ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

0 120

عالمی حالات کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صلیبی طرز کی جنگوں کا سلسلہ جاری ہے اور مسلم ممالک میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ان کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ماضی قریب میں بوسنیا ہرزیگووینیا میں مسلمانوں کی بے دریغ اور بد ترین نسل کشی کی گئی۔ کشمیر اور فلسطین میں انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیاں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ افغانستان، چیچنیاں اور عراق میں لاکھوں بیگناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن امت مسلمہ تمام تر طاقت اور وسائل رکھنے کے باوجود ناصرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ مسلم حکمرانوں کی خاموشی کو حمایت سمجھ کر اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر ان کی نسل کشی بھی کر رہا ہے۔ عالم اسلام کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس طرح سے خاموش رہے تو تشدد اور جارحیت صرف فسلطینیوں اور کشمیریوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبلہ اول کی حفاظت تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے لیکن شرق سے غرب تک کہیں کسی مسلمان ملک یا تنظیم میں دم خم نظر نہیں آتا کہ مظلوموں کی مدد ہی کر سکے۔فلسطین میں عورتوں، بچوں اور رہائشی آبادی پر بمباری اسرائیل کی جانب سے جاری انسانیت سوز مظالم کھلی دہشت گردی ہے،مسلم امہ کے حکمران مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لئے اپنے ذاتی مفادات ختم کرکے متحد نہ ہوئے تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔ اسی طرح روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا گئی۔ اقوام متحدہ کی ایک ریپورٹ کے مطابق روہنگیا کے مسلمانوں کو ’’روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دیا گیاہے۔ بینادی انسانی حقوق تو کجا انہیں تو اس ملک کا شہری کہلانے بھی حق حاصل نہیں۔ معاشی اور سماجی حوالے سے یہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی طویل داستان ہے۔ 1938 میں برما کو جب برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو اسی وقت سے انتہا پسند بدھ بھگشوں نے’’ مسلم کش‘‘ پالیسیاں اختیار کر کے برما سے مسلمانوں کی شناخت مٹانے کیلئے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک جانے پہ پابندی عائد کی گئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کیلئے دروازے بند کر دیے گئے جبکہ نجی ادارے بنانے پر بھی پابندیاں لگا دیں ۔یہاں تک کہ شادی کرنابھی دشوارترین عمل بنا دیا گیا ۔ شادی سے پہلے جوڑے کو سرکاری اہلکاروں کے سامنے پیش ہونا ہوتاہے۔ ہزاروں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ شادی سے پہلے ہی عفت مآب مسلمان بیٹیاں ان درندہ صفت برمی اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنوا بیٹھیں۔ مسلمان ظلم سہتے رہے اور یہ خبریں میڈیا پر آتی رہیں۔ لیکن ان سارے مظالم کے باوجود عالمی برادری خصوصا مسلمان ممالک اور حقوق انسانی کا واویلا کرنیوالی این۔ جی۔ اوز نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ فلسطین، برما اور کشمیر میں دماغ کو ماؤف کر دینے والے مظالم کے سامنے چنگیز خان، ہلاکو خان کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی مات کھاتی نظر آتے ہیں۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کے نام پہ شہرت کمانے والی این جی اوز؟ کہاں ہیں اپنی بادشاہتوں کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے شہنشاہان وقت؟ آج ان دل سوز مناظر پر اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ مظلومیت کی اس چکی میں پسنے والے مسلمان ہیں۔ اگر یہی کچھ عیسائیوں یا یہودیوں کے ساتھ ہو تو پھر بھی کیا یہی رویہ ہو گا!! یقینا نہیں۔ مسلمانوں کو اب بھی ہوش نہ آئے اور خواب غفلت سے بیدار نہ ہوں۔ متحد ہوکر اپنے آپ کو مضبوط نہ کریں تو پھر اﷲ ہی حافظ کیونکہ بقول اقبالؒ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

تاریخ گواہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی یا وحشیانہ سلوک کے واقعات پیش آئے ، وہاں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور با اثر ممالک نے اس وقت مداخلت کی جب ان کے مفاد وابستہ تھے یا مظلوم غیر مسلم تھے۔ ایسٹرن تیمور، جنوبی سوڈان یا دیگر مقامات پر ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ اور با اثر ممالک نے نہ صرف فوری مداخلت کی بلکہ ملکوں کو ہی تقسیم کردیا۔ لیکن جہاں جہاں مظلوم مسلمان ہیں وہاں ان ساری طاقتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اگر کہیں کاروائی کی بھی تو وسیع قتل و غارت کے بعد۔ افسوس تو ان57 مسلمان ممالک کے سربراہان پر ہے جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ سب سہمے ہوئے اور خاموش۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک قدرتی وسائل اور تیل سے مالا مال ہیں۔ کیا ان وسائل پر قابض مسلمان ممالک کے سربراہان کا فرض نہیں بنتا کہ اپنے ان مظلوم فلسطینی بھائیوں کا ان بد ترین حالات میں ساتھ دیں اور اس معاملے کو جلد از جلد اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔ ہم حکومت پاکستان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ کہ اس معاملے کو فوری طور پر اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔ مسلم ممالک کی کانفرنس بلائیں اور انہیں ساتھ ملا کر دباؤ بڑھائیں۔ فلسطینی مسلمانوں سے چھینا ہوا حق انہیں واپس لے کر دیں۔ یہ ان کا آبائی وطن ہے اور وہاں پر سکون طریقے سے رہنے کا انہیں حق دیا جائے۔ یاد رکھیں اگر آج آواز نہ اٹھائی تو کل یہی حال کسی اور ملک میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

جس دور پہ نازاں تھی دنیا ہم وہ بھی زمانہ بھول گئے
غیروں کی کہانی یاد رہی اور اپنا فسانہ بھول گئے
اغیار کا جادو چل بھی چکا ہم ایک تماشہ بن بھی چکے
اپنوں کا مٹانا یاد رہا غیروں کا مٹانا بھول گئے
انجام غلامی کیا کہیے بربادی سی بربادی ہے
جو درس شہ بطخا نے دیا، وہ سبق پڑھانا بھول گئے
عبرت کا مرقع یہ پستی اور قابل حیرت یہ مستی
اوروں کو جگانا یاد رہا خود ہوش میں آنا بھول گئے
اذان تو اب بھی ہوتی ہے مسجد کی فضا میں اے انور
جس ضرب سے دل ہل جاتے تھے وہ ضرب لگانا بھول گئے

Leave A Reply

Your email address will not be published.