کاؤنسلنگ اور کوچنگ

0 225

ہمیں زندگی پہلے مل جاتی ہے جبکہ عقل اور شعور بعد میں ملتا ہے۔ جب عقل و شعور کی باری آتی ہے تو ہماری اٹھان اکثر ایسی ہوتی ہے کہ ہم زندگی کے اہم ترین سوالات کے جوابات جاننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، من چاہی شے حاصل کیسے کرنا ہے، منزل کی شناخت کیسے کرنی ہے، جانا کدھر ہے،پانا کیا ہے، کھونا کیا ہے، منزل کیسے پانی ہے، حقیقت کیا ہے، وغیرہ۔۔۔ جیسے جوابوں کیلئے ہم دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ عموماً ہم یہ جوابات اپنے والدین سے لیتے ہیں، لیکن والدین سے حاصل ہونے والے یہ جوابات اکثر غلط ہوتے ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ ان چیزوں کے ماہر نہیں ہوتے۔ دوسری جانب ہماری اپنی عقل، اپنی سمجھ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ہماری زندگی کو کامیاب اور خوش بناسکے۔ پھر یقینی بات ہے کہ ہمیں زندگی کے بنیادی مسائل میں معاونت اور رہ نمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب یہ معاونت و رہ نمائی ہم کسی ماہر سے لیتے ہی تو اسے کاونسلنگ اور کوچنگ کا نام دیا جاتا ہے۔

▪️انسان کو ہمیشہ رہ نمائی کی ضرورت رہی ہے
کاونسلنگ، کوچنگ یا لائف کوچنگ کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ یہ سفر بابوں سے شروع ہوتا ہے۔ کسی گاؤں میں بابا جی کسی درخت کے نیچے بیٹھے ہوتے تھے اور اس گاؤں کے بچوں اور نوجوانوں کو سمجھایا کرتے تھے۔ الفاظ سے معانی تک کاسفر طے کرنے والے یہ بے شمار بابے دنیا میں موجود تھے۔ یہی کلچر دنیا میں آج بھی کئی جگہوں پر موجود ہے، جیسے مصر میں یونیورسٹیوں کے اندر شام کے اوقات میں لوگ اپنی نوکریوں، اپنے کاروبار سے ہٹ کر بیٹھتے ہیں اور آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ باتیں یہی ہوتی ہیں کہ ہمیں کیسے جینا ہے، کیسے مرنا ہے، زندگی کیا ہے، موت کیا ہے، فکر کیا ہے، حیات کیا ہے، مسئلہ کیا ہے، مسئلہ کیا نہیں ہے، کیا خوشی ہے، کیا غم ہیں۔ آج البتہ اس کی پروفیشنل شکل آ گئی ہے اور یہ شکل کاونسلنگ اور کوچنگ کے عنوان سے دستیاب ہے ۔

جس طرح ہر شخص کو کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اداروں کوبھی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ مختلف شعبوں کے کنسلٹنٹ رکھتے ہیں تاکہ اپنے کاروبار میں بہتری لائی جاسکے۔ ہر شعبے میں کہیں نہ کہیں یہ چیزیں آ جاتی ہیں، پھر ان کی ضرورت پڑجاتی ہے۔

▪️مہارتِ فن
کاونسلر یا کوچ دراصل وہ ماہر ہوتا ہے جومسئلے اور فرد کے درمیان موجود تنازعہ کی شدت کو کم کردیتا ہے اور مسائل کے حل کے نئے طریقے بتاتا ہے، نئی سوچ دیتا ہے اور بسا اوقات صرف احساس دلاتا ہے۔ پروفیشنل کائونسلر یا کوچ یہ فن باقاعدہ سیکھتا ہے۔
جو پرانے اور روایتی بابوں کا بسا اوقات پیشہ ورانہ تجربہ نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے یہ فن کسی سے باقاعدہ نہیں سیکھا ہوتا تھا۔ البتہ انھوں نے زندگی سے اور تجربوں سے سیکھا ضرورہوتا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں تجربہ بہت بڑا استاد ہے، لیکن محض تجربہ رکھنا اور باقاعدہ نفسیات اور سماجیات پڑھنا، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اگر ایک شخص پروفیشنل ہے توپھر یقینی بات ہے کہ اس کی سمجھ بوجھ بھی ویسی ہی ہو گی۔ اس کا مشاہدہ، اس کا تجربہ، اس کی تعلیم، اور اس کو جواتالیق ملے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔ ان اساتذہ نے اسے سکھایا ہو گا کہ کیسے آپ کو آگے بڑھنا اور کیسے زندگی گزارنی ہے اور کیسے کسی نتیجے پرپہنچنا ہے۔ پرانے بابوں کے پاس بسا اوقا ت اس چیز کی باقاعدہ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی تھی۔ وہ صرف اپنے علاقوں کو جانتے تھے۔ ان کا زندگی کا مشاہد ہ کم ہوتا تھا۔ آج یہ صورت حال بدل گئی ہے۔ آج باقاعدہ کائونسلر کو تلاش کیا جاتا ہے۔

▪️ہر شعبے کی مہارت الگ ہے
زندگی کے سات شعبے ہیں اور گیارہ قسم کے مسائل ہیں۔ بے شمار طرح کے چیلنج ہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر انسان کو بتاتی ہیں کہ ہمیں ان مسئلوں کو حل کرنا ہے۔ جس طرح مختلف اعضا کے الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں، آنکھوں کا ماہر علیحدہ، دل کا ڈاکٹر علیحدہ، معدے کا علیحدہ، غرض کہ ہرمرض کا علیحدہ سے ڈاکٹر ہوتا ہے، اسی طرح جتنے مسائل ہیں ان تمام مسائل کے ایکسپرٹ بھی علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ان مسائل کا خاص علم اور آسان حل ہوتا ہے۔

پاکستا ن ایک ایسا ملک ہے جہاں تعلیم اور تربیت علیحدہ ہو چکی ہیں۔ ان کا آپس میں فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ماں کو اچھی ماں بننے کی تربیت نہیں ہے۔ بیٹے کو اچھا بیٹا بننے کی تربیت نہیں ہے۔ باپ کو نہیںپتا کہ باپ کی ذمے داریاں کیا ہیں۔ پاکستانی کو اچھا شہری بننے کی تربیت نہیں ہے۔ طالب علم کو اچھا طالب علم بننے کی تربیت نہیں ہے۔ نمبر لینا ہی کافی نہیں ہے۔ گرومنگ بھی بہت اہم ہوتی ہے۔

شخصیت کے چند حصے ایسے ہیں جن میں بہتری کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ایک رکشے والے کو نہیں پتا، پیدل چلنے والے کو نہیں پتا، پان کی پیک پھینکنے والا دیکھتا ہی نہیں ہے کہ تھوکنے کابھی کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ ہمیں چھوٹی بچی کو تمیز سکھانی ہے کہ کل کو اس نے ماں بننا ہے۔ ہمیں ایک لڑکے کو بھی سکھانا ہے کہ اس نے پروفیشنل بننا ہے،باپ بننا ہے، ذمہ داریاں اٹھانی ہیں۔ اس لیے ہر جگہ ٹریننگ کی ضرورت ہے۔

▪️کاونسلنگ اور کوچنگ سے ناواقفیت
اس وقت پاکستان میں کاونسلرز کی تعداد بہت کم ہے جبکہ لائف کوچنگ کا تو لفظ ہی لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ لیکن آنے والا وقت صرف ڈاکٹرز ، انجینئرز کا نہیں ہے بلکہ وہ کوچ اور کنسلٹنٹ کا وقت ہے۔ کوچنگ اور کاونسلنگ اس وقت امریکا کا دوسرا سب سے تیزی سے پھیلنے والا پروفیشن ہے، کیونکہ مشورہ اور رہ نمائی بھی ایکسپرٹ ہی کی مانی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی ایک شعبے میں ایکسپرٹ ہیں اور اپنے آپ کو بہتر کرتے ہیں تو ایک وقت آئے گا کہ آپ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے نقشے پر نظر آئیں گے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایک ہی بل گیٹس ہے۔ اس کو ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ مارکیٹنگ کرے، کیونکہ وہ پہلے ہی برانڈ بن چکا ہے۔ جب بھی کوچنگ لینی ہو تو اس شعبے کے ایکسپرٹ کو تلاش کریں۔

اگر کسی شعبے کے ایکسپرٹ سے کوچنگ لینی ہے لیکن جیب اجازت نہیں دیتی تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ گوگل پر، یوٹیوب پر یا کسی بھی سرچ انجن پر سرچ کر لی جائے، کیونکہ آج کل نیٹ پر ہر چیز موجود ہے۔ اس کے علاوہ کو چنگ کے کچھ قدرتی ذرائع ہیں جیسے اپنے بڑوں کی مجلس میں بیٹھیں اور سیکھیں، دوسروں کے تجربے اور مشاہدے سے سیکھیں، اپنا علم بڑھائیں، اپنا ویژن بڑھائیں، اپنے آپ کو بہتر کریں اور بہتری کے حوالے سے جو بھی چیزیں موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کیجیے، سچے کھرے انسان بنئے، زندگی کی پلاننگ کیجیے۔ اگر یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوں گی تو پھر کاؤنسلنگ کسی حد تک مینج ہوجائے گی۔ یہ چیزیں کسی ایکسپرٹ کا متبادل تو نہیں ہوسکتیں، لیکن مسئلے کے حل میں معاون ہوسکتی ہیں۔

▪️نوجوانوں کے مسائل
موجودہ دور میں نوجوانوں کے چار بڑے مسائل ہیں۔ ان میں پہلا مسئلہ تعلیم ہے۔ وہ اُن سے مینج نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ جب پڑھ رہے ہوتے ہیں، تب بھی مسائل میں گھرے رہتے ہیں اور جب پڑھ کر فارغ ہوجاتے ہیں تب بھی انھیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انھوں نے اب اس تعلیم کا کرنا کیا ہے۔ اس لیے انھیں کوچ کی ضرور ت ہوتی ہے جو انھیں ایجوکیشنل پلاننگ سمجھائے۔ جو انھیں تعلیم کے اہداف سیٹ کرائے (گول سیٹنگ)۔ جو ان کے مزاج کو دریافت کرائے اور پھر ان کی شخصیت کے مطابق انھیں تعلیمی مضامین کا انتخاب کرنے میں رہ نمائی دے۔

نوجوانوں کا دوسرا مسئلہ جوانی کی نام نہاد محبت ہے جس میں وہ کسی کی محبت میں پھنس جاتے ہیں یا غلط صحبت میں پڑجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے یہ مسائل بہت عام کردیے ہیں، اس لیے نوجوانوں کیلئے کوچنگ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضروری ہوگئی ہے۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے، کیونکہ شادی کے ذریعے پورا سماج بنتا ہے اوریہ وہ فیصلہ ہوتا ہے کہ جس کے اثرات موت تک کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہم شادی سے پہلے کسی فیملی کوچ یا کاونسلر کی طرف نہیں جاتے۔ ہم ایک بندہ لیتے ہیں اور اس کو بغیر کسی ٹریننگ کے دولھا بنا دیتے ہیں۔ پھر اسے مسائل کے سمندر میں تنہا ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں۔

نوجوانوں کا تیسری قسم کے مسائل جذباتی نوعیت کے ہیں۔ زندگی میں فوکس کی کمی، خوف، خود اعتمادی کا نہ ہونا وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو آج کے بیش تر نوجوانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے حل کیلئے بھی کاونسلر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بسا اوقات نوجوان کو نفسیاتی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، کوئی کمی ہوتی ہے، شخصیت کی کمزوری ہوتی ہے یہ چیزیں انہیں مریض بنا دیتی ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو کاونسلر کی ضرورت ہوتی ہے۔

نوجوانوں کا چوتھا مسئلہ سیلف مینجمنٹ کا نہ ہونا ہے۔ اپنی ذات کی تنظیم و ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے وہ جسمانی، روحانی اور دیگر مسائل سے پریشان رہتے ہیں۔ خاص طور پر، اس عمر میں جو فطری جنسی تبدیلیاں ہوتی ہیں، درست معلومات نہ ہونے کے باعث وہ ان سے گھبراجاتے ہیں اور پھر اتائی انھیں ڈرا کر بے وقوف بناکر ان سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں۔

▪️ہر مسئلہ دوا سے حل نہیں ہوتا
کچھ لوگ کاونسلنگ اور کوچنگ کی جگہ بھی دوا کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید دوا کا استعمال ان کے مسائل کا حل ہے۔ اس لیے وہ بھاگے بھاگے اپنے معالج کے پاس جاتے ہیں۔ یاد رکھیے، دواؤں کی اپنی اہمیت ہے، مگر پچانوے فیصدی سے زائد مسائل کو کسی دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں درست ماہرانہ رہ نمائی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ کاونسلنگ اور کوچنگ ایک ایڈوائس انڈسٹری ہے، یعنی نصیحت دینے کی صنعت ہے۔ اس میں کوئی میڈیسن نہیں ہوتی۔ کاونسلر کی سمجھانے کی صلاحیت اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں سے متاثرہ فرد کو مسئلے کا حل سمجھا دیتا ہے، کیوں کہ وہ ان مسائل کو سمجھتا ہے۔
کاونسلر یاکوچ کسی فرد کا مسئلہ خود حل نہیں کرتا، لیکن وہ یہ ضرور بتادیتا ہے کہ یہ مسئلہ کیوں کر حل ہوسکتا ہے۔کاونسلر تین حصوں میں کام کرتا ہے۔ پہلے وہ اس مسئلے کوسمجھتا ہے، پھر حقائق بتاتا ہے، پھر اس مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ بتاتا ہے۔

▪️کامیاب مشاور
بعض کاونسلر اور کوچ بہت زیادہ متاثر کن ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت، ان کا انداز اور ان کا علم زیادہ موثر ہوتا ہے ۔اچھا کاونسلر بننے کیلئے علم ہونا چاہیے۔ اسے اپنے بارے میں پتا ہو، اسے انسانی نفسیات کا پتا ہو، زمانے کے علم کا پتا ہو۔ کاونسلرکو ہمدرد ہونا چاہے۔ اگر وہ ہمدرد نہیں ہے تو پھر وہ اچھا کاونسلرنہیں بن سکتا۔ کاونسلر کے پاس ویژ ن ہونا چاہیے۔ اسے پتا ہو کہ میں جو نصیحت کر رہا ہوں، اس کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے، یہ کدھر جائے گی اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ کاونسلر کے اندر یہ خاصیت ہونی چا ہیے کہ وہ کلائنٹ کی جگہ پر آ کر سوچ سکے اور مسئلے کو سمجھ سکے۔کاونسلر کو پتا ہونا چاہیے کہ اس نے جو کیس شروع کیا ہے، اسے کیسے نمٹانا ہے۔ بہت سے لوگ کیس تو کھول لیتے ہیں، پھر انھیں سمیٹنا نہیں آتا ۔

اچھا کائونسلر اور کوچ وہ ہوتا ہے جو اپنے سیشن میں ستر فیصد سنتا ہو اور تیس فیصد بولتا ہو۔ جو آدمی صرف بولتا ہے، سنتا نہیں ہے، وہ کاونسلنگ نہیں کرسکتا۔ جو شخص علم کے راستے پر چلتا ہے، اس کا مطالعہ بڑھتا ہے، اس کی شخصیت میں بہتری آتی ہے۔

▪️اچھی چیزوں کی لاعلمی
اس معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اچھی چیزیں متعارف نہیں ہوئیں۔ مغرب میں علم متعارف ہو چکا ہے۔ بدھا پسٹ میں لوگوں کے ہاتھ میں ٹکٹ تھے اور ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ ایک پاکستانی نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کون سی فلم لگی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس دفعہ جس شخص نے لٹریچر میں نوبل انعام لیا ہے، اسے سننے کیلئے یہ تمام لوگ یہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں علم کا، کاونسلنگ کا اور سیکھنے کا کلچر ابھی تک نہیں آیا۔ یہاں لوگ کتاب پر ، سیکھنے پراور اپنی ذات پر پیسے نہیں لگاتے۔ یہاں صرف ایک ہی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کھانے ،پینے اور اچھا دِکھنے پر کتنے پیسے لگائے جا سکتے ہیں۔جب ہماری ترجیحات یہ چیزیں ہوں گی تو پھر انقلاب کیسے آئے گا؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.