یورپین باشندے آباد ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق لیوٹن کا شمار لیسٹر اور سلاوکے بعد برطانیہ کے ان تین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر مقامی سفید فام انگریزوں کی آبادی پچاس فیصد سے کم رہ گئی ہے اگرچہ قومی اعدادوشمار کے مطابق لیوٹن سرکاری طور پر ایسٹ اف انگلینڈ کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے لیکن ثقافتی اور نسلی اعتبار سے اپنی جُدا گانہ حیثیت اور اہمیت رکھنے والا ایک منفرد ٹائون ہے۔ علامتی طور سے بیڈفورڈشائر کائونٹی سے منسلک رہا ہے تاہم لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1972 اور پھر ترمیمی ایکٹ 1992 کے تحت 1997 میں بارو یعنی یونیٹری اتھارٹی بنا اور 2009 میں کائونٹی میں مذید دو یونیٹری اتھارٹیز بنا دی گئی، ایک بیڈ فورڈ اور دوسری سینٹرل بیڈفورڈ ہیں ۔
لیوٹن کے طول و عرض میں بے شمارخوبصورت پارک ہیں ، جن میں ایک ووڈن پارک جو دریائے لی پر واقع تمام عمر کے لوگوں کے لیے سیروتفریح، کھیل کود کے علاوہ اس میں تاریخی میوزیم اور خوبصورت باغات بھی ہیں ، ثقافتی اعتبار سے لیوٹن کے تمام بڑے ایونٹس جن میں سالانہ ایشن میلہ، اوپن افطار، بون فار نائٹ اور کارنیوال وغیرہ اسی پارک میں منعقد ہوتے ہیں لیوٹن کا دوسرا بڑا تاریخی اور میونسپل پارک سٹاک ووڈ پارک جو برطانیہ کی سب بڑی اور معروف موٹر وے ایم ون کے جنکشن 10 پر قریب واقع ہے، اس میں ڈسکوری سینٹرفری میوزیم ہے جو مقامی سماجی تاریخی اشیاء سسمیت آثارقدیمہ ، علم ارضیات اوردیہی دستکاری سے متعلقہ کولیکشن کا ایک شاہکار ہے- خیال رہے یہ دونوں میوزیم خیراتی ٹرسٹ "لیوٹن کلچر” کا حصہ ہیں ۔
یہ قصبہ 18 ویں صدی میں ٹوپیاں بنانے والی صنعت کی وجہ سے مشہور تھا اس مناسبت سے لیوٹن ٹائون فٹ بال کلب جو 1885میں قائم ہوا تھا تو اس کا نک نام یا عرفیت میں "دی ہیٹرز” کہتے ہے۔ لیوٹن میں پہلا نیوز پیپر 1854میں شائع ہوا، 19ویں صدی تک اس کی آبادی تقریبا 40 ہزارتھی یہاں 20ویں صدی میں انڈسٹریل ترقی کا دورشروع ہوا، 1905 میں برطانیہ کی سب سے بڑی کاریں بنانے والی فیکٹری ووکسہال کا پروڈکشن پلانٹ جو 2002 میں بند ہوا اسی قصبے کی زینت بنا رہا تاہم اب یہاں صرف کمرشل ویکلز تیار ہوتی ہیں- اس کے علاوہ یہاں پر ایک یونیورسٹی بھی ہے جس کا سفر 1898 میں لیوٹن ماڈرن سکول سے شروع ہوا، جو 1937 میں لیوٹن ٹیکنیکل انسٹیوٹ سے 1958 میں لیوٹن کالج اف ٹیکنالوجی میں تبدیل ہوگیا پھر 1976 میں پٹریج بری کالج اف ایجوکیشن میں ضم ہونے بعد لیوٹن کالج اف ہائیر ایجوکیشن بنا جیسے 1993 میں یونیورسٹی اف لیوٹن کا درجہ ملا پھر 2006 میں یونیورسٹی اف لیوٹن اور بیڈ فورڈ کے امتزاج سے اس کا نام "یونیورسٹی اف بیڈفورڈ شائر” رکھا گیا ہے جس کے دو بڑے کیمپس ایک لیوٹن اور دوسرا بیڈ فورڈ ہیں ، مجھے بھی اس علمی درس گاہ میں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ، 2011 میں نے یہاں سے ایم اے (ماس کمیونیکیشن) کی ڈگری حاصل کی، لیوٹن کا ملٹی کلچرل ازم انٹرنیشنل سٹوڈنٹ کے لیے کافی زیادہ کشش رکھتا ہے جس باعث چائینہ، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے زیادہ سٹوڈنٹ یہاں پڑھنے کے لیے آتے ہیں –
1950 کی دہائی میں دوسری جنگ عظیم اور برصعیر میں برطانوی راج کے خاتمے بعد ساوتھ ایشن لوگ برطانیہ مائیگریٹ ہونے شروع ہوئے تو ساٹھ کی دہائی میں لیوٹن میں ان کی آمد اور مسکن کی بڑی وجہ ووکسہال ہی تھی ، فیکٹری میں کام کے مواقع زیادہ تھے اور کام بھی آسانی سے مل جاتا تھا لہذا جو یہاں ائے پھر انہوں نے اپنے بچوں ، رشتہ داروں اور دوست احباب کو بھی یہاں بلایا اور یوں اس وقت جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور بعض محتاط اندازوں کے مطابق پاکستانی و کشمیری کمیونٹی کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان آذاد کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے لیوٹن بری پارک جو ایشیائی کمیونٹی کا سب بڑا کاروباری مرکز جس میں دیسی کھانوں سے لے ایشیائی ضروریات زندگی کی ہر شے مل جاتی ہیں ۔
موسم بہار کی آمد کے ساتھ یہاں پر ہرسال یورپ کا سب سے بڑا ایک روزہ ایونٹ لیوٹن انٹرنیشنل کارنیوال منعقد ہوتا ہے، جو لیوٹن بارو کونسل اور یو کے سینٹر فار کارنیوال کی مدد سے سجایا جاتا ہے ، اس کے علاوہ گزشتہ بیس سالوں سے یہاں پر ہر سال لیوٹن ایشیائی میلہ کا بھی انعقاد ہوتا ہے جس میں برصغیر پاک و ہند اور جنوبی ایشیاء کی روایتی موسیقی ، آرٹ اور کلچر ، کھانوں وغیرہ کا جشن منایا جاتا ہے-
لیوٹن سے لندن بذریعہ فاسٹ ٹرین 22 منٹ کی مسافت پر ہے لیوٹن میں تین ریلوے سٹیشن لیوٹن پارک وے، سینٹرل اور لی گریو ہیں جو لیوٹن کے سبھی ایریاز کو لنک اپ کرتے ہیں برطانیہ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک لندن لوٹن ائیرپورٹ بھی ہے جو لیوٹن میں واقع ہے جو مقامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو گا، اس سے اچھی خاصی آمدن کے باعث کونسل اپنے معاملات کافی بہتر چلانے لگ گئی تھی، مگر کرونا کی وبا کے باعث جہاں پوری دنیاکی ہوابازی کی صنعت زوال پذیری کا شکار ہے وہاں لیوٹن بھی بہت متاثر ہوا ہے، لیوٹن بارو کونسل اس وقت 49 ملین پاؤنڈز خسارے کا سامنا ہے- عام طور پر لوٹن ائرپورٹ سے کونسل کو سالانہ 27 ملین پونڈ کا فائدہ ہوتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ائر پورٹ کی سالانہ آمدن جو گزشتہ سال 7 ملین پونڈ سے بڑھ کر 32 ملین پونڈ تک ہو گئی تھی، اس کے باعث یہ ٹاون ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہے۔
تاہم حال ہی میں لوکل اتھارٹیز نے ” لیوٹن 2040 فیوچر وژن دیا ہے جس میں لیوٹن کو "ترقی اور خوشحالی کی جگہ” قرار دیا گیا ہے لیوٹن ٹو ڈے کے مطابق چیف ایگزیکٹو کونسل روبن پوٹر نے اپنے ایک بیاں میں کہا ہے کہ میری پہلی ترجیح میں لیوٹن کو رہائش کے لئے ایک معیاری مقام بنانا ہے اور2040 وژن کے مطابق لیوٹن ایک متحرک، ہمہ جہت اور پائیدار شہر ہوگا اور اس میں کوئی بھی غریب نہیں رہے گا-
برطانیہ کی بلدیاتی سیاست میں برٹش ایشیائی کمیوںٹی کا اہم کردار ہے لیوٹن کی مقامی باروکونسل 48 ممبران کا کونسل ایوان ہے جس میں 32 لیبر ، 12 لب ڈیم اور4 کنزرویٹو پر مشتمل ہے، لیوٹن کی بلدیاتی سیاست میں لیبر پارٹی ہی میدان کارزار میں نمایاں رہی ہے ، قومی دھارے کی سیاست میں بھی لیوٹن کی دونوں نشستوں پرلیوٹن ساوتھ سے ریچل ہوپکنز اور نارتھ سے سارہ اوون منتخب ممبران ہاؤس آف کامنز ہیں، بلدیاتی سیاست میں لیبر کے 32 ارکان میں سے 16 کونسلرز کا تعلق پاکستانی کشمیری کمیونٹی سے ہے جن میں اکثر میئر اور ڈپٹی میئرکے عہدہ پر بھی فائز راہ چکے ہے-
برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈز میں لیبر پارٹی سے لارڈ بل میکنزی ہیں اور لب ڈیم سے لارڈ قربان حسین جن کا آبائی تعلق آذاد کشمیر ضلع کوٹلی سے ہے، انہوں نے اپنا سیاسی سفر لیوٹن کی بلدیاتی سیاست سے شروع کیا، اطلاعات کے مطابق لارڈ قربان حسین پہلی بار 1996 میں لیبر پارٹی کی طرف سے کونسلر منتخب ہوئے، 2003 میں عراق جنگ پر احتجاجا” لیبر کو چھوڑ کر لبرل ڈیموکریٹ میں شامل ہوئے اور 2005 سے 2007 تک لیوٹن بارو کونسل کے ڈپٹی لیڈر رہے اور2011 میں ہاؤس آف لارڈز کے مستقل رکن بن گئے اور اپنے سیاسی سفر میں جہاں دنیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بات کی وہاں کشمیریوں کے حق خودارادیت اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے رواں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھی پارلیمنٹ میں ڈٹ کر آواز بلند کی، برطانیہ میں مختلف کمیونٹیز کے درمیان یکجہتی اور اہم آہنگی کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، حال ہی میں انہیں ان خدمات کے عوض صدر پاکستان کی جانب سے سب سے بڑے سول ایورڈ ستارہ قائد آعظم سے نوازا گیا ہے ۔
لیوٹن صحیح معنوں میں ایک کثیر الثقافتی اقلیتوں پہ مشتمل ٹاون ہے۔ اس کی مثال لیوٹن کی نو منتخب میئر کونسلر ماریہ لوول اور ڈپٹی میئر کونسلر سمیرا خور شید ہیں دونوں کا تعلق مختلف اقلیتوں سے ہے ۔ کونسلر ماریہ نے میئر میکینگ آن لائن اجلاس سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیوٹن کی میئرشپ میرے لیے باعث خوشی اور باعث فخر ہے اور اپنی ترجیحات میں شہر کے مستقبل کو آگے بڑھانے اور مختلف کمیونٹیز کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے۔ ڈپٹی میئر کونسلر سمیرا خورشید جن کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ اور معزز گھرانے سے ہے ، پہلی بار لیوٹن کی سینٹ وارڈ سے بطور کونسلر منتخب ہوئی ، کمیونٹی میں خواتین کے مسائل اور ان کی حوصلہ افزائی اور خاص کر تارکین وطن میں تحریک آزادی کشمیر میں خواتین کو سیاسی طور پر متحرک رکھنے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں، انہوں نے بطور ڈپٹی میئر لیوٹن کی ڈائیورسٹی اور اس کے مثبت پیغام کے فروغ کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔
لیوٹن کا ملٹی کلچرل ازم ، سٹوڈنٹ سیکٹر اور پراپرٹی سیکٹر انوسٹرز کے لیے ایک کشش ثقل ہے اور دیکھا جائے تو پچھلے چند برسوں میں پراپرٹی مارکیٹ میں بہت زیادہ بوم آیا ہے اور اس باعث پرائیویٹ رینٹل اکاموڈیشن کی ڈیمانڈ میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر کاروبار اور روز گار میں آضافہ ہوا ہے۔
اس وقت انگلینڈ میں کرونا کی دوسری اور تیسری لہر کے باعث گورنمنٹ نے نیا تھری لیول الرٹ سسٹم نافذ کیا ہوا ہے جس کے مطابق نارتھ اور میڈلیڈز کے علاقوں میں لاکھوں افراد پر سخت تادیبی پابندیاں لگے ہوئی ہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں بین الاقوامی معاشی منڈی بری طرح متاثر ہے وہاں مقامی معیشت کو بھی بڑا چیلنج درپیش ہے، لیکن اس کے باوجود لوکل اتھارٹیز کا لیوٹن کی ترقی اور خوشحالی میں پرعزم اور ان فوکس ہونا گیم چینجر ہو گا؟