5 فروری ہر سال پاکستان کی عوام، حکومت، سیاسی اور عسکری قیادت یوم یکجہتی کشمیر اس تجدید عہد کے ساتھ مناتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کشمیر میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرے گئی ۔ اس سال یوم یکجہتی کشمیر اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ چونکہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی نریندرمودی سرکار نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے پوری تحریک آزادی کشمیر پر شب خون مارا ہے۔
جس سے کشمیر کی تحریک میں ایک المیہ پیدا ہوگیا ہے پاکستان کی 22 کروڑ عوام اس سال یوم یکجہتی کشمیر ایک ایسے وقت میں منا رہی ہے جب 80 لاکھ سےزائد کشمیریوں کو بھارت کی 8 لاکھ افواج نے گن پوائنٹ پر قیدی بنا رکھا ہے یہ جبر ظلم و استبداد کی انتہاء ہے بھارت نے ہمارے لئے کچھ اس طرح کے چیلنجز اور مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
1-کشمیر کی ساری سیاسی قیادت کو منظرنامے سے ہٹانے کے لئے بھارت نے انہیں مختلف جیلوں میں قید کردیا ہے جن میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک، شبیر ملک، آسیہ اندرابی، نعیم خان، فاروق احمد ڈار، اور دوسرے سیاسی رہنما شامل ہیں جبکہ حریت کانفرنس کے دو بڑے لیڈروں میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی کو گھروں میں نظر بند کر کے رکھا ہوا ہے ۔
2- اس خبر نے بھی اس وقت ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا کہ جب سرینگر کا دورہ کرنے والی بھارتی خواتین نے ایک پریس کانفرنس کے زریعے بتایا
کہ سولہ سال سے کم عمر 13 ہزار کشمیری بچوں کو بھارت نے قید کرلیا ہے چونکہ نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جس طرح کشمیری یوتھ نے تحریک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور بھارت کے لئے خطرہ یہ ہے کہ کشمیری یوتھ کرفیو ہٹنے کے بعد بے قابو ہوسکتی ہے
3- کشمیر کی اقتصادی حالت تشویشناک اور مفلوج کر دی گئی ہے
4-تمام تر تعلیمی ادارے پچھلے چھ ماہ سے بند ہیں
5-لوگوں کی روزمرہ زندگی سخت مشکلات کا شکار ہے
6- انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بند ہے اور بنیادی اظہار رائے پر پابندی ہے
7-بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے لئے انتہا پسند ہندوئوں کو لاکر کشمیر میں آباد کررہا ہے تاکہ مسلمان اکثریت کی آبادی کو اقلیت میں بدلا جائے ۔
8- کرائے کے علمائے کو عرب اور اسلامی ملکوں میں ہندوستان کے لئے کشمیر پر لابی کرنے کے لئے بھیج رہا ہے
پاکستان کی حکومت، قوم سیاسی اور فوجی قیادت کو ان اہداف کا تعین کرنا ہے جس کا مقصد بھارت کو کاونٹر کرنا ہے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لئے مشکلات بھارت نے پیدا کررکھی ہیں پاکستانی قوم کو فیصلہ کرنا ہے اور کوششیں تیز کرنی ہیں کہ بھارت نے کشمیریوں کی تحریک کو ختم کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں جو چیلنجز پیدا کر رکھے ہیں ان سے کس طرح نبرد آزما ہوسکیں اپنی سفارتی کوششوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اقوام متحدہ کو کس طرح متحرک کیا جائے یورپین یونین میں کس طرح لابی کی جائے او آئی سی کو کسطرح فعال بنایا جائے برطانوی پارلیمنٹ اور امریکہ میں کس طرح بھارت کے مقابلے میں ہم کشمیر پر اپنا نکتہ نظر پیش کریں کہ ہماری سفارت کاری موثر ثابت ہو۔
محب وطن پاکستانیوں اور کشمیریوں کے زہنوں میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں یہ سوال ان لوگوں کے زہنوں میں آتے ہیں جو کشمیر کی تحریک سے وابستہ ہیں یا کشمیر کے لئے انکے دل تڑپتے ہیں جو لوگ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں انکے کوئی سوال نہیں جنہیں حالات کی سنگینی کا ادارک ہی نہیں اور روایتی طور پر رٹی رٹائی تقریریں کرکے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں ان سے مخاطب ہونا لاحاصل بحث ہے سوالات کچھ اس طرح کے اٹھتے ہیں ‘
1-حکومت پاکستان کشمیر کی موجودہ صورتحال میں کیا اقدامات اٹھانے جارہی ہے؟
2-وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو گورنس، سیاسی اور معاشی طور پر بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ان حالات میں مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم عمران خان سے کشمیری کیا توقعات وابستہ رکھے ہوئے ہیں؟
3-امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش کو کتنا سنجیدہ لینا چاہئے اور امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے مقابلے میں ہمارے لئے کتنے بھروسہ مند ہیں؟
4- کشمیر پر ان حالات میں میں کیا پاکستان پر لازم نہیں ہے کہ ایک اسلامی کانفرنس بلانی چاہئے؟
5-کشمیر اگر قومی مسئلہ ہے تو کیا حکومت پاکستان کو ایک آل پارٹیز کانفرنس فوری طور پر نہیں بلانی چاہئے؟
6-برطانیہ میں کشمیری ڈائسپورہ میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو کشمیریوں کی محرومیوں کا زکر کرتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کو ایک ہی پلڑے میں تولتے ہیں اور پاکستان کے قومی نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے ان کے لئے ہمارے پاس کیا جواب ہے یا 5 اگست 2019 کے بعد پاکستان کی کشمیر پر اچیومنٹ اور جواب سے مایوسی کا شکار ہیں؟
7-آزادکشمیر اور بیرون ملک آباد کشمیریوں کو ان حالات میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے ان کو متحد کرنا کس کی ذمہ داری ہے ہم غداری اور وفاداری کے سرٹیفکیٹ دینے کے بجائے ان لوگوں کو متحد کیسے کرسکتے ہیں؟
8-وزیراعظم عمران خان 5 فروری کو مظفرآباد اور اور میرپور جائیں گے کیا وہ یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ پاکستان شملہ معاہدہ سے دستبردار ہوتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کی تحریک بڑے نازک دور میں داخل ہوچکی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی حالت تشویشناک ہے اور پاکستان واحد ملک ہے جس نے اس تحریک کے لئے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں اور اگر ہم نے اس وقت کو یوں ہی ضائع کردیا تو تاریخ نہ ہمیں معاف کرے گی اور نہ ہی وہ مائیں ہمیں معاف کریں گئیں جن کے بیٹوں نے اپنے خون سے اس تحریک کو سینچا ہے ایک صدی کی جدوجہد ہے ان کشمیریوں کے حوصلے دیکھیں جو ان حالات میں بھی اپنے شہداء کو سبز ہلالی پرچم میں دفن کرتےہیں