سانحہ سیالکوٹ کربناک اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ابھی تک کی تفتیش کے مطابق ایک فیکٹری کے ملازمین نے اپنی ذاتی رنجش کیلئے مذہب کا کارڈ استعمال کرکے نہ صرف سری لنکن شہری آنجہانی "پریانتھا کمارا” کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا بلکہ اس کی لاش کو بھی نذر آتش کردیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بحیثیت قوم اس واقعہ کی غیر مشروط اور پرزور مذمت کی جاتی البتہ ذمہ داروں کے تعین کیلئے مکمل تفتیش کا انتظار کیا جاتا لیکن جوں ہی یہ دلخراش سانحہ ہوا تو ہر طبقہ کے افراد کے اپنے اپنے سوئے ہوئے درد جاگ اٹھے۔ جس کا جس سے بغض چھپا تھا وہ برملا ظاہر ہونے لگا۔ برطانیہ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے سانحات کی صورت میں جب تک تفتیش مکمل نہ ہو تخمینے سے کوئی کسی کو ملزم اور ذمہ دار نہیں ٹھہراتا بلکہ یہ قانونی جرم ہے۔ پچھلے دنوں لوٹن برطانیہ میں ایک 17 سالہ نوجوان کو چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا گیا۔ اس سلسلے میں ہماری پولیس کے ساتھ میٹنگ ہورہی تھی تو چیف کانسٹیبل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک معاملے کی تفتیش نہیں ہوجاتی میں ملزموں سے متعلق کوئی بات نہیں کروں گا۔ لیکن ہما را قومی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ ایسے مواقع پر تخمینوں کی سستی دوکانیں کھل جاتی ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ جن کی طبیعت اسلام کے موافق نہیں لیکن بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں وہ سارا الزام اسلام اور اسلام پسندوں کو دیتے ہیں۔ جن افراد کی کسی دوسری مذہبی یا سیاسی جماعت سے نہیں بنتی وہ اس جماعت کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں۔ جو وطن عزیز پاکستان کے بد خواہ ہیں، وہ پاکستان کو ایک ناکام یا دہشت گرد ریاست ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
سیالکوٹ واقعہ میں روا رکھی گئی جارحیت اور بربریت کی اسلام اجازت دیتا ہے نہ کوئی مہذب سماج۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ لیکن اسے تفتیش سے قبل ہی اسلام یا اسلام پسندوں سے جوڑنا حد درجہ زیادتی ہے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں کسی بھی مکتبہ فکر کا کوئی عالم دین، کسی دینی مدرسے کا کوئی طالبعلم اورکسی دینی جماعت کا کارکن شامل نہیں۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق مقتول مینیجر ایک فرض شناس آدمی تھا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ عملہ کے تمام ملازمین بر وقت کام پر آئیں اور اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں۔ جو لوگ کوتاہی کرتے، وہ اپنا فرض منصبی سمجھ کر ان سے جواب طلبی کرتا جو ان کی طبیعت پر ناگوار گزرتی کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں فرض شناسی کی بجائے کام چوری کا کلچر عام ہے۔ وقوعہ کے دن بھی ایک سپروائزر سے مینیجر کی تلخ کلامی ہوئی۔ عنقریب بیرون ملک سے کچھ لوگوں کا وزٹ متوقع تھا جس کیلئے آنجہانی مینیجر نے صفائی ستھرائی اور مشینوں پر چسپاں اشتہارات اتارنے کا کہا لیکن سپروائزر اور ملازمین نے ذرا بھر پرواہ نہیں کی۔ اس وجہ سے وہ اشتہار مینیجر کو خود اتارنے پڑے۔ ان میں سے ایک اشتہار پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام تھا۔ مینیجر اردو سے ناواقف تھا اس لئے اتار کر رکھ دیے۔ لیکن جب مالکان تک بات پہنچی اور انہوں نے مینیجر کو صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے معافی مانگ لی اور بات رفع دفع ہو گئی۔ لیکن ان سفاک قاتلوں کے ارادے پہلے سے ہی منفی تھے، جو اس شخص کو رستے سے ہٹانا چاہتے تھے جو انہیں ہر روز فرض شناسی کا سبق یاد دلاتا تھا۔ اس طرح اس سپروائزر نے کم علم مزدوروں کو ابھارا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کے اشتہار کی مقتول نے توہین کی ہے لہذا اسے قتل کرنا ہے۔ یہ ہے اس وقوعہ کا اصل پس منظر۔
اس سارے وقوعہ میں کہیں توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا توہین قرآن پاک سرے سے موجود ہی نہیں البتہ توہین اہل بیت کا الزام ضرور لگایا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توہین رسالت سے اس وقوعہ کا کوئی تعلق ہی ثابت نہیں توپھر اسےبنیاد بنا کر توہین رسالت کے قانون 95 سی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا کیا جواز ہے؟ جب کوئی ثبوت موجود ہی نہیں تو پھر کسی بھی مذہبی جماعت کو مورد الزام ٹھہرانا چہ معنی دارد؟ رہی بات نعرے لگانے کی تو کوئی کسی پارٹی کا نعرہ لگا کر کسی کو قتل کردے تو کیا پرچہ اس پارٹی پر ہونا چاہیے؟ پچھلے دنوں سندھ میں پیپلزپارٹی کے ایک حاضر سروس ایم پی اے نے ایک غریب آدمی کو اپنے ڈیرے پر بلا کر بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس ڈیرے پر پیپلز پارٹی کے جھنڈے لگے تھے اور اس کے قتل کی وڈیو بھی وائرل ہوئی۔ کیا کسی نے کہا کہ پیپلزپارٹی ذمہ دار ہے؟ یقینا نہیں کیوں کہ یہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہے جس کا پیپلزپارٹی یا اس کی قیادت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس وقوعہ میں تو کہیں کسی مذہبی جماعت کے ملوث ہونے کا کوئی شائبہ بھی نہیں ملا، سینکڑوں گرفتار افراد میں سے کوئی مذہبی جماعت کا رکن ثابت نہیں ہوا۔ پھر کسی ایک جماعت کو ٹارگٹ کر کےالزام تراشی کا مقصد؟
کچھ عرصہ پہلے ایک سیکیورٹی گارڈ نے ذاتی جھگڑے کی بنا پر اپنے ہی ینک مینیجر کو قتل کرکے توہین رسالت کا الزام لگا دیا تھا جو غلط ثابت ہوا۔ مقصد یہ کہ لوگ اپنا جرم چھپانے کیلئے ایسی ملمہ سازیاں اور حیلے بہانے کرتے رہتے ہیں لیکن باشعور لوگوں کو ان کے جھانسے میں آنے کی بجائے حق اورسچ تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہے۔ البتہ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ من سب نبیا فاقتلوہ” کا نعرہ گلی گلی محلے محلے لگانے والی جماعت کا یہ بھی فرض منصبی ہے کہ عام آدمی کو اس نعرے کی ذمہ داریاں، حدود اور تقاضے کھول کر سکھائے۔ عوام الناس کو بتایا جائے کہ ایسے کسی بھی وقوعہ کی صورت میں فورا پولیس کو ریپورٹ کرو۔ کسی بھی فرد کا قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ہی کسی کی جان لے لینے کا قطعا کوئی جواز نہیں۔ جرم ثابت ہونے کے بعد 95 سی کی صورت میں "من سب نبیا فاقتلوہ” پر عمل درآمد کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے۔ عدالتوں کو بھی چاہیے کہ قانون کے مطابق مجرموں کو کڑی سے کڑی سزائیں دے کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے جید علماء و مشائخ نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 7 دسمبرکو اسلام آباد میں تعینات سری لنکا کے سفیر سے ملاقات کی اور اس دردناک سانحہ پر اپنے دکھی جذبات سے آگاہ کیا۔وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں مقتول کیلئے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا اور سری لنکن شہری کو جنونیوں سے بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو ایوارڈ بھی دیا۔ ہم سیالکوٹ کے ان غیور اور محب وطن تاجروں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے یکمشت ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اور ہمیشہ کیلئے ماہانہ تنخواہ مقتول کی فیملی کو دینے کا اعلان کیا۔ جہاں مثبت سوچ کے محب وطن لوگ اس موقع پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، وہاں کچھ دین بیزاروں یا بغض کے ماروں کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اسلام بد نام ہوگیا اور ہم رسوا ہوگئے۔ ان عقل کے اندھوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ چند جہلاء کی ذاتی رنجش کا شاخسانہ ہے، اس میں اسلام کا کیا لینا دینا؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ مہذب ملکوں میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں مثلا نیوزی لینڈ میں 49 مسلمانوں کو مسجد میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کینیڈا میں ایک پاکستانی مسلمان فیملی پر ٹرک چڑھا کر 5 افراد کو بر لب سڑک سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ انڈیا، برما، فلسطین میں ہر روز مسلمانوں کو جلایا جاتا ہے، ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ یہ سب ظلم بھی قابل مذمت ہیں لیکن انہیں کوئی کسی مذہب سے نہیں جوڑتا۔ ہمارے ہاں تحقیق سے ثابت بھی ہوچکا کہ یہ واقعہ ذاتی عناد کا نتیجہ ہے پھر بھی تعصب کی وجہ سے اسےاسلام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جو قطعا ناروا اور ناقابل قبول عمل ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اس بات کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کچھ واقعات وقت، حالات اور ماحول کی موافقت سے استثنائی ہوتے ہیں مثلا غازی علم الدین شہید کا دفاع علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح اور اس وقت کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے کیا تھا۔ ہر سال اب بھی ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ گزشتہ 92 سالوں سے آج تک تمام مذہبی و سیاسی مشاہیر نے ہر دور میں غازی علم الدین شہید کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کی حمایت میں بڑے بڑے بزرگ شامل ہیں اور کسی نے کہا تھا ”خطائے بزرگاں گرفتن خطاست“ کہ بزرگوں کی غلطیاں پکڑنا بھی ایک خطا ہے۔ اس لئے ہم یہ جرأت تو نہیں کرسکتے کہ ان تمام زعماء کی رائےسے اختلاف کریں البتہ صرف اتنا ہی کہیں گے کہ یہ یا اس جیسا کوئی اکادکا واقعہ اپنی خاص نوعیت کی وجہ سے استثنائی ہوتے ہے اور انہیں ہرجگہ مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ عقل مند کیلئے اشارہ کافی۔آخر میں ہماری گزارش ہوگی کہ سیالکوٹ وقوعہ کے بعد حکومت، عدلیہ، مقتدر حلقوں، عوامی حلقوں اور دینی و سیاسی جماعتوں کا فرض منصبی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئیندہ ایسے واقعات سے بچاؤ کیلئے موثر حکمت عملی تشکیل دیں۔