” الله تعالیٰ کی غیبی مدد "

0 174

لندن میں مقیم ہماری ایک جاننے والی مسلمان فیملی دین اسلام پر چلنے کی ہمیشہ سعی کرتی رہتی ہے اس کی بڑی وجہ میاں بیوی میں باہم انڈرسٹینڈنگ ہے بیوی کا کردار نمایاں ہے جبکہ میاں اب تو مستقل طور پر کچھ عرصے سے بیمار ہے یہاں آباد امیگرینٹس یا تارکین وطن فیملیز یا خاندانوں کا بڑا درد سر اور فکریں ان کی اولاد رہتی ہے والدین اولاد کی فکروں اور پریشانیوں میں اندر ہی اندر سے کُڑھتے اور جلتے رہتے ہیں اولاد جو یہاں پیدا اور جوان ہوئی وہ والدین کا کہنا نہیں مانتی کچھ ماحول معاشرے کا قصور ہے تو کلچر کا اثر ہے فرق والدین اور اولاد کے دو مختلف تہذیبوں سے تعلق کا بھی ہے اور کچھ والدین کی اپنی اپنی ترجیحات کا بھی ہے بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو انہیں والدین وقت نہیں دے سکتے والدین خود حلال و حرام کی شعوری اور لاشعوری طور پر تمیز نہیں کرتے پھر اولاد کی صورت میں جو بھی نتیجہ نکلتا ہے وہ بھی اتنا کچھ زیادہ اچھا نہیں نکلتا ہے زیر بحث اس مسلمان فیملی نے اپنے بڑے بیٹے محمد کو لندن کے قریب ایک ٹاون میں پرائیویٹ طور پر ایک اسلامی سکول میں داخل کروایا یاد رہے کہ برطانیہ میں پرائیویٹ یا اسلامی یا دوسرے فیتھ سکول جو چل رہے ہیں ان میں لازمی نصاب جو پڑھایا جاتا ہے وہ گورنمنٹ کا قومی نصاب ہی پڑھایا جاتا ہے جبکہ امتیازی طور پر نصاب مسلمانوں یا یہودیوں یا عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے سکولوں میں اپنے اپنے مذاہب کے مطابق شامل ہوتا ہے جو سکولوں کی اور والدین کی صوابدید اور رضامندی پر ہے
محمد کو والدین نے بچپن میں قائل کیا کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران قرآن بھی حفظ کرے جی سی ایس سی کے دوران محمد نے محنت زیادہ کی والدین کی دعائیں شامل حال تھیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب سے لگائو کی وجہ سے شاید امتحان اس نے اچھے نمبروں میں پاس کیا محمد نے پھر گورنمنٹ کے کالج میں داخلہ لیا یہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچے برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض جرائم کی دنیا کے تجربات کرنے لگتے ہیں لیکن محمد اپنے والدین کا یہ بیٹا پڑھتا بھی رہا اور ساتھ میں حفظ بھی کرتا رہا اس نے کالج کے دوران ہی ان بقیہ دو سالوں میں حفظ بھی اور کالج میں اے لیول بھی پاس کرلیا والدین اسی دوران اس کی یونیورسٹی کی پہلے ایک سال کی فیس بھی جمع کرتے رہے کہ بیٹا یونیورسٹی جائے گا اور اس کے لئے سود پر سٹوڈنٹس قرض نہ لیا جائے یاد رہے برطانیہ میں سٹوڈنٹس کے قرض پر سود کی شرح بہت ہی معمولی سی ادا کرنی ہوتی ہے اور یہ قرض بھی بہت آسان ہے جو خود ہی سٹوڈنٹس نے اپنی زندگی میں ملازمت کے بعد قسطوں میں واپس کرنا ہوتا ہے اگر ملازمت نہیں تو سود بڑھتا نہیں ہے اور نہ ہی بنکوں کی طرف سے دبائو آتا ہے کہ جلدی ہمارا قرض واپس کرو یہاں یہ بات بھی واضع کرنا ضروری ہے کہ برطانیہ میں طلباء و طالبات کی 18 سال تک تعلیم بالکل فری ہے محمد کے والدین نے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخل کروایا اور ایک سال کے لئے فیس بھی ایڈوانس میں ادا کردی محمد کی ڈگری تین سال کی تھی محمد نے یونیورسٹی کے دوران پارٹ ٹائم کام کرنا شروع کردیا اور اتنی بچت کرلی کہ دوسرے اور تیسرے سال کی فیس خود ہی ادا کردی ًًمحمد کالج اور یونیورسٹی کی لائف کے دوران ذہنی طور پر اس خدشے اور فکر میں مبتلا رہتا تھا کہ وہ حفظ کیا گیا قران مصروفیات کے باعث بھول نہ جائے وہ فارغ وقت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہتا تھا اسی دوران یونیورسٹی میں ایک اسلامی سوسائٹی نے قرآن مجید کی قرات کا ایک مقابلہ رکھا مسلمان طلباء و طالبات نے اس مقابلے میں حصہ لیا مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کے لئے دو ٹکٹ حج اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے کو دو ٹکٹ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے انعام رکھا گیا تھا مقابلے میں محمد نے قران مجید کی تلاوت میں پہلی نمایاں پوزیشن حاصل کر لی اور دو حج کے ٹکٹ جیت کر اپنے والدین کو تحفے میں پیش کر دیئے محمد کے والدین کرائے کے مکان میں رہتے ہیں چونکہ وہ سود کے خلاف ہیں خواہش کے باوجود انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ حج پر جاسکیں گے یہاں اس بات کا تزکرہ بھی ضروری ہے کہ یونیورسٹی میں اسلامی سوسائٹی کو حج اور عمرے کے ٹکٹ سپانسر کرنے والے نے اپنا نام بھی خفیہ رکھا تھا اگر ہماری طرح کا کوئی آدمی ہوتا تو شاید سٹیچ سجاتا اپنی مشہوری کرواتا اس کی نیک نامی کے چرچے ہوتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا محمد کے والدین نے بیٹے کی قرات کے مقابلے میں جیتے ہوئے ٹکٹ پر حج کرلیا محمد نے ڈگری حاصل کرلی اور اب ملازمت کرتا ہے اور والدین اور اپنے بہن بھائیوں کا سربراہ بن گیا ہے وہ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لئے رول ماڈل بن گیا ہے اس کی ایک بہن نے بھی ڈگری کرلی ہے اور ملازمت کرلی ہے محمد برطانیہ میں اسلام کی بات کرے گا تو دلائل کسی کو سمجھا سکے گا کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں قران مجید میں دنیا اور آخرت کے لئے کیا پیغام ہے زندگی گزارنے کا راستہ کیا ہے
اولاد نیک ہو تو رزق حلال کمانے، کھانے اور کھلانے کا بڑا اثر ہوتا ہے بھوک افلاس آدھا کفر ہوتا ہے جہاں حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی جیسے ہمارے ملک پاکستان یا کسی بھی غریب ملک میں اکثر ہوتا ہے لیکن برطانیہ و یورپ میں ہمارے اپنے بعض مسلمان بھائیوں نے پیسے کی خاطر اور دنیاوی طور پر مال و دولت اکٹھا کرنے کے لئے جو دوڑ لگائی ہوئی ہے وہ بعض کے لئے درد سر بن رہی ہے افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کرونا وائرس کے دوران جہاں شہر شہر قریہ قریہ جوان جوان افراد افراد کی اموات واقع ہورہی ہیں ہم منافع خوری، سودی کاروبار، بے ایمانی، دھوکہ دہی نہیں چھوڑ رہے ہیں کیا یہ کرونا وائرس قیامت کی نشانی نہیں ہے دنیا میں جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گئے
آخر میں لندن وٹفورڈ میں مقیم اس خوبصورت جوڑواں بھائیوں کی جوڑی سردار آفتاب اور سردار مشتاق کا ذکر کرنا اور ان کے خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا چاہتا ہوں دونوں نکیال آزادکشمیر میں ایک دن پیدا ہوئے تھے دونوں ہم شکل تھے دونوں ایک ہی شہر میں مقیم رہے سردار مشتاق نے ایک ہفتہ پہلے اور سردار آفتاب نے ایک ہفتہ بعد میں داعی اجل کو لبیک کہہ دیا دونوں بھائیوں کی ایک ہی قبرستان میں تدفین ہوئی کرونا جان لیوا ثابت ہوا کرونا کی وجہ سے میتیں پاکستان نہ روانہ کی جا سکیں لوٹن کا بیرسٹر نعیم بھی پلک جھپکتے ہم سب کو چھوڑ گیا ان گنت اموات ہورہی ہے اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے آمین

Leave A Reply

Your email address will not be published.