الیکشن مہم کی بات کریں تو پاکستان کے نووارد اُبھرتے ہوئے قومی لیڈروں کو نہ کشمیر کی تاریخ کا پتہ ہے نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پتہ ہے مسائل تو درکنار ان لیڈروں کے مسخرے پن پر صحافیوں کو چاہیئے چٹغلے نما کتابیں لکھیں مریم نواز نے کوٹلی میں کہا کشمیر کل بھی نوازشریف کا تھا آج بھی نوازشریف کا ہے” پھر کوٹلی میں کہا کشمیریو عمران خان کو کوہالہ پُل سے کوٹلی میں داخل نہ ہونے دینا ” کاش مریم مہاراجہ ہری سنگھ بیعہ نامہ بنام نوازشریف بھی دکھا دیں تاکہ ہم اسے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور سارا رولا ہی مک جائے بلاول بھٹو بھی کشمیر فتح کرنے امریکہ کی یاترا پر ہیں مراد سعید بھی چیخ و پکار کررہے ہیں اور علی امین گنڈا پور کی جوش جزبات میں تو سمجھ ہی نہیں آتی لیکن یہ ہمارے لیڈروں کا قصور نہیں یہ تو ہماری عوام کا قصور ہے جن کو اپنے مسائل کا ادارک ہی نہیں ہے
برحال اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف ایک بڑا مسئلہ خواتین کو سیاسی جماعتوں میں مناسب نمائندگی کا نہ دینا ہے حالانکہ آبادی کے تناسب سے خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ مخصوص نشستوں خواتین کو لانے سے نمائندگی کا تناسب برابر نہیں ہوتا اور سیاسی جماعتوں میں خواتین کی نمائندگی برائے نام ہے۔ جو خواتین سیاسی جدوجہد کرتی ہیں ان کو محض مخصوص نشستوں پر لایا جاتا ہے۔ خواتین براہ راست سیاست میں آنے کے مواقع بہت کم میسر آتے ہیں۔اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ سیاسی تربیت نہ ہونے کے باعث خواتین کو انتخابی سیاست کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ حالانکہ سیاسی تربیت کے لئے میدان عمل میں ہونا ضروری ہے اور آزاد کشمیر میں خواتین کو سیاست کے لئے میدان عمل میں لانا شاید مرد سیاستدانوں کیلئے قابل برداشت نہیں۔ سیاست میں محنت کی ضرورت ہے ستر سال سے زائد اور معذور افراد کے علاوہ بیوہ خواتین کی لیے پنشن کا نظام وضع کرنا اور کم آمدن یا ذریعہ امدن نہ ھونے والے خاندانوں کے کم عمر یتیم بچوں کی اٹھارہ سال عمر ھونے تک کفالت کرنے سمیت ان کے تمام تعلیمی اخراجات برداشت کرنا۔ اصلاح معاشرہ اور سماجی بہبود کی تنظیموں کے کردار کو معاشرے کی بیداری اور تعمیر میں مؤثر بنانے کے لیے مربوط تربیت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ضروری سہولیات اور وسائل فراہم کرنا۔ مسلسل کنٹرول لائن پر فائرنگ سے جانی اور مالی نقصان کے بچاؤ کے لیے Quick help force کی قیام، تربیت اور فنڈنگ کے اجراء کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل تک چین اور بھارت کی طرز پر کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی کے معاہدے پرعملداری یقینی بنائی جائے۔آزاد کشمیر میں ایک بااختیار اور کرپشن سے پاک مستعد حکومت کے ذریعے گڈ گورننس کو یقینی بنانا جو آزادکشمیر کے وسائل کو آزادکشمیر کے عوام پر خرچ کر کے آزاد کشمیر کو ایک فلاحی جمہوری ماڈل ریاست بنا سکے۔ پاکستان سے متعلقہ معاملات کے بارے میں محض عوامی پزیرائی حاصل کرنے کیلئے جذباتی بیانات دینے یا انتخابی عمل میں فوائد اُٹھانے کی خاطر غیر ذمہ دارانہ اور غیر ضروری بیانات دے کر دشمنوں کو پراپیگنڈے کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے تمام معاملات افہام وتفہیم سےحل کرکے آئینی تحفظ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ آزاد کشمیرمیں بڑھتی ہوئی غربت اور بےروزگاری کو کنٹرول کرنے اور آزاد کشمیر کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لیے مربوط انفراسٹرکچر تعمیر کرکے ٹورازم، انڈسٹری اور زراعت کے علاوہ دیگر قدرتی وسائل کو فروغ دینا اور ان کے استعمال سے حاصل ہونے والی آمدن سے آزاد کشمیر حکومت کو معاشی طور پر خودانحصار بناناہوگا، علاقائی اور قبیلائی تعصب کے علاوہ وراثت اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر مبنی استحصالی سیاست کا خاتمہ کرکے سیاست سمیت ہر شعبے میں صلاحیت کی بنیاد پر میرٹ کے مطابق باصلاحیت افراد کو عوام اور ملک کی خدمت کے مواقع فراہم کرنا۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں کے خاتمہ اور نئی نسل کی کردار سازی کے لیے عوامی سطح پر تحریک منظم کرکے ذہنی انقلاب برپا کرنا اور ہر شعبے میں ضابطہ اخلاق کو رائج کرنا ہوگا
آزاد کشمیر میں2005ء کے زلزلہ کے دوران دنیا بھر سے زلزلہ متاثرین کو امداد فراہم کی گئی، خصوصاً برطانیہ میں مقیم کشمیری کمیونٹی نے زلزلہ متاثرین کی بھرپور امداد کی مگر متاثرین پھر بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے حکمرانوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ اگر پاکستان کے پانچ دریا ان کے پیٹ میں چلے جائیں، پھر بھی ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔عوام کے مسائل، مصائب و تکالیف ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ دوسری مثال منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران کئی وعدے کیے گئے تھے کہ آزاد کشمیر خصوصاً اہلیان میرپور کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی، پانی کی قلت نہیں ہو گی مگر انتہائی افسوس سے تحریر کرنا پڑتا ہے کہ آزاد کشمیر میں آج نہ بجلی ملتی ہے اور نہ پینے کا صاف پانی۔ حالانکہ اہلیان میرپور کے عوام نے اپنے آبا و اجداد کی قبروں کو دوبار پانی میں غرق کرنا قبول کیا حکومت پاکستان نے معقول معاوضے دیے لیکن آزاد کشمیر کے محکمہ جات میں بیٹھے لوگوں نے وہ پیسہ بھی متاثرہ عوام کو نہ دیا۔ حالانکہ حکومت پاکستان نے متاثرین کو پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد کیا، مگر ان میں بھی اکثر کشمیری لیڈر شپ نے دھاندلی کی اور ان کے پیسوں کو اپنی ذات کے لیے استعمال کیا۔ متاثرین کو وہ حق نہ دیا گیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس دوران میر پور کی تعمیر و ترقی کا ادارہ ترقیات میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی معرض وجود میں آیا۔ ادارہ ترقیات اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ متاثرین ڈیم کے لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں گے جو بعد میں کرپشن کا گڑھ بن گیا، بجائے لوگوں کے مسائل حل کرتے، انہوں نے کبھی روئزانگ اور کبھی تجاوزات کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کردیا۔ خصوصاً بیرون ملک تارکین وطن کو ذلیل و خوار کیا، ان کے الاٹ شدید پلاٹوں کی الاٹمنٹ دو یا اس سے زائد اشخاص کو کردی گئی، پھر پیسوں کے مطالبہ کرکے عوام کا استحصال کیا گیا، ستم ظریفی کا یہ عالم تھا کہ ادارہ ترقیات نے پلاٹوں کی راتوں رات الاٹمنٹ غیر ریاستی لوگوں کو جاری کی گئی، راتوں رات فروخت کروائے گئے اور صبح وہ چلتے بنے، ایسا کیوں کیا گیا، کیا ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کسی بھی معاشرے میں انسانوں کو اگر اپنے حقوق و فرائض کا ادراک نہ ہو تو اس معاشرے کے مخصوص افراد ان انسانوں کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ جب عوام میں حقوق و فرائض کی پوری طرح آگاہی پیدا ہو جائے گی تو وہ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی بخوبی سرانجام دیں گے اور اپنے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے ایک سماجی جمہوری انقلاب برپا کر سکیں گے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیداری کی اس تحریک کو ہر گاؤں، ہر شہر، ہر یونین کونسل، ہر تحصیل اور ہر ضلع کی سطح پر منظم اور متحرک کیا جائے میری آزاد کشمیر کے تمام باشعور شہریوں اور مقامی کمیونٹی لیڈروں سے اپیل ہے کہ وہ بیداری کی اس تحریک کا حصہ بنیں اور عوامی مسائل کے حل اور ان کے لیے آواز بلند کرنے اور عوام کو منظم کرنے کے لئے مقامی سطح پر تحریک بیداری کو منظم کریں اور رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات اور وقت دینے والے افراد پر مشتمل ’’بیدار فورس‘‘ قائم کریں جس میں نوجوانوں کو اہمیت دی جائے آپ کو کسی کی طرف سے نامزدگی کی ضرورت نہیں ہے چونکہ جب آپ تبدیلی کا پرچم خود اپنے ہاتھوں میں لے کر نکلیں گے تو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آپ کے ساتھ ملتے جائیں گے اور کارواں بنتا جائے گا جو اس فرسودہ اور استحصالی نظام کو بدل کر رکھ دے گا۔ آج سے20سال قبل او پی ایف کا ادارہ تشکیل دیا گیا، اس ادارہ نے چتر پڑی کے مقام پر لوگوں کواو پی ایف لاٹ اسکیم کے تحت پلاٹ الاٹ کیے گئے مگرآج تک وہ نہ پلاٹ بن سکے اور نہ لوگوں کو رقم واپس کی گئی۔ حالانکہ ان اداروں کا کام، ڈویلپمنٹ کرکے لوگوں سے پیسے وصول کرنا ہے۔ الاٹ شدہ پلاٹ محض خالی فائل میں لکھا ہوا ہے جبکہ زمین پر الاٹ شدید پلاٹ کا کوئی وجود نہیں۔ آج تک کسی نے نہیں پوچھا، کیا یہ حقائق کشمیری سیاست دانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ ان معاملات کی تحقیقات کشمیری حکمرانوں سے ہونی چاہیے جو لوگوں سے زیادتیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ ہونا چاہیے، جب ہم واپس جاتے ہیں ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں، ہمارے مکانوں میں جو کرایہ دار ہوتے ہیں بعض اوقات وہ مالک بن جاتے ہیں، ان کو نکالنے کے لیے درخواست دی جاتی ہے۔ چھ، چھ ماہ لگ جاتے ہیں کسی جگہ سنائی نہیں ہوتی، وہاں محکمے کے لوگ مل کر قبضہ کرواتے ہیں۔ان مسائل کے براہ راست ذمہ دار کشمیری لیڈر شپ اور بیورو کریٹ ہیں نہ کہ پاکستان کے حکمران اور لیڈر شپ ہے۔ ہمیں بھی اچھے اور برے کی پہچان کرنی چاہیے
۔