زمانہ ساز ہوتا ہے

0 163

وہ غربت کا مارا ہوا حالات کی چکی میں پس رہاتھا ۔بات اگراس کی اپنی ذات اور اپنی زندگی کی ہوتی تو اس میں وہ کمپرومائز کرلیتا لیکن اب اس کی بیوی اور بچے بھی تھے ، جن کے لیے پیسے کمانااشد ضروری ہوگیا تھا۔حالات سے مجبور ہوکر وہ لانڈر ی کاکام کرنے لگا ،البتہ ایک چیز تھی اس میں ، اس کو لکھنے کا خبط تھا ۔وہ جنون کی حد تک اپنے اس شوق کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اسی وجہ سے اس کو جب بھی موقع ملتا وہ لکھنے بیٹھ جاتا اور اپنے تخیل کی دنیا بسالیتا۔

ایک شام وہ اپنی میز پر بیٹھا کوئی ناول لکھ رہا تھا ، کافی دیر لکھنے کے بعداس نے محسوس کیا کہ میں نے جو لکھا ہے وہ کچھ مزے کا نہیں ہے ۔ اس نے سارے صفحات مروڑکر کچرادان میں پھینکے اوردلبرداشتہ ہوکر اٹھ بیٹھا۔اس کی بیوی صفائی کررہی تھی۔اس نے دیکھا کہ ڈسٹ بن میں کچھ صفحات پڑے ہوئے ہیں تو اٹھاکر پڑھنا شروع کیا اور پھر وہ حیران رہ گئی کہ اس کا شوہر اس قدر شاندار لکھ سکتا ہے؟ اس نے وہ صفحات پھر سے ترتیب کے ساتھ ٹیبل پر رکھے اور جاکر اپنے شوہر کو یقین دلایا کہ تم بہت اچھا لکھ سکتے ہو، اپنے ناول کو ادھورا مت چھوڑو۔

کچھ ہی عرصے بعد کی بات تھی کہ اس کو گھر کے نمبر پرٹیلی فون آیا۔یہ اس کے پبلشر کا فون تھا ،جس نے اس سے پوچھا کہ کیا تم اس وقت بیٹھے ہوئے ہو؟ اس نے جواب دیا:’’فون کچن کی دیوار پر نصب ہے تو ظاہر ہے میں کھڑا ہی ہوں گا۔کیوں مجھے بیٹھنے کی ضرورت ہے؟ پبلشر نے کہا: ’’جی بالکل ، کیونکہ تم نے جو ناول لکھا ہے اس کے پیپر بیک ایڈیشن کے حقوق چار لاکھ ڈالر میں فروخت ہوگئے ہیں۔‘‘اس نے سنا تو اس کو حیرت اور خوشی کا شدید دھچکالگا اور واقعی اس کو بیٹھنا پڑا۔

اس ناول نگار کا نام اسٹیفن کنگ ہے جس کو اپنے پہلے ناول نے ہی کروڑپتی بنادیا تھا۔اسٹیفن کنگ کو ’’قلم کا بادشاہ‘‘ کہاجاتا ہے ۔ اس کے ناولوں پر بے شمار فلمیں بنیں ۔دنیا بھر میں اس کے نالوں کو پذیرائی حاصل ہے۔اس کی دولت کا تخمینہ 500ملین سے زیادہ ہے۔وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ایسے انداز میں لکھتا ہے کہ قاری کو اپنی تحریر میں جکڑ لیتا ہے ۔اس کو پڑھنے کے بعدپڑھنے والا دیر تک اس کے سحر میں گرفتارہوتا ہے اور اسی اثر انگیزی کی بدولت اس نے دنیا بھر میں نام کمایا ہے۔

آپ کی زندگی میں ایسا تجربہ ضرور ہوا ہوگا کہ کسی تحریر کو پڑھتے ہوئے آپ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوگئے ہوں۔یا کسی ڈرامے اورفلم کا ایسا سین ، جس کودیکھتے ہوئے آپ مکمل طورپر ٹرانس میں چلے گئے ہوں اور ڈرامہ ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک آپ کے ذہن پر اس کے اثرات قائم ہوں۔دراصل یہ سب قلم کی وہ شاندار جولانیاں ہیں جنھیں افسانہ نگار لکھتا ہے۔یہ قلم کارکا وہ کمال تخیل ہوتا ہے جو اس کے ذہن کے دریچوں سے قرطاس کے سینے پر منتقل ہوتا ہے اور جب وہ قاری کے سامنے تحریر یا تصویر کی صورت میں آتا ہے تو اس کو دنیاو مافیھا سے بے خبر کردیتا ہے۔

ادب اور لٹریچر اپنے زمانے کاعکس ہوتا ہے۔آپ کتاب میں جو کچھ پڑھتے ہیں ، وہی مصنف کی اصلیت ہوتی ہے اور مصنف کی ذہنیت کے پیچھے آپ سماج کا ایک رُخ دیکھتے ہیں۔مصنف اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے جو بھی کچھ دیکھتا ، سنتا اور برتتا ہے ، اس کے قلم سے بھی وہی جذبات الفاظ کی صورت میں نکلتے ہیں۔آپ شیکسپیئر کے ڈرامے دیکھیں ،کتنی دہائیاں گزرگئیں لیکن آج تک ان کی دلچسپی برقرار ہے ۔اپنے وقت کے یہ مقبول ترین ڈرامے جہاں آپ کو انٹرٹین کرتے ہیں ،وہیں اپنے اندر اپنے زمانے کے انداز بھی بتلاتے ہیں۔شیکسپیئر کے ڈراموں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ مغرب میں بائبل کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ڈرامے تھے۔ان پر لکھی جانے والی کتابیں اس کے ڈراموں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

شیکسپیئر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی اورمعاشرت کو اپنے ڈراموں کا موضوع بناتا ہے ۔وہ نہ مبلغ بنتا ہے اور نہ کوئی اصلاحی مقرر۔وہ اپنے کرداروں کو خوش ہوتے ، دُکھ درد میں روتے اور گاتے ہوئے دِکھاتا ہے۔وہ جہاں زندگی کے حسین چہرے سے نقاب سرکاتا ہے تو دوسری طرف اس کی بدصورتی کو بھی نمایاں کرتا ہے ،اور یہی وہ کمال ہے جس کی بدولت وہ صرف اپنے ہی زمانے کا نہیں بلکہ آل ٹائم فیورٹ رائٹر بنا اوراس کا لکھا ہوا ادب ، آج نصاب بن چکا ہے۔

انسان کی زندگی میں بچپن کی عمر ایسی عمر ہوتی ہے جس میں پڑھنے اور دیکھنے والی چیزیں زندگی بھر اس کے ذہن پر نقش رہتی ہیں۔میں نے اپنے بچپن میں الفا براو چارلی، دھواں جیسے ڈرامے دیکھے جو آج تک مجھے یاد ہیں ۔ کچھ بڑے ہوئے تو اشفاق صاحب کے قلم کا شاہکار ڈرامہ ’’من چلے کا سودا‘‘ دیکھا،جس کے جملے اور کرداروں نے بے حد متاثر کیا اور آج بھی سوشل میڈیا پر اس ڈرامے کے کلپس گردش کررہے ہیں۔اسی زمانے کے فکشن میں نسیم حجازی کے ناولز نے مجھ پر بے شمار اثرات چھوڑے۔نسیم حجازی اسلامی وتاریخی ناول نگاری کو عوام میں مقبول کرانے والے ایک بہترین مصنف تھے۔انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار تاریخی ناول لکھے،جنھوں نے نہ صرف بچوں کومتاثر کیا بلکہ بڑی عمر کے افراد بھی ان کے سحر میں گرفتار نظر آئے۔ مسلمانوں کی سوئی روح کو بیدار کرنے میں نسیم حجازی کی نثر نے وہی کمال دکھایا، جو علامہ اقبال کی شاعری نے کیا۔ان کے ناولوں میں اسلامی تاریخ کے تابندہ نقوش بھی تھے ، پاکستانیت کا جذبہ بھی تھا اورہماری عظمت رفتہ کا وہ بھولا ہوا سبق بھی جو وہ ہمیں یاد کرواتے رہے۔

واصف صاحب کا قول ہے کہ مصنف چلا جاتا ہے مگر اس کی تصنیف باقی رہتی ہے۔آج اگرہم امام غزالیؒ کوجانتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ان کی تصنیف ’’کیمیائے سعادت‘‘ ہے۔علی بن عثمان الہجویریؒ کو کشف المحجوب کے حوالے سے جانتے ہیں۔۔علامہ اقبالؒ کا نام اپنے کلام کی بدولت زندہ ہے۔دراصل یہ قلم کی وہ طاقت ہے جو خود کو منواتی ہے اور اس بات کو سچ ثابت کرتی ہے کہ سماج کے لیے لکھنے والا،مرنے کے بعد بھی انسانوں کے دِل میں زندہ رہتا ہے۔

ادب اور خاص طورپر افسانہ نگاری ، انسان کو اپنے اندر گھیر لیتی ہے ۔یہ اپنے پڑھنے والے یا دیکھنے والے کو اس قدر منہمک کردیتی ہے کہ پھر جو بھی پیغام (اچھایا برا) اس تحریر کے اندر ہوتا ہے وہ پڑھنے والے یادیکھنے والے کے لاشعور میں چلا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال ٹی وی کے اشتہارات ہیں۔ٹی وی پر جوبھی سپرہٹ ڈراما چل رہا ہوتا ہے،جب وہ اپنے عروج پر پہنچتا ہے اور دیکھنے والا اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہوجاتا ہے تو ایسے میں اچانک اشتہارات شروع ہوجاتے ہیں ۔یہ ایک نفسیاتی داؤ ہے ،جس کا مقصدآپ کی بھرپور توجہ حاصل کرنا ہے اور کمپنی والے اسی چیز کے پیسے دیتے ہیں تا کہ وہ اپنی پراڈکٹ کو آپ کے لاشعور میں بٹھادیں ۔ یاد رکھیں کہ لاشعور ایک بہت بڑا جن ہے ،اس میں جو چیز ایک بار بیٹھ جائے وہ آسانی سے نہیں نکلتی۔ پھر آپ کوسپرسٹور میں ہزارچیزوں کے ساتھ بھی اگر وہ پراڈکٹ نظر آجائے تو آپ کی نظریں باربار وہیں پر جائیں گی اوربالآخرآپ وہ پراڈکٹ خریدلیں گے۔

ادب آپ کو خود میں منہمک کردیتا ہے۔ا س کی بہترین مثال نشے کی حالت ہے جو آپریشن سے پہلے مریض کو دیا جاتا ہے اور جب وہ بے ہوش ہوجاتا ہے تو ڈاکٹرز کو مکمل اختیار مل جاتا ہے ۔پھروہ اس کے سینے کو چیر کر اس کے دِل کی تاروں کو بھی درست کرسکتے ہیں۔ادب اورلٹریچر بھی نشے سے کم نہیں ۔انہماک کی حالت میں ذہن میں کچھ ڈالنے کاہنر ایک ادیب میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج کا لٹریچر اور ادب صحیح پیمانوں پر ہمارے معاشرے کی تربیت کررہا ہے؟

ہم اگر ڈراموں ، میڈیا اور سوشل میڈیا کی بات کریں تو وہاں کی صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔ٹی وی سے زیادہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اوراس پلیٹ فارم پر نشر ہونے والا کونٹینٹ یا تو انٹرٹینمنٹ پر مشتمل ہوتا ہے ، جو کہ اکثر لوگوں کے وقت ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے یا پھر اپنی تصاویر ، مہنگے موبائل، گاڑی کی تصاویر اپ لوڈ کرکے دوسروں کے دِل میں اپنے لیے حسد پیداکیا جاتا ہے اورپھر ہر دیکھنے والا مال و زَر کی ہوس میں مبتلا ہوکر اپناسکون و اطمینان تباہ کردیتا ہے۔

ٹک ٹاک ایپ پر آپ کو اکثریت ایسے مواد کی نظر آئے گی جو مقصدیت سے خالی ہے ،جو نوجوان ذہنوں کو اخلاقیات سے دور کررہا ہے اور انھیں یہ باور کرارہا ہے کہ یہ زندگی صرف تفریح کے لیے ہے ،باقی سب کچھ فضول ہے۔لائکس اور فالورز بنانے کے چکر میں یہاں عجیب تماشے ہوتے ہیں ۔ہرایک اپنی ویڈیوز بنارہا ہے ، جس میں وہ غیر اخلاقی گفتگو اور فضول قسم کے چیلنجز دیتا نظر آتا ہے۔مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات ایسے خطرناک ترین مناظر ریکارڈ کروائے جاتے ہیں جن میں جان جانے کا یقینی خطرہ ہوتا ہے ،بلکہ کئی دفعہ لوگ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔کیا زندگی اس قدر سستی ہے کہ معمولی لائکس حاصل کرنے کے لیے اس کو داؤ پرلگادیا جائے یا پھر اس کا گلہ ہی گھونٹ دیا جائے؟

ایسے ہی مواد سے ترغیب پاکر نئی نسل غیر اخلاقی موویز کی طرف بھی متوجہ ہوجاتی ہے اور اپنے قیمتی وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی توانائیاں بھی برباد کردیتی ہے۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں فحش مواد زیادہ دیکھا اور سرچ کیا جاتا ہے۔ان تمام نقطوں کے تانے بانے جب مل جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ بڑا ہی بھیانک نکلتا ہے۔آج آپ کو جیل میں 18سال سے کم عمر کے ایسے لڑکے بھی مل جائیں گے جو ریپ کے کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری طرف ٹی وی پر دِکھائے جانے والافکشن ایسا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ بڑے ہی غیر محسوس انداز میں ہمارے اقدار وروایات پر وار کیا جارہا ہے اور خاندان کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے۔مذہب کا تڑکا ، ہیروئن کی سادگی ، معصومیت ، خوبصورتی ، آنکھوں سے بے اختیار آنسونکال دینے والے سین، شاندار گھر، مہنگی گاڑیاں اور گلیمر کی چکاچوند سے معاشرے میں جس مذہب بیزاری کو پروان چڑھایا جارہا ہے ، وہ سب کے سامنے ہے۔

یاد رہے کہ جس قوم کے ذہن خرافات سے بھرے ہوں وہ قوم کبھی بھی بہادر نہیں بن سکتی اور نہ ہی وہ نئے آئیڈیاز تخلیق کرسکتی ہے۔ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں ، ہم اپنے رویوں پر غور کریں کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں ، جو سن رہے ہیں ،کیا واقعی وہ ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے؟کیاوہ ہم میں مثبت چیزیں پیدا کررہا ہے یا منفی؟کیاوہ ہمارے وقت کو قیمتی بنارہا ہے یا پھر برباد کررہا ہے؟کیا وہ ہمارے جذبوں اور حوصلوں کو روشنی دے رہا ہے یا پھر ہم میں مایوسی اور ناامیدی کا بیج بورہا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم غیر محسوس طریقے سے ایک جال میں پھنس چکے ہوں اور رفتہ رفتہ اپنے دین ، معاشرے اوراخلاقیات سے دور جارہے ہوں!!!

سوچیے گا نہیں بلکہ محاسبہ کیجیے !!
ہر ادیب کو یہ دیکھناچاہیے کہ وہ جو ادب تخلیق کررہا ہے کیا وہ نئی نسل کی ذہنی آبیاری کررہا ہے یا پھر انھیں زوال کی کھائیوں میں دھکیل رہا ہے؟وہ جب قلم تھام کر لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے یا پھر وہ بھی ’’کمرشلائیزڈ‘‘ ہوچکا ہے اور اس کا قلم ’’اصلاح معاشرہ‘‘ کے لیے نہیں بلکہ انڈسٹری کے لیے چلتا ہے؟

آج کے صاحب قلم ،فکشن رائٹر اور ڈراما نگار کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ نے اس کے قلم میں وہ تاثیر رکھی ہے کہ وہ معاشرے کی اقدار کو بدل سکتا ہے ، حالات کارُخ موڑ سکتا ہے،وہ نئی نسل کو ایک سمت دے سکتا ہے ۔ وہ قوم میں ایسے جذبے اور افکار پیدا کرسکتا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں دنیا کی امامت کا فریضہ سرانجام دے ،لیکن سوال یہی ہے کہ کیا آج کا ادیب اور فکشن رائٹر اپنا یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے؟

ادب ، زمانہ ساز ہوتا ہے ، اب یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ قلم کی حرمت کا پاسبان بنتا ہے یا پھر کچھ اور۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.