انٹرنیٹ سائیبر کرائم

0 173

انٹرنیٹ کے ذریعے چوری کو دنیا میں سائیبر کرائم کا نام دیا جاتا ہے۔سائبر کرائم میں شکاری بھی کمپیوٹر ہوتا ہے اور شکار ہونے والا بھی کمپیوٹر ہوتا ہے۔فرض کیجئے ایک دن آپ اپنے کمپیوٹر پر اپنا سارا ڈیٹا اور کام مکمل کرکے سوتے ہیں لیکن اگلے دن آپکا کمپیوٹرآپکی کوئی بھی فائل شو نہیں کراتا۔تو آپ اسے کیا سمجھیں گے؟ آپ جومرضی سمجھیں لیکن دنیا اسے سائبر کرائم کا نام دیتی ہے۔یہ صرف کمپیوٹر سے کمپیوٹر کرائم نہیں ہوتا بلکہ دماغ کے کمالات ہوتا ہے۔دنیا میں جتنی تیزی سے سوفٹ وئیر بنتے ہیں اسی رفتار سے سکیورٹی توڑنے کیلئے لائحہ عمل طے پاجاتے ہیں۔سائبر کرائم دراصل گناہ کی دلدل میں سب سے زیادہ خطرناک کرائم کہلائے جاتے ہیں۔ہیکرنہ صرف کمپیوٹر تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ وہ شکار کمپیوٹر کی پرائیویسی کو بھی ختم کردیتے ہیں۔اور شکارکمپیوٹر کا مالک ہیکر بن جاتا ہے۔ ہیکرز یافراڈیے ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر آپ کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی آپ کودھوکا دے کر لوٹ لیتے ہیں۔

٭ہیکنگ کا آغاز
ہیکنگ کا آغاز 1981 ء میں ہوا،

٭ہیکرز کی اقسام
ہیکر ایک ایسا شخص یا گروہ ہوتا ہے جو کمپیوٹر سسٹم کی کمزوریوں کو جان کر اس پر حملہ کرتا ہے۔ہیکراس کام کو ناصرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے بلکہ پیسے کمانے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ہر سال پوری دنیا میں ہیکنگ سے متعلق لاکھوں کیسز سامنے آتے ہیں۔ہیکر کی مندرجہ ذیل اقسام ہوتی ہیں۔

۱)وائیٹ ہیکرز؛ یہ ایسے ہیکرز ہوتے ہیں جن کو اچھے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، یہ پروگرام اور سسٹم میں موجود نقائص کو تلاش کرکے اس کا حل بتاتے ہیں۔اور عوام کو تباہی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
۲) بلیک ہیکرز: یہ ہیکر زکمپیوٹرکی سکیورٹی کو توڑ کر ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔یہ کمپیوٹر اور ای میل میں موجود انفارمیشن کو چور کرتے ہیں۔
۳) گرے ہیکرز: یہ بلیک ہیکرز اور وائٹ ہیکرز کا مشترکہ گروپ ہوتا ہے۔جو اچھے اور برے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

٭ہیکنگ کے طریقے
ہیکنگ دراصل شکار کمپیوٹر کی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے، اور ہیکر کمپیوٹر کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حملہ کرتا ہے۔ہیکر اس کام کو ناصرف اپنے ذاتی مفاد بلکہ پیسے کمانے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ہیکر سے جڑی ایک دوسری ٹرم کریکر کہلاتی ہے۔ جسکا مطلب کمپیوٹر میں توڑ پھوڑ کرنا ہے ۔کریکر دراصل ہیکرز کی مدد کرتے ہیں اسطرح انہیں کسی بھی کمپیوٹر سسٹم میں داخل ہونے کا راستہ مل جاتا ہے۔ ہیکنگ اچھے مقاصد کیلئے ہو یا برے دونوں ہی غلط ہیں، کسی کی پرائیویسی کو توڑنا اور اس تک رسائی پاکر اسے بدلنا یا ختم کرنا دونوں ہی کم از کم اچھے مقاصد تو نہیں ہوسکتے ۔ تاہم جتنا ہوسکے ہیکنگ سے اپنے کمپیوٹر کو دور رکھیں اور روز کی بنیاد پر اسے اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

۲) دوستوں سے رقم طلب کرنا۔
ہیکرز کسی بھی شخص کی ای میل ایڈریس ہیک کرکے اس شخص کے تمام دوستوں کو ای میل بھیجتا ہے ، جس میں تحریر ہوتا ہے "میں اس وقت فلاں جگہ پر ہوں،میرا پرس جس میں کریڈٹ کارڈز اور کیش موجود تھا کسی نے چوری کرلیا ہے، اب میرے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کیلئے رقم نہیں ، مہربانی فرما کر مجھے فوری رقم فلاں جگہ بھیج دو۔ تاکہ میں ہوٹل کا بل ادا کر سکوں، میں رقم واپسی پر ادا کردوں گا” کچھ دوست تو بغیر تصدیق کے رقم ٹرانسفر کردیتے ہیں ۔ اور بیشتر دوست رابط کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہیکر نے موبائل فون تک ہیک کیا ہوتا ہے۔ہیکر منٹوں میں بیشمار دولت اکھٹی کرلیتا ہے۔

٭ویب سائٹ کی ہیکنگ کے طریقے ۔
اول ہیکر ہوسٹنگ یا ایف ٹی پی کا یورنیم ، پاس ورڈ اور دیگر معلومات حاصل کرلینا،جوکہ زیادہ تر کی لوگر وغیرہ کی مدد سے کریکر کرتے ہیں۔ یہ معلومات حاصل ہوتے ہی ان کریکر پرویب سائٹ کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں اور یہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق جو چاہیں تبدیل کرسکتے ہیں۔ دوسرے طریقے میں لوکل کمپیوٹر اور اس میں موجود فائلوں میں وائرس شامل کردینا شامل ہے تاکہ جب فائلیں اپ لوڈ کی جائے تو سارے کام خود بخود ہوتے چلے جائیں۔ ایسے کام عموما مفت سوفٹ وئیر کے کریک یا دیگر مفت چیزوں وغیرہ کا جانسہ دیکر انجام دیئے جاتے ہیں۔ تیسرے طریقے میں چور راستوں سے ہوسٹنگ یا فائلوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔جو کمزور کمپیوٹر میں عام طور پر اس وقت بنائے جاتے ہیں جو لوکل کمپیوٹر سے فائلیں ہوسٹنگ پر منتقل ہورہی ہوں۔ ایسے میں ہیکرز کمزور صورتحال یا کھلی پورٹ کا فائدہ اٹھا کر لوکل کمپیوٹر میں داخل ہوجاتے ہیں۔

٭ویب سائٹ ہیک کرنے کے بعدہیکر کیا کرتے ہیں؟
اول یہ کہ ویب سائٹ پر اشتہار لگادیئے جاتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ ہیکرز ویب سائٹ استعمال کرنے والے صارف کو غیر محسوس طریقے سے ری ڈائریکٹ کرکے اپنی ویب سائٹ پر لے جاتے ہیں۔بعض مرتبہ ان ویب سائٹ پر نظر آنے والے اشتہارات یا جس ویب سائٹ پر ری ڈائریکٹ کیا جارہا ہے ان میں کچھ ایسا کوڈ ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے کمزور حفاظتی نظام یعنی فائروال کے حامل پر ویب سائیٹ کھولنے کی صورت میں کمپیوٹر فورا متاثر ہوجاتا ہے۔اور یوں ایک ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے جس سے ٹروجون ہورس اور دیگر انٹرنیٹ وغیرہ پھیلتے چلے جاتے ہیں۔یا ہیکر ویب سائٹ پر اپنا بیان اور اشتہار پوسٹ کردیتا ہے تاکہ ہیکنگ کی دنیا میں نام پیدا کرسکئے۔

٭فراڈ
۱) ہاٹ سپاٹ فراڈ
قارئین آپ کسی ائیرپورٹ یا کافی شاپ میں بیٹھے ہیں اور مقامی وائی فائی زون سے لاگ ان ہو جاتے ہیں۔ یہ مفت ہوتا ہے۔ جب آپ کنیکٹ ہوتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک دکھائی دیتا ہے۔ یہ ویب سائٹ بظاہر قانونی ہوتی ہے۔ حقیقت میں قریب ہی موجود کوئی بدمعاش اپنے لیپ ٹاپ سے اسے چلا رہا ہوتا ہے۔ اگر وہ سائٹ ’’مفت‘‘ ہو تو وہ بدمعاش خاموشی سے آپ کے بینک، کریڈٹ کارڈ اور دوسری پاس ورڈ انفارمیشن کھوج رہا ہوتا ہے۔ اس فراڈ سے بچنے کا طریقہ: اس بات کا یقین کیجیے کہ آپ کے کمپیوٹر کی سیٹنگ ایسی نہیں ہے کہ وہ خودبخود نان پریفرڈ نیٹ ورکس سے کنیکٹ ہو جائے۔ (اگر آپ پی سی استعمال کر رہے ہیں تو نیٹ ورک سیٹنگ میں جا کر Connect to non-prefered networksکو اَن چیک کر دیجیے۔اگر آپ میک استعمال کرتے ہیں تو نیٹ ورک پین میں سسٹم پریفرینسز میں جائیں اور Ask to join new networkپر چیک لگا دیجیے۔ )

۲)آپ کا کمپیوٹر خراب ہے
قارئیں آپ کے کمپیوٹر پر ایک ونڈو اچانک ابھرتی ہے جس میں بظاہر قانونی اینٹی وائرس پروگرام کے بارے میں بتایا گیا ہوتا ہے جیسے کہ ’’اینٹی وائرس ایکس پی 2010‘‘ یا ’’سکیورٹی ٹول‘‘ اور آپ کو خبردار کیا گیا ہوتا ہے کہ آپ کے کمپیوٹر میں ایک خطرناک بگ (bug) داخل ہو چکا ہے۔ آپ کو ترغیب دی جاتی ہے کہ ایک لنک پر کلک کریں تاکہ آپ کے کمپیوٹر کی سکیننگ شروع ہو جائے۔ آپ کلک کر دیتے ہیں اوربظاہر وائرس کا پتا بھی چل جاتا ہے۔ اب وہ کمپنی آپ سے کہتی ہے کہ اپنے کمپیوٹرمیں موجود وائرس ختم کروائیں جس کی فیس 50ڈالر ہوتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب آپ لنک پر کلک کرتے ہیں تو وہ جعل ساز کمپنی آپ کے کمپیوٹر میں ایک میل وئیر انسٹال کر دیتی ہے۔ اس نے وائرس ختم کرنا نہیں ہوتا البتہ آپ کا کریڈٹ کارڈ نمبر چرا کر آپ کے اکاؤنٹ سے ساری رقم لوٹ لیتی ہے جب کہ آپ کے کمپیوٹرکا بھی ستیاناس ہو چکا ہوتا ہے۔

۳) خیراتی ادارے کے نام پر فراڈ
قارئین آپ کو ایک ای میل ملتی ہے جس میں نائیجیریا یا کسی دوسرے ترقی پذیر ملک کے ایک ایسے یتیم بچے کی دردناک تصویر ہوتی ہے جو غذا کی کمی کی وجہ سے انتہائی کم زور ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ التجا کی گئی ہوتی ہے، ’’براہِ مہربانی آج ہی زیادہ سے زیادہ نقد امداد دیجیے۔‘‘اس ای میل میں کہا گیا ہوتا ہے کہ فلا حی کام جلد کرنے کے لیے آپ رقم کسی تیز رفتار ذریعے سے بھیجیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی ذاتی معلومات یعنی پتا اور بینک اکاوئنٹ نمبر وغیرہ بھی مانگے جاتے ہیں۔ مالی مدد کی یہ درخواست فراڈ ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے بینک اکاوئنٹ کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں۔ یہ فراڈیے کسی مصیبت زدہ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔انٹرنیٹ، ای میل اور ٹیکسٹ میسیج نے امداد کے نام پر فراڈ کے پرانے حربے کو نئی زندگی دے دی ہے۔یہ فراڈیے خبریں بہت توجہ سے سنتے ہیں اور جیسے ہی کہیں کوئی آفت آتی ہے،لوگوں کی ہمدردیوں کاغلط فائدہ اٹھانے کے لیے فوراً ایک ویب سائٹ بنا کر اور پے پال اکاوئنٹ کھول کر فراڈ شروع کر دیتے ہیں۔مثلا جب مائیکل جیکسن فوت ہوئے تھے تب انٹرنیٹ پر بہت ساری ایسی ویب سائٹس کھل گئی تھیں جو لوگوں کو مائل کرتی تھیں کہ مائیکل جیکسن کی پسندیدہ فلاحی تنظیموں اور اداروں کو چندہ دیا جائے۔

٭FIAسائبر
۱)
اجبنی لوگوں کی جانب سے وصول ہونے والی ای میل کے ساتھ جڑی ہوئی فائلز کو ڈون لوڈ کرنے سے پرہیز کریں، خاص طور پر .exe, zip, scr, vbs فائلز۔ ان فائلز میں ٹروجن ہارس موجود ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے کریکر آپ کے کمپیوٹر میں داخل ہوسکتا ہے۔
۲) اپنے کمپیوٹر میں موجود اینٹی وائرس کو ہمیشہ اپڈیٹ رکھیں۔
۳) انٹرنیٹ پر کسی غیر معیاری ویب سائٹ سے کوئی سافٹ وئیر ڈون لوڈ نہ کریں۔ کیونکہ اس عمل سے کریکر کیلئے آپ کے کمپیوٹر میں ڈاخل ہونے کو دروازے کھل سکتے ہیں۔
۴) کمپیوٹر پر بیٹھنے کے بعدیہ تسلی کرلیں کہ اس میں کوئی Keylogger سافٹ وئیر تو انسٹال نہیں ؟ جو آپ کی Keys کو ریکارڈ کر سکئے۔ آپ Ctrl + Alt + Deleteبٹن دبا کر یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کمپیوٹر میں کون کونسا سافٹ وئیر انسٹال ہے۔
۵)اپنے آپریٹنگ سسٹم ، براؤذر اور ای میل پروگرامز کی اپ ڈیٹس اور patches باقاعدگی سے ڈون لوڈ کریں ۔ تاکہ اگر ان کے حفاظتی نظام میں کوئی نقص ہوتو وہ دور ہوجائے ۔
۶) باقاعدگی سے اپنے پاس ورڈز تبدیل کرتے رہیں۔کم از کم 15 دنوں بعد اپنا پاس ورڈز ضرورتبدیل کرنا چاہیے۔
۷) ہمیشہ ایک مضبوط پاس ورڈز تشکیل دیں ، جس میں کم از کم 09الفاظ ہونے چاہیں۔
۸) کبھی بھی اپنی تاریخ پیدائش، شہر، ملک ، دوست کا نام پاس ورڈز کے طور پر استعما ل نہ کریں ۔ کیونکہ یہ ناآسانی Guess کئے جاسکتے ہیں۔
۹)مختلف پروگراموں میں مختلف پاسورڈز استعمال کریں۔
۱۰) کسی کوبھی اپنا پا س ورڈ ہرگز نہ بتائیں۔
۱۱) کسی بھی دوست، رشتہ دار، کیفے کے سسٹم پر اپنا پاسورڈز استعمال نہ کریں۔
۱۲) ہمیشہ موبائل ویریفیکیشن الرٹ کو ON رکھیں۔ تاکہ اگر کسی دوسرے کمپیوٹر سے کوئی آن لائن ہوتو آپ کو میسیج وصول ہوجائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.