ایمی مورن کے مطابق’’جب آپ وہ چیزیں چھوڑ دیتے ہیں جو آپ کو روکے ہوئے ہیں تو آپ غیر معمولی کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں!‘‘
انگریزی میں ایک کتاب : ’’13Things Mentally Strong People Don`t Do ‘‘
حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ ایمی مورن ایک ماہر نفسیات ہے۔ اس کتاب کا موضوع ذہنی صحت ہے۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ مصنفہ اپنی زندگی بڑی خوش خرم گزار رہی تھی کہ اچانک اسے دو قریبی احباب کی اموات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک اس کا رشتے دار اور دوسرا اس کا شوہر تھا۔ ان غموں کی وجہ سے اس کی زندگی میں خوشیاں ختم ہوگئیں۔ پھر اسے ایک اور شخص ملا جس سے اس نے شادی کی۔ یہ شادی بہت خوب رہی۔ جب ایمی دوبارہ اپنی نارمل زندگی گزارنے لگی تو اس نے اُن لوگوں پر تحقیق شروع کی جو پریشانیوں اور مصیبتوں کا شکار ہونے کے باوجود ان سے نکل آتے ہیں۔ تحقیق کے بعد اس نے مذکورہ بالا کتاب لکھی۔ یہ بہت اہم بات ہوتی ہے کہ آدمی اپنے پروفیشن پر لکھے۔ وہ زیادہ پُر اثر ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں اپنی زندگی کے حقیقی تجربات ہوتے ہیں۔
ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کی درج ذیل خصوصیات ہوتی ہیں :
1 : خودپر ترس نہ کھانا
ذہنی طورپر مضبوط لوگوں کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خودترسی کا شکار نہیں ہوتے۔ خود ترسی کی بیماری میں انسان اپنے آپ پرترس کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جن لوگوں میں خود ترسی کی بیماری پائی جاتی ہے، وہ اپنے ہی مسئلوں کو سب سے بڑے مسئلے سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو بدقسمت اور منحوس سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی سب سے زیادہ مشکل میں ہیں۔ ایسے لوگ اکثر شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ محنت ہم کررہے ہیں جبکہ ثمر دوسروں کو مل رہا ہے۔ ایسے لوگ ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو اُن کی تکلیفوں اور غموں کی حمایت کریں۔
خود ترسی سے بچنے کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنی گفتگو کو مثبت بنائیں۔ کم ازکم وہ گفتگو ضرور ہونی چاہیے جو اپنے آپ سے ہو۔ اگر ایسے دوست احباب ہیں جو متحمل مزاج اور مثبت ہیں تو اُن میں اٹھیں بیٹھیں اور اُن سے رائے لیں۔
2 : اپنی طاقت کاکنڑول اپنے ہاتھ میں رکھنا
رسول حمزہ کہتے ہیں کہ ادیب،شاعر، فلسفی، دانشور بسا اوقات محفل میں ا کیلا ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ تنہائی میں میلہ لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ فوکس کا کمال لیول ہے کہ آدمی سب کے ساتھ ہو، لیکن وہ وہاں ہو جہاں وہ رہنا چاہ رہا ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی طاقت کا ریموٹ کنڑول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ وہ یہ اختیار دوسروں کو نہیں دیتے۔ جن لوگوں کو اپنے آپ پر اختیار نہیں ہوتا ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ تنقیدکا زیادہ اثر لیتے ہیں۔ انھیں فیڈبیک کی بہت زیادہ پروا ہوتی ہے اور کسی کے کہنے پر بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں۔
3 : تبدیلی قبول کرنا
جو لوگ ذہنی طور پر مضبو ط ہوتے ہیں، وہ تبدیلی سے نہیں گھبراتے۔ آج کل دنیا میں سب سے زیادہ چینج مینجمنٹ (Change Management) پڑھائی جا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ چینج مینجمنٹ پڑھنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
بعض لوگوں کا تکیہ ہی بدل جائے تو انھیں نیند نہیں آتی، جبکہ بعض ہر جگہ خراٹے بھرتے نظر آتے ہیں۔ بعض طلبہ کا قلم بدل جائے تو وہ لکھ نہیں سکتے،ایسے لوگ جب بھی تبدیلی کے بارے میں سنتے ہیں تو وہ اینزائٹی میں چلے جاتے ہیں، جبکہ بعض لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ کسی بھی صورت حال کو قبول کرلیتے ہیں کیونکہ ان کا کام پر فوکس ہوتا ہے۔
4 : تبدیل ہونے والی چیزوں پر فوکس کرنا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنا فوکس ان چیزوں پر رکھتے ہیں جنھیں وہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں صرف ان چیزوں پرکام کرنا ہے جو بدل سکتی ہیں۔ جو ہتھیار نتیجہ دے سکتا ہے، وہ طاقت میں ضرور آتا ہے۔
ذہنی طور پر کمزور لوگوں کے پاس بے شمار ایسی خواہشیں ہوتی ہیں جن کا اُن سے دُور دُور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ بہت سوں کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن خود کو نہیں بدتے۔ ایسے لوگ سارا اخبار پڑھ کر ایسی خبروں پر تبصرہ کرتے تھے جنھیں وہ تبدیل نہیں کرسکتے، آج کل ایسے لوگ زیادہ تر فیس بک مل جائیں گے جو ایک سے ایک عجیب پوسٹ لگائیں گے، پھر انھی طرح کے کمزور ذہن رکھنے والے اس پر اس سے بھی عجیب کمنٹ کریں گے۔ پھر وہ ان کا جواب دیں گے اور یوں ایک بے مقصد سلسلہ چل نکلتا ہے۔
5 : ہرایک کو خوش کرنے کی کوشش نہ کرنا
ذہنی طور پرمضبوط لوگوں میں ہر ایک کو خوش کرنے کی فکر و خواہش نہیں ہوتی، کیونکہ وہ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ ہر ایک کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگ ہر ایک کو جواب نہیں دیتے۔ وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ وقت جواب دے گا۔ مزا ہی اس بات میں ہے کہ مخالفت ہو، تنقید ہو، لیکن اس کے باوجود آدمی آگے بڑھتا چلا جائے۔
یہ لوگ دوسروں کی خفگی کی بجائے اپنی منزل کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ زندگی کا اصل لطف ہے۔ سب کو خوش نہیں کیا جاسکتا، بس انسان اللہ کی خوشی اور اپنی خواہش کو سامنے رکھے اور جو ویژن اس نے طے کیا ہے، تمام تر مخالفتوں اور تمام تر تنقیدوں کے باجود وہ آگے بڑھتا چلا جائے۔ کنواں کھودیے، لیکن پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے کہ کون پانی پی رہا ہے۔ اس بات سے آزاد ہو جائیے کہ آپ کی چیزوں اور آپ کے کاموں سے لوگ کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
6 : تخمینی خطرات لینا
ذہنی طور پر مضبوط افراد تخمینی خطرات (Calculated Risks) لینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشاورت ضرور کرتے ہیں، لیکن فیصلہ خود کرتے ہیں۔ جن افراد کی زندگی میں اکثر و بیشتر چیلنج رہتے ہیں وہ ذ ہنی طور صحت مند اور نارمل رہتے ہیں۔ وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے، کیونکہ چیلنج انھیں ذہنی اور جذباتی طور پر تازہ رکھتا ہے، زندہ رکھتا ہے، لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ پھر اسے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتا ہے۔ جس کی زندگی میں کوئی چیلنج نہیں ہوتا، وہ عمومی طور پر ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر ساری کامیابیاں اکھٹی ہی مل جائیں تو ذہنی طورپر نارمل رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ خطرات سے بہت گھبراتے ہیں۔
7 : ماضی میں نہ رہنا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنے ماضی میں نہیں رہتے۔ جن لوگوں کے پاس صرف اچھا ماضی ہوتا ہے، اُن کا حال اکثر مشکل ہوجاتا ہے۔ انھیں بیماری لگ جاتی ہے جسے نرگسیت کہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت ماضی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا فن پروان نہیں چڑھ پاتا۔ ایسے لوگ یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ کاش ماضی دوبارہ آجائے۔ ایسے لوگوں کے پاس ماضی کے پچھتاوے ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو زیادہ تر ماضی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ماضی سے سیکھ کر آگے نکلا جائے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ یہ گُر جانتے ہیں۔ماضی سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنا حال اچھا کیجیے۔ اپنے حال میں رنگ بھریے۔ اپنے حال کو پُرلطف بنائیے۔
8 : غلطی کو بار بار نہ دہرانا
ذہنی طور پر مضبوط ایک ہی غلطی بار بار نہیں دہراتے۔ آدھ گھنٹہ نکالیے اور ماضی کی اُن غلطیوں کی فہرست بنائیے جن کی وجہ سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف یا خفت اٹھانا پڑی۔ اپنے سامنے اپنے آپ کو رکھیں۔ جو لوگ ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، وہ اکثر ایک جگہ پر پھنس جاتے ہیں، کیونکہ انھوں نے یہ سیکھا ہی نہیں ہوتا کہ کیسے اپنی غلطیوں سے بہتری لانی ہے۔وہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر ڈپریشن میں رہتے ہیں۔
9 : حسد سے بچنا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ دوسروں کی کامیابیوں پر حسد نہیں کرتے۔ جوشخص حسد کرتا رہتا ہے، وہ اپنی توانائی ضائع کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکا مفہوم ہے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے، جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ انسان کی روحانی بیماریوں میں غالباً حسد سب سے خطرناک بیماری ہے۔ چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو اپنی عمر کے کئی لوگ ملیں گے جو اپنے کامیاب ساتھیوں پر تنقید کر رہے ہو تے ہیں۔ جب آدمی یہ سوچتا ہے کہ ہمارا ساتھی آگے کیسے نکل گیا؟وہ ہم سے منفردکیسے ہوگیا؟ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص ذہنی طورپر مضبوط نہیں ہے۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’کسی کو عزت دے کر دیکھو، اگر وہ اہل ہوگا تو وہ اور اچھا ہوجائے گا؛ اہل نہیں ہوگا تو اپنی کمینگی کا اظہار ضرور کرے گا۔‘‘ جوشخص آپ کی عزت نہیں کرتا، اس کی عزت کرنا شروع کر دیجیے۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو سمجھ جائیے کہ اس میں کمینگی کی خصلت ہے۔
10 : ہار نہیں ماننا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ پہلی ناکامی کے بعد اپنی جدوجہدنہیں چھوڑتے۔ وہ اپنی پہلی ناکامی کو آخری ناکامی نہیں سمجھتے۔ جو شخص اپنی پہلی ناکامی کو آخری ناکامی سمجھے گا، وہ کڑھے گا اور اندر ہی اندر جلے گا۔ جب بھی آدمی پہلی غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگوں میں مستقل مزاجی ہوتی ہے۔ اگر انھیں کئی دفعہ بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ہر بار اتنے ہی جنون کے ساتھ دوبارہ جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔
11 : اپنی تنہائی سے نہ ڈرنا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی تنہائی سے نہیں ڈرتے۔ تنہائی میں انسان کی ملاقات اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ اگر آدمی کا کردار اچھا نہیں ہے تو جب اس کی تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ اچھا انسان ہے تو اس کو تنہائی میں خوشی محسوس ہوگی۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو اندر سے مکمل محسوس کرے گا، وہ تنہائی سے محظوظ ہوگا۔
12 : یقین ہونا کہ دنیا کچھ بگاڑ نہیں سکتی
ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ دنیا ان سے کچھ چھین نہیں سکتی اور نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ ذہنی طور پر کمزور لو گ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے۔ ایسے لوگ اپنی کوئی چیز شیئر نہیں کرتے۔ ایسے لوگ کچھ بتاتے نہیں ہیں۔ وہ جن منصوبوں پر کام کررہے ہوتے ہیں، وہ بالکل شیئر نہیں کرتے۔ اگر آپ کا ارادہ سچا ہے، خواہش سچی ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں آپ کی معاون و مددگار ہو جاتی ہیں۔
13 : جلد نتیجہ نہ چاہنا
ذہنی طور پر مضبوط لوگ جلد نتیجہ نہیں لینا چاہتے۔ وہ اپنی کوشش کا نتیجہ اپنی خواہش کے بجائے قوانین فطرت کے حوالے کرتے ہیں۔ نظم قدرت میں کوئی کام جلدی نہیں ہوتا، ہر شے کا ایک وقت ہوتا ہے اور نتیجہ اپنا وقت پورا کرنے پر آتا ہے۔ زندگی میں عادت بنائیے کہ جلد نتائج نہیں لینے۔ جلدی نتیجے میں گوبھی آلوہی بنتے ہیں، لیکن اگر نتیجہ صبر اور اطمینان سے ہوتو درخت بنتا ہے۔ اگر زندگی میں بڑا کرکے دکھانا ہے تو پھر بڑی چیزوں کو جاننے کیلئے بڑا وقت چاہیے۔ جس کا کام بڑا ہوتا ہے، اس کے کام کو زمانہ سراہتا ہے۔ جلد باز آدمی اپنے ذہن کی توانائی صرف اس بات پر لگاتا رہتا ہے کہ کب نتیجہ آئے گا جبکہ مضبوط ذہن رکھنے والا انسان اپنی ذہنی توانائی کو بچائے گا۔ پودا لگائے گا۔ مڑ کر نہیں دیکھے۔ آگے چلا جائے گا۔ ایڈیسن کہتا ہے کہ ’’میں نے اپنی کوئی بھی ایجاد کی، اس ایجاد کی وجہ یہ تھی کہ میں پچھلی ایجاد بھول چکا تھا۔ اگر وہ مجھے یاد رہتی تو میں اس کے عظمت کے مینار پر ہی کھڑا رہتا اور نئی ایجاد نہ کرسکتا۔‘‘
آپ اپنے آپ کو ذہنی طور پر مضبو ط کرنا چاہتے ہیں تو ایمی مورِن کے مشورے کے مطابق، درج بالا تیرہ کام نہ کیجیے۔