یہ دنیا فانی ہےجہاں ایک انسان کی زندگی کی حقیقت شبنم کے پانی کےاس قطرے کی مانند ہے جو کسی درخت کے پتے پر ہوا کے جھونکے سے گر کر تحلیل ہوجاتا ہے اس دنیا میں جہاں آپ کے کام کو سرہانے والے یا پسند کرنے والے سینکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں وہاں دو چار ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ سے ویر کرتے ہیں جیلس ہوتے ہیں حسد اور مخالفت کرتے رہتے ہیں وہ اپنی طبعیت خود ہی خراب کرتے ہیں آپ جو بھی کام کریں اللہ اور رسول کو سامنے رکھتے ہوئے جاری رکھیں پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں آزاد کشمیر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اختلافات سیاسی نہیں علاقائی،قبیلائی اور شخصی ہونے کے علاوہ مفاداتی نوعیت کے ہیں ان کی بنیاد پر کسی کلمہ گو مسلمان کو منافق کہنا مناسب نہیں ایک دوسرے کی ماں باپ کو گالیاں دینا انکی سائیڈ لے کر دوسروں کی مار پٹائی پر اتر آنا حماقت اور بے وقوفی ہے ہماری سیاست میں گندگی ہے ان کا آلہ کار بننا اور غلط اور صیحح میں تمیز نہ کرنا کہاں کی تہذیب ہے ۔
ہمارا حوصلہ بھی تو دیکھیں گزشتہ تیس سالوں سے صحافت میں کتنے مخالف ہونگے میں اگر مخالفین کی پرواہ کرنے لگ جائوں تو سب کچھ چھوڑنا پڑے گا خود نمائی نہیں کرنا چاہتا بلکہ مجھے جو عزت ملی وہ دیار غیر میں رہتے ہوئے کشمیر کے باہمت مگر نہتے مسلمانوں کی حمایت اور انکا قزیہ دُور دُور تک پہنچانے سے ملی یا پھر نمک برابر مسلسل استحکام پاکستان کے لئے صدا بلند کرنے اور لوگوں کی آواز بننے کی وجہ سے ملی نہ مالی نہ سیاسی نہ نہ ذاتی آرام اور مفادات کی پرواہ بس یہ دیکھتا ہوں عزت اور پیار کرنے والے زیادہ ہیں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوں وقتی طور پر لوگ چھوٹے پن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں پھر اپنی اصلاح خود کرلیتے ہیں جب سامنے آتے ہیں تو شرمندہ ہوجاتے ہیں میں انہیں مسکرا کر گلے لگا لیتا ہوں اپنا اپنا ظرف اپنی سوچ ہوتی ہے کسی کو احترام دینے سے کسی کی حوصلہ افزائی کرنے سے کوئی آدمی چھوٹا نہیں بلکہ اس کا قد اور اونچا ہوجاتا ہے ضد بُغض انا پرستی رکھنا اور دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ایک ساتھ نہیں چل سکتے لوگوں کے درمیان معاملہ فہمی،صلح رحمی اور خدا خوفی سے پیش آئیں اللہ تعالیٰ کے آگئے مکمّل سرنڈر کرنے کی سعی کی کوشش کی جائے اور اس کے حکم کے عین مطابق دوسروں کو نفح پہنچانے والے بنیں نقصان پہنچانے والے نہیں کیا کروگے ایسی دولت کو جس کے کمانے کے زرائع حلال نہیں پھر اپنی دولت کو کونے کھدروں میں چھپا کر رکھتے ہو اور کسی غریب کو قرض حسنہ بھی نہیں دے سکتے ہو سود کھانے،کھلانےاور سودی کاروبار کو بُرا نہیں جان سکتے کسی کو سود کھانے سے بچا نہیں سکتے پھر توقع کرتے ہو تم نے ان بچوں کی سود کھلا کر پرورش جو کی وہ تمہاری بات سُنیں گے پھر جنت میں جانے کی توقع بھی ہے اور حضوؐر کی زیارت سفارش اور شفاعت کی آس لگائے بیٹھے ہو تمہاری ہڈیاں بھی پلک جھپکتے بوڑھی ہوجائیں گئیں بالکل ان بوڑھے بابوں کی طرح جو لڑکھڑاتے قدموں سے ہانپتے کانپتے مسجد میں جاکر مولویوں کو کبھی چندے دے کر دعائیں کرواتے ہیں اور بخشش کی آس لگائے بیٹھے ہیں کبھی کرسی پر بیٹھ کر دو سجدے دینے سے بھی معزور ہیں ویلے دیاں نمازاں تے قیلوے دیاں ٹکراں – یاد دہانی ہی تو کروانی تھی ایک سو سال بعد میں آپ اور ہماری اولادیں اور جو کوئی بھی اس وقت زندہ ہے وہ سو سال بعد موجود نہیں ہوگا یہ دنیا اجنبیوں کی ہوگئی اور ہمیں اس کی یاد بھی نہیں ہو گی سورہ تین مرارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔
پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔
مگر جو ایمان لائے اور نیک کام کیے سو ان کے لیے تو بے انتہا بدلہ ہے۔
پھر اس کے بعد آپ کو قیامت کے معاملہ میں کون جھٹلا سکتا ہے۔
کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔
مطلب یہ کہ ہم نے انسان کو اس کی بہترین ساخت حالت شکل عقل سوجھ بوجھ دے کر پیدا کیا لیکن جب انسان کو واپس بلائیں گے اس کی موت واقع ہوگئی تو انتہائی پستی کی حالت میں اس کی ہڈیاں دماغ سب جواب دے جائے گا پھر اللہ تعالیٰ انسان کو حوصلہ دیتے ہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ان لوگوں کو جو نیک اعمال کرنے والے ہیں انکے لئے بڑا اجر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے بس موت کا منظر سامنے رکھیں مرنے کے بعد لوگ آپ کے بارے میں کیا باتیں کہیں گے کیسا انسان تھا اللہ تعالیٰ کے ہاں تو سب لکھا ہوا ہے جتنی سانسیں ہیں محبت کی میٹھی سوچ کے ساتھ مسکراہٹیں بکھیرتے رہا کریں اور دوسروں کی مدد کرتے رہا کریں الله حامی وناصر