گزشتہ روز بدھ 17 نومبر کو چشمِ فلک نے پہلی بار یہ دیکھا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں جاری سینیٹ اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کی جماعتیں بالکل اسی طرح آمنے سامنے تھیں جیسا کہ عموماً روائتی حریف پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک دوسرے کے مدِ مقابل نظر آتے ہیں ۔
ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا کے ناظرین نے بھی اس اجلاس کو اتنی ہی دلچسپی سے دیکھا جس طرح اکثر پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کا اعصاب شکن مقابلہ دیکھا جاتا ہے۔
معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اپوزیشن کے رہنما کچھ ایسے مخاطب تھے جیسے انہیں اوور سیز پاکستانیوں سے خدا واسطے کا بیر ہو اور وہ پورے جوش و خروش سے اوور سیز پاکستانیوں کے حق میں پیش کی جانے والی حکومتی تحریک کو ناکام بنانے میں جان مارتے دکھائی دیے۔ اس سے قبل ہونے والے اجلاسوں میں عموماً ایسا خال خال ہی دیکھا گیا ہے۔
اپوزیشن کا ہمیشہ سے ایک مخصوص رویہ رہا ہے جس کے مطابق دکھاوے کی حد تک ہی سہی لیکن حزبِ مخالف ہمیشہ عوام کے حقوق کی ترجمانی کرتی ہوئی دکھائی دی اور عوامی حقوق کے آرٹیکلز سے حکومتی بینچز پر اس جارحانہ انداز سے سنگ باری کی جاتی رہی کہ بسا اوقات حکومتی وزراء دفاعی انداز اپناتے ہوئے پائے گئے۔
حزبِ اختلاف کی جوشیلی اور جمہوریت دوست تقاریر سن کر عوام جذباتی انداز میں سوچنا شروع کر دیتی تھی کہ در حقیقت اپوزیشن ہی حکومت کرنے کی اصل حقدار ہے جنہیں کم از کم عوام کے دکھ درد کا احساس تو ہے۔
مذکورہ اجلاس کی روشنی میں یہی اپنائیت کا تاثر اس بار حیرت انگیز طور پر حکومتی بینچز سے ابھرتا دکھائی دے رہا تھا جبکہ اپوزیشن کے ارکان کو دیکھ کر عوام اس قدر تذبذب میں مبتلا دکھائی دی کہ آیا یہ ہمارے ملک کی اپوزیشن جماعت ہے یا پڑوسی ملک کی برسرِ اقتدار جماعت ۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کی اس کاروائی کو دیکھ کر کسی بھی فردِ واحد کا اس امر سے انکاری ہونا سمجھ سے بالاتر ہو گا کہ حکومتی اراکین سمندر پار پاکستانیوں کو انکا حق رائے دہی دلانے اور انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لیے کوشاں دکھائی دیے۔ لیکن دوسری جانب اپوزیشن کی گنگا مخالف سمت میں بہتی دکھائی دی۔
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرنے والے ہی ووٹ کا تمسخر اڑاتے دکھائی دیے اور اپنے ہی تارکینِ وطن پاکستانیوں کو حق رائے دہی دلوانے کی مخالفت میں ایسی بے تکی تاویلیں پیش کرتے دکھائی دیے کہ جیسے حکومتی وزراء اپنی تحریک کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کو ووٹ کا حق دینے کی بجائے ملکی حساس اداروں کی معلومات بھارتی خفیہ ایجنسی کے حوالے کرنے جا رہے ہوں ۔
بالآخر ایوان کی اکثریت نے اس بل کو واضح اکثریت سے منظور کروا لیا اور اسکے ردعمل میں اپوزیشن نے ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایوان کی کاروائی کو مکمل کیے بغیر ہی وہاں سے واک آؤٹ کر گئے ۔
حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی دوسری تحریک انتخابی اصلاحات کے متعلق تھی اور جس کی بابت پی ٹی آئی اپنا واضح منشور بھی رکھتی ہے ۔
پاکستانی عوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں جب بھی عام انتخابات کروائے گئے ہر بار تنازعات نے جنم لیا اور یہ سلسلہ سال ہا سال سے جوں کا توں چلا آ رہا ہے مگر باوجود اس سب کے انتخابی نظام کی کمزوریوں کو ہمیشہ جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا جس کے باعث انتخابات کی شفافیت کے متعلق پاکستانی عوام کے اعتماد کا گراف ہمیشہ تنزلی کا شکار رہا ہے۔
نہ جانے کیوں ہماری سیاسی جماعتیں ہر بار پرانے انتخابی ڈھانچے کو بے نتیجہ اور متنازعہ ہونے کے باوجود بغل کا بچہ بنائے رکھنے پر آمادہ چلی آ رہی ہیں۔
مذکورہ خصوصی اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی سینیٹر بابر اعوان نے جب انتخابی اصلاحاتی تحریک پیش کی جسمیں عام انتخابات بیلیٹ پیپر کی بجائے EVM (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) سے کروائے جانے کی تجویز شامل تھی تو اس بار بھی اپوزیشن نے ڈٹ کر مخالفت کی اور اس کی کارکردگی پر قبل از وقت کئی سوالات اٹھا دیے۔ لیکن ایوان میں اس بل کو بھی کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
الغرض اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پوری آب و تاب سے حکومتی تحاریک میں نقائص نکالنے میں پوری شدومد سے کار فرما دکھائی دیا ۔
اس ساری کاروائی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن کا کوئی بھی ارسطو تنقید کی بجائے صحت مند تجویز پیش کرنے سے یکسر قاصر رہا اور یہی ہماری پارلیمانی تاریخ کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
ہمیں بحیثیت قوم اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہم اپنی ذاتی منفعت اور انفرادی نقصان سے بالا تر ہو کر ملکی اجتماعی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر اس فرد، جماعت یا سوچ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں جو ہماری مملکت کو فتح سے ہمکنار کرنے میں معاون ہو۔