مال و دولت اور اسلام کا متوازی نکتہ نظر

144

رمضان المبارک کا با برکت مہینہ ہم سے الوداع ہو رہا ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار اور باہمی غمگساری کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں صاحب ثروت اہل ایمان پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر اللہ کی رضا جوئی کیلئے خرچ کرتے ہیں۔ مناسب سمجھا کہ مال و دولت کی اہمیت سے متعلق اسلام کے متوازی نظریہ پر کچھ روشنی ڈالوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ "مال و دولت” اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ذریعے انسان کی بے شمار دینی اور دنیوی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔لیکن دوسری طرف یہی ”مال“ امتحان اور آزمائش بھی ہے۔ کبھی یہی مال کسی کے لئے فتنہ یا فساد کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ یعنی مال ”رحمت“ بھی ہے اور ”زحمت“ بھی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے دنیوی مال و اسباب کو اپنا فضل قرار دے کرر اسے جائز ذرائع سے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ انسان راحت وسکون، عزت ووقار اور خوشی ومسرت کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔اسلام میں مال و دولت کمانے کو ناپسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا بلکہ رزقِ حلال کے لیے محنت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا حبیب قرار دیا ہے۔ اسی طرح انسانی تاریخ میں بہت سے انبیاء اور صالحین ایسے گزرے ہیں جن کے پاس بے شمار دولت تھی، اسی طرح صحابہ کرام میں بھی مالدار لوگ تھے،۔بہت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مالدار تھے اور بعض اسلامی ریاست کے قیام کے بعد مالی فراوانی کی وجہ سے امیر ہوئے۔

الغرض مال بجائے خود ناپسندیدہ نہیں، بلکہ اسلام تو اتنا مال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ انسان دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے بچ سکے۔ لیکن یہی مال جب اللہ کی معصیت اور نافرمانیوں میں استعمال کیا جانے لگے۔ا سراف وفضول خرچی کو شعار بنا لیا جائے اور جہاں اسے خرچ کرنے کیلئے کہا گیا ہے وہاں خرچ کرنے کی بجائے جہاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں خرچ کیا جانے لگے تو یہی نعمت انسان کیلئے وبال جان اور اللہ تعالیٰ کی گرفت کا سبب بن جاتی ہے۔ کبھی انسان مال ودولت کے نشے اور عیش وعشرت میں پڑ کر اللہ کو فراموش کرجاتا ہے اور کبر وغرور میں پڑ کر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ مالداروں کی دولت وثروت میں غریبوں کا بھی حق ہے اور یہ اس وجہ سے کہ سماج میں کوئی محروم نہ رہے اور کوئی دولت مند عیش وعشرت میں پڑ کراور روز جزاء سے غافل ہو کر سماج میں بدبونہ پھیلائے۔ اللہ نے یہ نظام اسی لئے قائم کیا ہے کہ بنی نوع انسانی کے تمام افراد کے درمیان اشتراک وتعاون قائم ہو اور معاشرہ ایک صالح بنیادوں پر استوار رہے،جہاں نہ عیاشی واسراف کی بے اعتدالی ہو اور نہ فقرو افلاس کی مشکل صورتحال بلکہ دونوں طبقے ایک حد کے اندر رہیں اور ان کے درمیان عدل وانصاف جاری رہے۔

قرآن پاک عیش وعشرت میں حد سے گزر کر سامان زندگی کے انبار لگانے کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآن مجید لوگوں کو سعادت، خوشحالی اور راحت وسکون کی فضاء برقرار رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ جو لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر فساد فی الارض کا سبب بنتے ہیں،وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اپنی بے پناہ دولت کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ اپنی دولت اور جاہ ومنصب کے سہارے گھٹیا سے گھٹیا عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، وہ ہر ایسی آواز یا طاقت کو کچل دینا چاہتے ہیں جو ان کی پرتعیش زندگی میں رخنے ڈال سکتی ہو۔قارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا۔ بنی اسرائیل سے ہونے کے باوجود وہ فرعون کا ساتھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مخالف تھا۔ اس کی وجہ شہرت اس کی بے پناہ دولت تھی۔ مگر یہی دولت اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کرنے کا سبب بن گئی۔قرآن کا یہ واقعہ انسانوں کے دلوں میں پیوست دنیا پرستی کے جذبہ اور اس سے متعلقہ تمام معاملات پر انتہائی تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔ دنیا پرستی کا یہ مرض جو زمانہ قدیم سے انسانوں کو خدا کی نافرمانی میں مبتلا کرتا رہا ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ قوت کے ساتھ ہمارے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ یہ مرض عام لوگوں کے لیے تو آخرت میں محرومی کا سبب ہے ہی، مگر دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو یہ اسے ایمان وعمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ وہ مسلم معاشرہ ہی برائی اور شرکا محور بن جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث، دونوں میں مسلمانوں کو دنیوی مال کے اس فتنہ سے خبردار کر دیا گیا تھا۔

اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے: ”ہر امت کا یک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔”تاریخ بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور موجودہ دور میں دنیا پرستی کا یہ فتنہ اپنی انتہا پر پہنچ گیا ہے۔ مذہبی لوگ دوسرے لوگوں کو اس فتنہ سے کیا بچاتے، وہ خود اس کی لپیٹ میں آگئے۔ آخرت کی زندگی کا وہ حقیقی تصور جسے انبیائے کرام نے بنی نوع انسان تک پہنچایا، آج تمام انسانی معاشروں بشمول مسلمانوں میں بھی کم ہی نظر آتا ہے۔بلکہ مذہب کو بھی دنیا پرستی کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ لوگ مذہب کو ایک تہذیبی ورثہ اور رسوم و عادات کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ایسا مذہب انسانوں کو نہیں بدلتا، بلکہ وہ انسانوں کے ماحول، مزاج اور عادات کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہتا کہ انسانوں کو دنیا پرستی سے روک سکے۔۔ اسی طرح جب رسول کریم اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تو دنیوی آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والے خوش حال لوگوں نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اور ایمان لانے والے کمزوروں کا مذاق اڑایا۔

ان کی دولت وثروت اوران کی عیاشی وخوشحالی نے ان کے اندر کبرو غرور اورخود پسندی پیدا کردی تھی اور یہی ہر زمانہ میں ہوتا رہا ہے کہ روحانی پاکیزگی اور اخلاقی بالیدگی کے بغیر، دولت وثروت کا انبار انسان کے مزاج کو بگاڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی بے پناہ دولت پر اترانے لگتا ہے اورخاص طور پر جبکہ یہ دولت ناداری وغربت کے بعد آئے اور اس کے حصول میں بھی حلال وحرام کی تمیز نہ رہی ہو۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ اللہ سے غافل کردینے والے مال وزر کی ریل پیل کا ہر زمانہ میں یہی مزاج رہا ہے جو روز اول سے آج تک چلارہا ہے۔ حد سے زیادہ دولت رکھنے والا یہ طبقہ جب اللہ کے حکم سے منہ موڑ لے تو پھرسماج میں فساد وبگاڑ کا سرچشمہ بنتا ہے۔

فتنہ وفساد بپا کرتا ہے۔دولت کا انبار اور عیش وعشرت کی زندگی اسے بزدل بنا دیتی ہے اس کے اندر سے جدوجہد کا مادہ ختم ہوجاتا ہے ۔اس میں شبہ نہیں کہ دولت وثروت اللہ کی نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، اسے اللہ کی معصیت میں نہیں بلکہ اللہ کو راضی کرنے والے راستوں میں خرچ کرنا چاہیے، اسراف وفضول خرچی سے بچنا چاہیے اور غریبوں وناداروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل علم کو بھی چاہیے کہ وہ حکمت ودانائی کیساتھ اہل ثروت تک حق بات پہچاتے رہیں اور محض مالداروں کو خوش کرنے کیلئے حق بات سے گریز کر کے خاموشی اختیار نہ کریں۔۔ کیونکہ بسا اوقات ان مال دار لوگوں سے خلاف شر ع باتوں کا صدور نادانی وغفلت اور ناواقفیت ولاعلمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، اگر بھلے طریقے پر ناصحانہ انداز میں انہیں درست بات کہی جائے اور اس میں اخلاص ہو تویہ بات سنی جاتی اور ان پر اثر ہوتا ہے۔

Comments are closed.