’’یوکرائن تنازعہ۔ جنگ کے گہرے بادل‘‘

0 130

امریکہ اور نیٹو کی فوجیں یوکرائن کی حمایت میں یورپ کے مختلف ملکوں میں جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ ایک طرف کھڑی ہیں دوسری جانب روس کی تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار افواج یوکرائن کے 2014 تک قبضے میں رہنے والے علاقے کریمیا اور سرحد میں موجود ہے اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور مغربی میڈیا اور یوکرائن کے سفارت کار 16 فروری بروز بدھ تک روس کی جانب سے روسی حملے کی پیشن گوئی کررہے ہیں امریکی صدر جوبائیڈن برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سمیت تمام تر یورپین ممالک روس کو یوکرائن پر حملے سے باز رکھنے کی تنبیہہ کررہے ہیں یوکرائن سے امریکی اور دیگر ممالک کے باشندے تیزی سے نکل رہے ہیں اکثر ممالک نے اپنی پروازیں معطل کردی ہیں۔

تمام تر انٹیلیجنس ایجنسیاں خبردار کررہی ہیں کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے اسی لئے ایک طرف سفارتی کوششیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف جنگ کی تیاریاں، روس اور یوکرائن کے درمیان تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرگیا جب حالیہ مہینوں میں یوکرائن کو نیٹو کا فل رکن بنانے کی گارنٹی دی گئی روس نہیں چاہتا کہ اس کی سرحد سے متصل یا ملحقہ یوکرائن نیٹو کا رکن بنے اور نیٹو افواج یوکرائن میں گھس آئیں روس اور یوکرائن کے درمیان حالات 2004 کے بعد سے حالات کشیدہ چلے آ رہے ہیں جب یوکرائن میں 2004ء کے انتخابات میں روسی حمایت یافتہ صدارتی امیدوار وکٹر یناکووچ کو امریکہ اور یورپ نے اپوزیشن کی حمایت سے 2014 میں ہٹادیا تھا یناکووچ کے جانے کے بعد یورپ نواز پرشنیکو کو صدر بنا دیا گیا جس کے بعد خانہ یوکرائن میں خانہ جنگی شروع ہوگئی روس کا ایک علاقہ کریمیا سوویت یونین سے علیحدگی کے وقت یوکرائن کے پاس چلا گیا تھا وہاں پر اکثریت میں روسی باشندے آباد تھے روس نے کریمیا کے علاقے میں اپنی فوجیں بھیج کر اس علاقے کو 2014 میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا اس کے بعد ریفرنڈم ہوا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں کریمیا کے لوگوں نے روس کے ساتھ رہنے کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا جس سے دونوں ملکوں میں تنائو بڑھتا ہی رہا۔

اب اس میں شدت اس لئے ائی کہ جیسا کہ میں نے اوپر زکر کیا کہ یوکرائن کی کوشش ہے کہ وہ نیٹو اتحاد کا حصہ بن سکے روس بھی نیٹو اتحاد کا حصہ بننے کے بعد یوکرائن کی چالاکی کو بھانپ چکا ہے، روس جانتا ہے یوکرائن نیٹو کا اتحادی ملک بن کر کریمیا واپس لینے کے لئے روس سے جنگ کرے گا، ساری نیٹو اس کی حمایت میں اس کی پشت پر کھڑی ہوگئی اکیلے روس کو یو کرائن سے ہی نہیں بلکہ امریکہ سمیت تمام یورپ سے جنگ کرنا ہوگی. دنیا تیسری جنگ عظیم کی تباہی کا شکار ہوگی، اور سب سے زیادہ یورپ اور روس متاثر ہونگے۔

اس جنگ میں جب روس اور یورپ شدید معاشی ، بحران اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر تباہی کی طرف جائیں گے تو کئی سمندر پار بیٹھے امریکہ کو ایک بار پھر موقع مل جائے گا کہ وہ دنیا میں اپنا وہ کھویا ہوا تسلط اور دبدبہ قائم کر سکے جو سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد قائم تھا،اصل مسئلہ چوہدراہٹ کا ہے، چودھراٹ خطرے میں ہے چین اور روس نے امریکہ کی جو ناک رگڑی ہے اس میں امریکہ کو اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے لئے ایک جنگ کی ضرورت ہے۔

روس یورپ سے جرمنی ، فرانس یوکرائن کے ساتھ چاروں فریقوں کے 2014 اور 2015 میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدوں پر عمل درآمد چاہتا ہے اور ماضی میں زبانی کی گئی یقین دہانیوں جن کے مطابق نیٹو اپنا دائرہ کار مشرقی یورپ کی طرف نہیں بڑھائے گی. اس یقین دھانی کا تحریری معاہدہ کرنا چاہتا ہے، لیکن نیٹو اس پر کوئی بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں یوکرائن مشرقی یورپ کا سائز میں فرانس جرمنی اور یورپ کے کئی ملکوں سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی چالیس ملین سے زیادہ ہے جہاں اس وقت جنگی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں سویلین افراد کو جنگی ٹریننگ دی جارہی ہے فوجی گشت بہت زیادہ بڑھ گیا ہے گزشتہ اتوار کے روز برطانیہ میں یوکرائن کے سفیر نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے تو یوکرائن نیٹو کی رکنیت وقتی طور پر چھوڑ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں 20 سال جنگ کے تجربے کے بعد یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ جنگ میں تباہی ہے یورپ میں لڑی جانے والی یہ جنگ اپنے گھر بار در و دیوار کو آگ لگانے کے مترادف ہو گئی امریکی اور یورپین معیشت کرونا زدہ ہے ان حالات میں جنگ سے بچنے کیلئے تدبیریں ہی بہترین حکمت عملی ہوگئی روس کو یورپین اور امریکی کمزوریوں کا بخوبی علم ہے اسی لئے وہ دبائو بڑھا رہا ہے اگر محدود جنگ بھی شروع ہوگئی تو جانی و مالی بڑا نقصان ہوگا روس کے ساتھ چین اور سابق سوویت یونین کی ریاستیں کھڑی ہیں دونوں طرف توازن قائم ہوجاتا ہے چین روس مل کر امریکہ اور نیٹو کے سامنے ہیں اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس کھٹائی میں پڑ سکتا ہے ان حالات میں پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ روس کےبارے میں یورپ اور امریکہ میں بالکل غلط تاثر جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.