کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منانا تو بالکل درست ہے اور اس کا خیرمقدم بھی کیا جانا چاہئے لیکن یہ یکجہتی تو ہر روز ہونی چاہیئے جن حالات میں ہم اس دفعہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا رہے ہیں اب بین الاقوامی سطح پر بالعموم اور جنوبی ایشیاء میں بالخصوص تبدیلیوں کا آغاز ہوچکا ہے افغانستان کی جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے امارت اسلامیہ کا وجود عمل میں آیا ہوا ہے طالبان برسرِ اقتدار آگے ہیں اور ایک نئی اتھل پتھل کا آغاز ہوگیا ہے دنیا میں نئے قسم کے سیاسی گٹھ جوڑ تشکیل پا رہے ہیں مشرق وسطیٰ میں فلسطینوں پر مظالم کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے انسانی حقوق کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تازہ رپورٹ میں اسرائیل کو جنگی جرائم اور کرائمز اینگسٹ ہیومنٹی ملوث ظاہر کیا ہے یہ ظلم اسرائیل اور صیہونی قوتیں روا رکھی ہوئی ہیں دوسری طرف اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر و استبداد انتہاء کو پہنچ رہا ہے آئے دن جوانوں کے لاشے آٹھائے جا رہے ہیں خواتین کی عصمت دری اقتصادی بدحالی کے علاوہ آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایک مسلم ریاست کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہے وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ بیان منظر عام پر آچکا ہے کہ ایک ہندو اکثریتی ملک بھارت میں مسلم اکثریتی ریاست قائم نہیں ہوسکتی 5 اگست 2019 کا بھارتی اقدام یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت اپنے ارادوں میں کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایک متنازعہ ریاست کشمیر کو بھارتی فیڈریشن میں ضم کرنا چاہتا ہے اج کے دن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئیے اپنے گریبانوں میں زرہ جھانکیں اور خود اپنی خود احتسابی کریں ۔
علامہ اقبال نے یہ درست فرمایا تھا
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
سوالات کچھ اس طرح کے بھی ہیں؛
- کیا ہم مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی اذیتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
- کیا ہم نے بین الاقوامی سفارتی محاذ پر کوئی کامیابی حاصل کی ہے ؟
- کیا سلامتی کونسل نے اپنے دئیے ہوئے مینڈیٹ کی حفاظت میں کوئی رول ادا کیا ہے؟
- کیا کشمیر کے دوستوں نے 5 اگست 2019 کے بعد وہ کردار ادا کیا ہے جس کی توقع کشمیر کا بچہ بچہ کررہا تھا؟
-کیا ہمارے پاس آئندہ کا کوئی روڈ میپ ہے ؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کشمیری عوام اور کشمیریوں کے ہمدرد لوگ پریشان ہیں سخت فکر مند ہیں کہ کشمیریوں کے واحد وکیل اور سپورٹر پاکستان کے سیاسی لیڈروں کے باہم سیاسی تنازعات اور شعبدہ بازیاں جو اب عروج پر پہنچی ہوئی ہیں جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اور محض اقتدار حاصل کرنا ہے انہوں نے سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیا ہوا ہے جس سے ملک کا تو نقصان ہو ہی رہا ہے لیکن یہ لوگ قضیہ کشمیر کو بے پناہ نقصان پہنچا رہے ہیں میں آج پوچھتا ہوں کہ کس منہ سے یہ لوگ کشمیریوں سے ہمدردی کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب بیچ چوراہے کے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سامنے لاتے ہیں ریاست اور ریاستی اداروں بالخصوص پاک افواج کو ٹارگٹ کرتے ہیں بلکہ ہرزہ سرائی کرتے ہیں فوج کو تو ملک کے چیف ایگزیکٹو یا اپنے لیڈر کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہونا ہوتا ہے اور قوم کو دشمن کے مقابلے میں اپنے حکمرانوں کی حمایت کرنی ہوتی ہے لیڈر کوئی بھی ہو پاکستان کا مقدمہ اور کیس اسی کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے جو چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے پاکستان کا اندرونی سیاسی اور معاشی استحکام کشمیریوں کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہاں ہرروز عدم اعتماد کی باتیں ہوتی ہیں اسلام آباد پر یلغار کی باتیں ہوتی ہیں حکومت ابھی گئی کل گئی میڈیا بھی جلتی پر تیل چھڑکتا ہے جس سے افراتفری پھیلتی ہے پھر دشمنوں کے سامنے ہم بھوکے ننگے خود کو پیش کر کے اپنی فوج، قوم اور کشمیریوں کا مراحل ڈاون کرتے ہیں دشمن مزید کشمیریوں پر ظلم ڈھاتا ہے اور ہماری کمزوریوں سے فائیدہ آٹھاتا ہے جبکہ کشمیریوں کا وکیل کمزور ہوگا تو انکی کیا مدد کرے گا ہم کمزور ہیں بھی تو اپنے ہی ہمیں کمزور بین الاقوامی طور پر ظاہر کرتے ہیں ۔
چلتے چلتے تقریباً 20 لاکھ پاکستانیوں اور تقریبا 14 لاکھ کشمیریوں کے وطن برطانیہ کے درالحکومت لندن میں قائم پاکستان ہائی کمیشن کی حالت بھی بیان کر دیتا ہوں جہاں کشمیریوں سے 5 فروری یوم یکجہتی کا دن مٹی جھاڑنے کی طرح منایا گیا اور فرض پورا کیا گیا ہے چونکہ 5 فروری ویک اینڈ اور چھٹی کا دن ہے تو 3 فروری کو ہی ہائی کمیشن کے احاطے میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کردیا گیا ہے تاکہ بابو لوگ ارام سے جمعہ 4 فروری کو پڑھ لیں اور 5 فروری کو چھٹی منائیں دیگر سفارت خانوں کا بھی یہی حال رہتا ہے کشمیر کے سارے ایونٹ اب اپنے ہی لوگوں کو ُبلا کر منائے جاتے ہیں سٹیچ سجتے ہیں تقریر کرنے والے سننے والے سنانے والے سب پاکستانی کشمیری ہوتے ہیں میڈیا بھی اپنا ہی ہوتا ہے اس دفعہ کسی صحافی نے یہ بھی سوال کرنا گوارہ نہیں کیا کہ جناب ہائی کمشنر معظم احمد خان صاحب یہ 3 فروری کی صبح صبح ہی آپ نے کیوں یوم یکجہتی کشمیر اپنے سٹاف اور وہ لوگ جو کمیونٹی میں سالہاسال ہائی کمیشن کے ساتھ چلتے ہیں کو بلوا کر یوم یکجہتی کشمیر منا ڈالا میڈیا بھی پرانی خبر نئے لوگوں کے نام سے شائع کرتا ہے یعنی پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد جاری رکھے گا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حوصلے جوان ہیں بھارت کبھی کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ
اسی لئے ایک مایوسی کا سماں ہے مجھے برطانیہ میں رہتے ہوئے 31 سال ہوگئے ہیں کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لئے ہمارے کرتوں کی وجہ سے حمایت اپنے لوگوں میں بھی کم ہورہی ہے اب پاکستان ہائی کمیشن میں انگریز ایم پیز کے بجائے اپنے ہی ایم پیز آجاتے ہیں جو سالہا سال ہمارے قومی موقف کے ساتھ ہیں زرہ سوچئے۔
آے بسا کہ آرزو خاک شد