سال 2021 اپنے دامن میں کئی تلخ یادیں لئے رخصت ہوا اور نئے سال 2022 کا سورج عنقریب طلوع ہونے والا ہے۔ جب ایک سال ختم ہوتا ہے اور نئے سال کا کیلنڈر سامنے آتا ہے تو ہر باشعور شخص پچھلے سال کی کوہتاہیوں اور بے ترتیبیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ ارادہ کرتا ہے کہ آئندہ اس کمی کو پورا کروں گا۔ کچھ تو وہ ہیں جو عزم مصمم کے ساتھ اپنے ارادوں کو حقیقت کا روپ دے دیتے ہیں۔ لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو چند دن گزرنے کے بعد پھر پہلی ہی روش کو اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام میانہ روی کا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو انتہا پسندی کی بجائے درمیانی رستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "بہترین کام وہ ہے جو درمیانہ ہو”۔
اسلام کی یہی خوبی بیشمار غیر مسلموں کیلئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا سبب بن گئی۔ لیکن زندگی کے مختلف معاملات میں مسلمانوں کے کئی طبقات میانہ روی اختیار کرنے کی بجائے انتہا پسندی اختیار کرتے ہیں جو کہ ناروا ہے۔ سال نو کو ہی دیکھ لیں۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی بحیثیت مسلمان دونوں انتہائیں عروج پر نظر آتی ہیں۔ کچھ تو نیو ایئر نائٹ مناتے مناتے عیاشی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھو لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ برطانیہ میں ہمارے کچھ مسلمان بچے مساجد اور کمیونٹی سنٹرز میں نیو ائر نائٹ کو نعت شریف، نشید یا کوئی اصلاحی پروگرام رکھ لیتے ہیں تاکہ فضولیات سے بچا جا سکے۔ وہاں مسلمان کمیونٹی میں اس رات کو وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ نیو ائر نائٹ میں غل غپاڑے، ون ویلنگ، عیاشی و فحاشی اور شراب و کباب کی صورت میں طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر یہ ایک انتہا ہے جو قابل مذمت ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ وہ ہیں کہ نئے سال کے آغاز پر خیر و برکت کی دعا کرنے والوں پر بھی فتوی بازی کر کے انہیں بزعم خویش گمراہی کے دروازے کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمارا سال نہیں بلکہ غیر مسلموں کا ہے۔ حالانکہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک اسی عیسوی کیلنڈر کے مطابق اپنا کارو بار حیات چلاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کا کیلنڈر ہجری ہے جس کا با ضابطہ آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ ہماری عبادات مثلا حج، روزے، زکوۃ، اور عورتوں کی عدت وغیرہ کیلئے بھی یہی اسلامی کیلنڈر استعمال ہوتا ہے. جب تک مسلمانوں کا عروج کا دور رہا یہی تقویم رائج رہی۔ اس حقیقت کا ہمیں اعتراف کر نا چاہئے کہ کچھ صدیوں سے ہم زوال پذیر ہیں۔ جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں ہم دیگر اقوام کے دست نگر ہیں وہاں عیسوی تقویم بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
سال نوبنیادی طور پر شمسی تقویم ہے جو سورج کی گردش سے منسلک ہے اگر اس تقویم کی نسبت عیسی علیہ السلام کی طرف ہے تو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے فضائل و کمالات خود قرآن کریم نے بیان فرمائے ہی اور اگر ہجری تقویم کو قمری اور عیسوی تقویم کو شمسی کہا جائے تو پھر بھی اسلام کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ چاند اور سورج دونوں ہی ہمارے اپنے ہیں اور ہمارا ان سے کوئی جھگڑا ہے اور نہ خدا واسطے کا بیر۔ قرآن پاک نے دونوں کی تقویم کا ذکر صراحتا کیا ہے۔مزید برآں پورا سال ہم شادی بیاہ، موت مرگ، بزرگوں کے اعراس، ذکر و اذکار اور میلاد و سیرت کی محافل کے اعلانات و اشتہارات عیسوی تقویم کے مطابق کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی قبروں پر سجے کتبوں پر بھی تاریخ وفات عیسوی تقویم کے مطابق ہوتی ہے۔ ساری مساجد میں نمازوں کے نظام الاوقات عیسوی تاریخوں کے مطابق لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔
آج تک کسی مستند مفتی شرع و دیں کا کوئی فتوی نظر سے نہیں گزرا کہ یہ سب نا جائز ہے۔ لیکن جوں ہی نیا سال شروع ہونے پر کسی نے خیر و برکت کی دعا یا مبارکباد دے دی۔ تو اس وقت ہمیں یاد آتا ہے کہ یہ سال ہمارا نہیں کسی اور کا ہے۔ فتوے شروع ہوجاتے ہیں کہ یہ سب کچھ خلاف اسلام اور بدعت ہے حالانکہ سارا سال ایک ایک دن ہم اسی تقویم کو استعمال کرتے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر بحیثیت مسلمان ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئیے۔ پچھلے سال کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے آئیندہ اصلاح احوال کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ عیاشیوں فحاشیوں سے ہر حال میں بچیں البتہ کوئی اس موقع پر دعائے خیر و برکت دے دے تو اس کو قبول کرلو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سال گزرنے اور بدلنے سے کچھ تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ ہم خود عزم مصمم کے ساتھ تبدیل ہونے کا ارادہ نہ کریں۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم سوچیں کہ پچھلے سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ہم نے غریبوں کی مدد کی ہے اور اپنے ماں باپ سے حسن سلوک کا رویہ رکھا ہے؟ ہمیں اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سال ہمارے کون کون سے عزیز واقارب اور دوست ہم سے بچھڑ کر اگلے جہان کی طرف روانہ ہو گئے۔
جو چلے گئے انہیں دعائے مغفرت میں یاد رکھیں ۔ خود بھی فکر آخرت کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ گزاریں کیونکہ عنقریب ہم نے بھی اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی طرف کوچ کرنا ہے۔ نئے سال کیلئے نئی امیدوں، امنگوں اور ارادوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی فرصت کے لمحات میں ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ پچھلا سال کیسے گزرا؟ ہمیں اس نئے سال کے شب و روز کو گزارنے کیلئے آپﷺ کی اتباع اور اطاعت کا پختہ ارادہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو قطعا زیب نہیں دیتا کہ نیو ائر نائٹ ہوائی فائرنگ، شراب نوشی ،بدکاری یا نشے کی حالت میں قومی اثاثوں کی توڑ پھوڑ میں گزاریں۔ ہمیں تو اس رات تجدید عہد کرنا چاہیے کہ ہم ﷲ اور اس کے رسول ﷺ سے عہد شکنی نہیں کریں گے۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزم کے ساتھ تہیہ کر لیں کہ ہم نے جھوٹ، مکر و فریب، تنگ نظری، فرض ناشناسی، بدخواہی اور بہتان تراشی کا اپنے رویوں سے خاتمہ کرکے اپنے آپ کو اوصاف حمیدہ سے متصف کرنا ہے۔ دعا ہے کہ سال 2022 پوری انسانیت اور خصوصا اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے خیر وعافیت کا سال ثابت ہو۔