اے پیارے پڑھنے والے !
مرد کو اللہ نے ہر لحاظ سے مضبوطی عطا کی ہے چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی لیکن بعض اوقات یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ آخر کو مرد بھی ایک انسان ہے۔ دل رکھتا ہے خواب دیکھتا ہے اور خواب پورے نہ ہونے پہ درد اور تکلیف سہنے کے مرحلے سے گزرتا ہے ۔ لیکن مرد کو رونا منع ہے آہ و بکا کرنا منع ہے۔
دکھ اور تکلیف کا اظہار کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ مرد ہے اور کئی دفعہ یہ بات سننے کو ملتی کہ مرد بن مرد ،مرد روتے نہیں ۔مرد کے خواب اصل میں اس کے اپنے لیے ہوتے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور ان کے خواب پورے کرنے اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ذندگی گزر جاتی ہے۔
چھوٹے ہوتے سے اس پریشر میں بڑا ہوتا ہے کہ والدین کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے اور خوب پیسہ کمانا ہے پھر جب شادی کا وقت آتا ہے تو ماں باپ کی یہ خواہش کہ پہلے بہنوں کی شادیاں کرنی ہیں۔اور پھر اپنی شادی کے بعد ذمہ داریوں کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب بیوی اور بچوں کی خوشی کی خاطر روزی روٹی کی تگ و دو کرتا ہے دیس پردیس کی مشکلات و مصائب برداشت کرتا ہے۔ اور جب کبھی قدرت کی طرف سے تنگی آجا ئے تو بہت سی باتیں اور طعنے بھی بے چارہ مرد ہی سنتا ہے۔
ان سب کے باوجود مرد کو ہمیشہ ظالم کے طور پہ پورٹریٹ کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی پتھر سمجھ لیا جاتا ہے جسے کو ئی تکلیف یا درد نہیں ہوتا۔مجھے یقین ہے کہ اکیلے میں عورت سے ذیادہ مرد روتے ہیں کیونکہ وہ کسی کے سامنے رو نہیں سکتے آخر مرد ہے نا ۔
یہ مضمون تحریر کرتے ہوئے ایک ہی ہستی میرے ذہن میں آتی ہے جو میرے آئیڈل ہیں اور وہ میرے والد ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کی خوشیوں کے لیے نہ دن دیکھا، نہ ہی رات، بس اپنا آپ مار کے ہمیں دنیا جہان کی سہولتیں دیں جو انہیں ان کی زندگی میں میسر نہیں تھی ۔
اگر عورت اللہ کا ایک حسین تحفہ ہت تو مرد بھی اللہ کا ایک ایسا عظیم شاہکار ہے جس کی مھٹی میں خاندان کی محبت اور ذمہ داریوں کا احساس خوبصورتی سے ملا دیا گیا ہے۔
بے شک بیٹا ، بھا ئی، باپ اور شوہر اِن سب رشتوں کو سوچتے ہی اَن گِنت ذمہ داریوں کا سلسلہ ذہن میں آتا ہے جو کہ ذندگی کے اختتام پر ہی ختم ہوتا ہے۔
Comments are closed.