انچارج کالم : سحرش ریاض
ایڈمن کمیٹی : بلال شبیر، عیشوا کبیر، سحرش ریاض، عاصم منیر
تحریر : عاصم منیر عاشی
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے : (اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لئے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔ تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔ جن کو تم نہیں جانتے البتہ اللہ ان کو جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ (جہاد) میں خرچ کروگے تمہیں اس کا پورا پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کسی طرح ظلم نہیں کیا جائے گا۔
28 مئی 1998 پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو اپنی طاقت سے باور کرا دیا اور اپنی طرف اٹھنے والی غلیظ نگاہوں کو خاموش کرا دیا۔ اس ملکِ خداد کے کئی کھلے اور پوشیدہ دشمن ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھنے کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت ناقابلِ تسخیر ہو۔ اقوامِ عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم کی دفاعی استطاعت کمزور ہوئی ہے اسے طاقتور اقوام اور دشمن قوتوں نے پاؤں تلے روند دیا اور ان کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ماضی کے جھروکوں میں دیکھیں یا عہدِ حاضر کو اس طرح کی ہزاروں داستانیں ملتی ہیں۔ لیکن صد افسوس کچھ کم ظرف لوگ جن کا تعلق وطنِ عزیز سے ہی ہے وہی پاکستان کی ایٹمی اور دفاعی قوت کو مختلف انداز میں تنقید کی نوک پہ رکھے نظر آتے ہیں شاید انکو اسکی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں یا وہ کسی مخالف قوت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوۓ ہیں۔ موجودہ کرونا کی صورتحال میں بھی کئی حلقوں سے ایسی آوازیں آتی رہیں کہ میزائل یا آکسیجن ایٹم یا ہسپتال وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں کو یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر یہ میزائل ایٹم اور ہمارا دفاع مضبوط نہ ہوتا تو آج ہمارا حال بھی فلسطین عراق افغان جیسا ہی ہوتا۔ حکومتِ وقت کو بھی چاہیے کہ وہ یوم تکبیر پر صرف چھٹی اور ترانے چلانے کے بجائے ایسی تقریبات منعقد کرے جس سے اسکی اہمیت واضح ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے جن سے ان کند ذہن لوگوں کی زبان کو لگام ڈالی جا سکے جو بلاوجہ کی تنقید سے دفاعی صلاحیت اور دفاعی قوت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
سلام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ساری ٹیم کی سوچ اور قائدانہ صلاحیتیوں کو جن کی بدولت آج پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ پاکستان زندہ باد !
تحریر: بنت ایوب مریم
خدائے لم یزل کے فضل اور محسن قوم ڈاکٹر عبد القدیر خان کی جدوجہد سے 28 مئی سنہ 1998 کو بلوچستان کے ضلع چاغی کی ایک معروف پہاڑی راسکوہ میں جوہری توانائی کے مظاہرے اور پانچ عدد کامیاب ایٹمی دھماکوں سے فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پاکستان عالم اسلام کا پہلا اور اقوام عالم کا ساتواں ایٹمی ملک بن کر دشمنان دین پر دھاک بٹھانے کا سبب بنا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق کی کوششیں رنگ لائیں اور دشمنوں کے ناپاک عزائم سپرد خاک ہوئے۔
پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اللہ کے حکم کی تعمیل کا تسلسل ہے۔ ایٹمی پروگرام کے ماضی میں جس جس حکمران یا سائنسدان نے جو خدمت بھی سرانجام دی وہ حکم الٰہی کی تعمیل کے عین مطابق تھی۔ اگر یہ دھماکہ نہ کیا جاتا تو من حیث القوم پوری دنیا کے مسلمان اللہ کے حکم کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے۔ عالم اسلام کی طرف سے یہ فرض کفایہ تھا، جس کی ادائیگی پاکستان کے نصیب میں آئی اور یوں پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الٰہ آلا اللہ
ایٹمی قوت بننے سے پاکستان اقوام عالم کے تمام مسلمانوں کے لیے سلامتی، امن و آشتی، بھائی چارے اور عافیت کا پیغام بنا۔ ملک پاکستان کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی بقا و استحکام مضبوط ہوئی اور اسی لیے 28 مئی کو یومِ تکبیر اور یوم تجدید کے طور پر ہر سال جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر عالم اسلام نے خوش دلی سے پاکستان کو مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ فلسطین اور کشمیر میں خصوصی طور پر خوشیاں منائی گئیں کہ ہمارے بھائی ہمیں جلد آزادی دلا دیں گے۔ فلسطین کی مسجد اقصیٰ میں شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں، ہمارے پاکستانی بھائی ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اب ایٹمی طاقت بننے کے بعد دوسری اقوام سے کوئی خطرہ نہ رہ گیا تھا۔ لیکن ہم نے بیچارے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا؟ کسی کی کوئی مدد نہیں کی۔ ایٹمی توانائی کو سنبھالے رکھا اور آزادی کی کوشش کے نام پر نغمے سنا کر بہلاتے رہے۔ صرف کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہی ستم نہیں کیا بلکہ ایٹمی توانائی کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اپنے ہی ملک میں نظر بندی کی سزا سہنا پڑی۔
ہمارے پیارے ملک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 22 برس ہو چکے اور ابھی تک کشمیری، فلسطینی اور اقوامِ عالم کے تمام مظلوم مسلمان ہماری راہ تک رہے ہیں کہ ہم جلد انہیں دشمنوں کے نرغے سے نکال کر دین اسلام کی بالادستی اور بھائی چارے کی پاسداری کریں گے۔
تحریر: نوشین ارشاد
28 مئی 1998 کو بلوچستان میں واقع چاغی کی پہاڑیوں میں ہونے والے 6 دھماکے بھارتی جارحیت اور ایٹمی طاقت کے بھرپور جواب میں کئے گئے اور فضا اللّٰہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی ۔اس لئے ہر سال اسے یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یومِ تکبیر کا واحد اور بنیادی مقصد وطنِ عزیز کے دفاع اور سلامتی کا تھا۔ بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد انہوں نے کئی مرتبہ دھماکے کئے جسکی وجہ سے قوم غیض و غضب میں مبتلا تھی اور اب ہماری باری تھی جوہری طاقت دکھانے کی نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں اپنی حفاظت کا بیڑا اٹھانے کی جس سے پاکستان دنیا میں ایٹمی طاقت رکھنے والا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔
اس تمام تر کوشش و محنت کا سہرا بہت سے لوگوں کے سر جاتا ہے جن میں پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کے ساتھی شامل ہیں۔ صدر نواز شریف کے حکم پر یہ دھماکے کئے گئے اور انہیں بہت دبایا گیا عالمی طاقتوں کی جانب سے کہ یہ سب کارفرما نہ ہو اس لئے وہ کچھ تذبذب کا شکار تھے مگر مادرِوطن کی عظمت و سلامتی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا اس لئے انہوں نے حکم دے دیا کہ دھماکہ کردیا جائے۔ تقریباً سات آٹھ سال کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس تمام کام کو سرانجام دینے کیلئے سب سازوسامان مہیا کیا اور نواز شریف کے دور حکومت میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
پاکستان نے نہ صرف دشمن کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھی اور ان کو ناکوں چنے چبوا دیے بلکہ پوری دنیا کے سامنے اپنی طاقت کا لوہا منوایا اور خود کو ایک آزاد دفاعی ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف اب کوئی میلی آنکھ بھی نہ دیکھے سب کو باور کرایا ۔ اللّٰہ کا لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایسی قوم ہیں جو اپنے ملک کے دفاع اور عزت و حرمت کی خاطر کچھ بھی کر گزرے گی اور شکر ہے ذات خداوندی کا کہ اس نے ہمیں یہ صلاحیت بخشی ہے۔ اللّٰہ سے دعا ہے وطن عزیز سلامت رہے تاقیامت رہے۔آمین ثم آمین۔۔۔
عزیز از جان وطن پاکستان،
تمھاری عظمت کو سلام۔
تحریر:عابدہ ارونی
پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ نیوکلیئر تجربات کیے اور کامیاب ایٹمی دھماکے کیے اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا.
پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا اور دشمنوں کے ارادوں کو ناکام بنا دیا ۔ یوم تکبیر پاکستان کی تاریخ میں ایک سنہرا دن تھا جب پاکستان نے بھارتی دھماکوں کے جواب میں ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا.
اسرائیل اور بھارت بھی ایٹمی طاقت بنا نیوکلیئر ٹیسٹ دئیے پر آج تک ان کا نام نہیں ہوا. پاکستان نیوکلئر طاقت بنا پوری عالم اسلام اور پوری دنیا میں اسلامی نعرہ بلند ہوا۔نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے دفاعی استعمال کے ساتھ ساتھ ایٹمی صلاحیت نے بجلی پیدا کرنے کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔
دفاعي شعبے کے علاوہ توانائی، طب اور زراعت کے شعبوں ميں بھی تابکاری مادوں کا استعمال بڑھايا جارہاہے. عرب روزنامہ اشراق میں ایک مضمون چھپا جس کا موضوع تھا "اسلامی بم” ایک خواب جو شرمندہ تعبیر ہوا ۔
ایٹمی طاقت کی بنا پر آج پاکستان بھی اسلامی ممالک میں سب سے آگے ہے اور اس دن کو ایک سنہرے دن کا نام دیا گیا ہے اس سنہرے دن کو پوری پاکستانی قوم بڑے ہی جوش و خروش سے مناتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی یہ دن بہت اہتمام سے منایا جا رہا ہے.
جنوبی ايشياء کے دو بڑے ملکوں کی طرف سے ايٹمی دھماکوں کے بعد جہاں دوست اور اسلامی ممالک نے فخر اور خوشی کا اظہار کيا وہيں مغربی ممالک نے مختلف قسم کی پابنديوں کا اعلان کرديا۔ اگر ہمارے پاس اس وقت یہ ایٹمی قوت نہ ہوتی آج ہم بھی فلسطین اور باقی ریاستوں کی طرح روندے جاتے۔
کارگل جنگ میں بھارت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ پاکستان پر حملے کی جرات نہیں سکتا تھا۔ نیوکلیئر طاقت پاکستان کی ڈھال بن کر مشرقی سرحدوں کی حفاظت کئے ہوئے ہے یہ پاکستان کی خوش نصیبی ہے آج ایٹمی پاور بنا ہوا ہے ۔
اب ہمارا فرض ہے مل جل کر ایک قوم ہو کر ملک کے دفاع اور بقا کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور زیادہ نہیں تو کچھ حصہ ہی ادا کریں تاکہ ہم کہہ سکیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سلام کرتے ہیں جن کی کاوشوں کے باعث پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا اور دشمنوں کے ارادوں کو ناکام بنا دیا۔
آؤ پاکستان کی آواز بن جائیں آئیں ایک بار ہم نعرہ تکبیر لگائیں” اللہ اکبر "
پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ”
پاکستان زندہ باد!!
تحریر: طلحہ قریشی
انسان فطرتًا طاقت و برتری کا متلاشی ہوتا ہے اور ہمیشہ دوسروں پر اپنی دھونس جمانے میں کوشا رہتا ہے۔ اسی شاخسانے کی ایک مثال 1974 کو دیکھنے میں آئی جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے اپنے نااہل ایٹمی طاقت ہونے کا ثبوت دیا۔ یہی تاریخ 1987 میں پھر بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کرکے دہرائی گئی، جس کا مقصد صرف پاکستان کو خوف زدہ کرنا اور اپنی گھسی پیٹی دھاک بٹھانے کی ناکام کوشش تھی.
چونکہ 1974 کے بعد ہی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا اور اس کام کےلئے ملک کے ذہین ترین افراد کو اکٹھا کیا گیا۔ انہی لوگوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا محسن پاکستان بھی تھا، جس نے اٹامک انرجی کمیشن سے ہٹ کر ایک ادارہ بنایا جس میں لوگوں کو منتخب کیا اور انھیں کئی ممالک میں تربیت کے لیے بھیجا، پھر یہ کام بیرکوں میں تجرباتی طورپر مکمل کیا گیا اور جب اس منصوبے پر حقیقی عملی مرحلہ شروع ہوا تو کہوٹہ کی پہاڑیوں کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا.
اس منصوبے کو لیکر تین بڑے ملکوں امریکہ، اسرائیل اور بھارت میں تھرتھلی مچ چکی تھی۔ یہ تینوں بوکھلاہٹ کا شکار تھے اور بہر صورت چاہتے تھے کہ پاکستان اپنا یہ منصوبہ کسی طرح پورا نہ کر پائے۔ یہ جانتے تھے کہ اگر یہ ملک ایٹمی قوت بن گیا تو ہماری بدمعاشی ملیا میٹ کر کے رکھ دے گا کیونکہ تاریخ شاھد ہے کہ عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان نے اسرائیل کی چیخیں نکلوا دی تھیں اور ادھر روس کی جو افغانستان میں اینٹ سے اینٹ بجائی تھی اس سے بھی دنیا واقف تھی.
عالم کفر کی ہر طرح کی پابندیوں، دھمکیوں، سازشوں کو پیروں تلے روندھتے ہوئے افواج پاکستان نے 28 مئی 1998 کو دن 3 بج کر 16 منٹ پر بلوچستان کے ضلع چاغی کے سیاہ و سنگلاخ پہاڑوں میں 5 زبردست ایٹمی دھماکے کر کے اسلام و پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا.اب ادھر امریکہ، بھارت سمیت دنیا بھر کے کافروں پر سکتہ طاری ہوچکا تھا تو دوسری جانب فلسطین، شام، سعودی عرب، مصر اور ترکی سمیت تمام مسلم مالک میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ ایک بڑا فیصلہ پوری کایا پلٹ سکتا ہے۔ 28 مئی اسی بڑے فیصلے کا دن تھا جس نے اس قوم کی تقدیر بدل کی رکھ دی.
یہ ہماری شان عظمت و وقار کا دن ہے۔ یہ دن خاص اللہ کے فضل کا دن ہے۔ یہ قومی غیرت، قوم کی بے مثال جرات اور بہادری کی علامت کا دن ہے۔ یہ دن پیغام ہے کہ پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرنے والوں کا انجام عبرت ناک ہوگا ان شاء اللہ…
پاکستان زندہ آباد