ماہین ضیا
یوٹیوب کی سی ای او سوزین ووچتسکی (Susan Wojcicki) نے گزشتہ سال بلومبرگ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو ‘بے بی شارک ڈانس’ ہے۔ اس وقت یوٹیوب پر اس کے ویوز 10 ارب سے بھی زائد ہیں یعنی دنیا میں بسنے والے انسانوں کی تعداد سے بھی 2 ارب 10 کروڑ زیادہ۔
2020ء میں ہونے والی پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بچوں میں سب سے مقبول پلیٹ فارم یوٹیوب ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں بچے یوٹیوب ویڈیوز دیکھتے ہیں اور ان میں سے کئی ‘بے بی شارک ڈانس’ جیسی نقصان نہ پہنچانے والی ویڈیوز دیکھتے ہوں گے۔ اس کے باوجود بچوں تک ایسے مواد کی رسائی کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کسی قسم کی نگرانی سے نہ گزرا ہو۔
گزشتہ کچھ برسوں میں یوٹیوب نے بچوں سے متعلق مواد کی نگرانی سخت کی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوٹیوب پر ہر منٹ 400 گھنٹوں کی ویڈیوز اپلوڈ ہوتی ہیں جن کو پرکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
‘یوٹیوب کِڈز’ بچوں کے لیے یوٹیوب کا خصوصی پلیٹ فارم ہے۔ یہ پلیٹ فارم 12 سال سے کم عمر بچوں کو دکھائے جانے والے مواد کی مکمل ذمہ داری لیتا ہے۔ کوئی بھی مواد جو نامناسب ہو یا اس میں معمولی سا بھی تشدد دکھایا گیا ہو اسے ہٹادیا جاتا ہے۔ تاہم یہ پلیٹ فارم ہر چیز پر توجہ نہیں دیتا۔ اس میں کچھ نقائص موجود ہیں جس کی وجہ سے یہاں موجود مواد بچوں کے لیے پوری طرح مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
28 سالہ عائشہ ایک استانی ہیں، ان کی بیٹی عشال پِری اسکول میں پڑھتی ہے اور وہ یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے میں روزانہ 3 گھنٹے گزارتی ہے۔ عشال کی ہم جماعت فاطمہ یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے میں روزانہ تقریباً 4 گھنٹے صرف کرتی ہے۔ فاطمہ کی والدہ 34 سالہ تحریم خان ایک سرکاری افسر ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ‘فاطمہ اسکول سے واپس آکر کھانا کھاتی ہے اور پھر یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے لگتی ہے۔ یہ عادت کورونا لاک ڈاؤن میں ڈلی تھی اور ہم اس عادت کو چھڑا نہیں سکے’۔
9 سالہ زایان اس وقت یوٹیوب کا عادی ہوا جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیرونِ ملک مقیم تھا۔ زایان کی والدہ 33 سالہ مہرین سہیل ایک خاتون خانہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ‘ملازمین نہ ہونے کی وجہ سے میں گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی تھی اس وجہ سے اگر زایان بھی کسی چیز میں مصروف ہوتا تو مجھے کام کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔ اب چونکہ ہم پاکستان میں ہیں اور مجھے ملازمین کی مدد دستیاب ہے تو میرے پاس زایان کے لیے پہلے سے زیادہ وقت ہے۔ لہٰذا اب ہم نے زایان کا اسکرین ٹائم 40 منٹ تک محدود کردیا ہے’۔
لیکن صرف ‘نامناسب مواد’ ہی مسئلہ نہیں ہے۔ بچے اور والدین شاید اس بات کو محسوس نہیں کررہے کہ وہ جس مواد کو دیکھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر اشتہار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اسپانسرڈ ویڈیوز بھی حقیقی مواد کی طرح ہی لگتی ہیں۔ بچے اشتہارات کا بہت جلد شکار ہوسکتے ہیں اور وہ اشتہاری ایجنسیوں کا اہم ہدف بھی ہوتے ہیں۔ اس کی 2 بنیادی وجوہات ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ خریداری کے فیصلوں میں بچے اپنے والدین پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ خود بھی مستقبل کے خریدار ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بچوں میں اشتہارات کو سمجھنے یا اشتہار اور حقیقت میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
یوٹیوب پر ‘کوکومیلن’ اور ‘چوچو ٹی وی’ جیسے اینیمیٹڈ ‘تعلیمی’ چیلنز تو بچوں کو بنیادی اقدار سکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ سوشل میڈیا اسٹارز، جنہیں یوٹیوب پر وی لاگرز یا ‘کِڈ فلوئینسرز’ کہا جاتا ہے وہ کم عمر ناظرین کے خریداری سے متعلق فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان وی لاگرز میں خاص طور پر دبئی میں مقیم وی لاگرز شامل ہیں جن کے ویوز اربوں میں ہیں۔
مختلف کھلونوں کے اسٹور، تفریحی پارک یا بچوں سے متعلق اس قسم کے دیگر کاروبار ان کِڈ انفلوئینسر کی ویڈیوز کو اسپانسر کرتے ہیں۔ ان کے وی لاگز ان چمکتی دمکتی چیزوں کے بارے میں ہوتے ہیں جو ایک عام آدمی کی پہنچ سے دُور ہوتی ہیں بھلے ہی وہ شخص دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو۔ آپ کسی بھی دوست سے معلوم کرلیں جو اپنے بچوں کو دبئی لے کر گیا ہو اور اس نے کھلونوں پر ضرورت سے زیادہ خرچہ نہ کیا ہو۔
اگر اشیا کی پروموشن کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تب بھی یہ وی لاگرز جو بڑی بڑی برتھ ڈے پارٹیاں اور تقریبات کرتے ہیں وہ بھی بہت شاہانہ انداز میں ہوتی ہیں۔ آپ کی جتنی استطاعت ہو آپ اپنے بچوں پر اتنا خرچ کریں لیکن ان لوگوں کے سامنے اس کا دکھاوا کرنا جو ان تعیشات کی استطاعت نہیں رکھتے بالکل نامناسب ہے کیونکہ بچے نہیں سمجھتے کہ کس چیز کی کتنی اور کیا اہمیت ہے۔
اگر کسی کو نہیں معلوم تو ان کی اطلاع کے لیے بتا دیتے ہیں کہ ‘روما اینڈ دانیہ’ اور ’ولاد اینڈ نِکی’ یوٹیوب کڈز پر 2 سب سے زیادہ فالو کیے جانے والے چینلز ہیں اور ان کی ویڈیوز کسی ارب پتی کی طرزِ زندگی پر مشتمل وی لاگ سے مختلف نہیں ہوتیں۔
مہنگے کھلونے ہوں یا دبئی کی پُرتعیش زندگی، فرسٹ اور بزنس کلاس میں سفر ہو یا مہنگی گاڑیاں، ان ویڈیوز میں ہر وہ چیز دکھائی جاتی ہے جو ایک اوسط آمدن والے گھرانے کے بچے کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ سوچیے اگر وہ بچے ان چیزوں کی خواہش کرنے لگیں تو کیا ہوگا۔
اگرچہ یہ یوٹیوب کے متعین کردہ معیارات سے متصادم تو نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ نفسیاتی طور پر بچوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں کورونا اور لاک ڈاؤن کے باعث بچوں میں گیجٹس کا استعمال پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ چونکہ اسکرین ان کے لیے نئی چیزیں سیکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اس وجہ سے وہ اسکرین پر اپنے جیسے دیگر بچوں کو جو کچھ کرتا دیکھتے ہیں اسے فوراً اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
عزیرہ ضیا یونیورسٹی آف لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہی ہیں، اور وہ ایک دادی بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ایک بچہ کسی کارٹون کریکٹر اور حقیقی شخص میں تو فرق کرسکتا ہے لیکن جب وہ کسی جیتے جاگتے فرد کو جادو کی چھڑی گھماتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر مشکل ہوجاتی ہے۔ یہ ویڈیوز بچوں کو کھلونے بنانے اور فروخت کرنے والے کچھ بڑے ناموں سے متعارف کرواتی ہیں۔ سب سے پہلے استطاعت کی اہمیت ہے، دستیاب ہونا بعد کی بات ہے۔
‘اگر آپ بہترین طریقے سے پیک وہ کھلونا خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں جسے آپ کے بچے نے کسی انفلوئینسر کی ویڈیو میں دیکھا ہے تب بھی اس کھلونے کو آپ کی قریبی دکان تک پہنچنے یا آپ کے گھر تک ڈیلیور ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ تب تک آپ کا بچہ کسی نئی ویڈیو میں کوئی نیا کھلونا دیکھ چکا ہوگا اور اس کی ضد کرے گا جبکہ آپ پرانے کھلونے پر پیسے خرچ کرچکے ہوں گے’۔
ان وی لاگز میں والدین کو 24 گھنٹے بچوں کے لیے دستیاب دکھایا جاتا ہے اور وہ بچوں کی ہر سرگرمی میں شریک ہوتے ہیں۔ یوں اس مواد کے ذریعے بچوں کے ذہنوں میں ایک حقیق سا تصور پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ویڈیو میں نظر آنے والوں کو ہر کام کے پیسے ملتے ہیں۔ عزیرہ ضیا کے مطابق ‘حقیقت میں گھر پر رہنے والے والدین کے پاس بھی بچوں کی سرگرمیوں کے لیے اتنا وقت نہیں ہوتا’۔
مہرین سہیل کے مطابق ‘کچھ مواد تو بالکل ہی بے تُکا ہوتا ہے، مثلاً کہیں کوئی بچی دیوار پر چاکلیٹ سے ہاتھوں کے نشان لگارہی ہوتی ہے تو کبھی اپنے والدین کے کھانے میں کیڑے ڈال رہی ہوتی ہے’۔
بچوں کو صحیح اور غلط کا سبق اسی عمر میں دیا جاتا ہے لیکن یہ ‘کِڈ فلوئینسرز’ اس حوالے سے کوئی ذمہ داری ادا نہیں کرتے۔ 33 سالہ تابندہ ضیا ایک ماں ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ایگزیکٹو اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘کھانا ضائع کرنے سے لے کر بہن بھائیوں کی اسکول کی کتابیں خراب کرنے تک ہر چیز کو مذاق اور قابلِ معافی سمجھا جاتا ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہاں ‘معذرت’ یا ‘شکریے’ کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں مہنگے ایکوریئمز یا میوزیمز کے دوروں کی اسپانسڑد ویڈیوز ہوتی ہیں اور کوئی تعلیمی مواد نہیں ہوتا۔ چلیں اگر کوئی ویڈیو کمرشل بھی ہے تب بھی اشتہار میں ان بنیادی اقدار پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے جو بچوں کو سیکھنا ضروری ہیں’۔
وہ فکر مند ہیں کہ اس طرح کے اثرات کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں اس بات کے خلاف نہیں ہوں کہ والدین اپنے بچوں کے دوست بنیں اور ان کے ساتھ کھیلیں لیکن ان ویڈیوز میں نظر آنے والے چائلڈ اسٹارز عموماً اپنے بزرگوں سے بدتہذیبی سے پیش آتے ہیں’۔
دنیا کے کسی بھی کونے میں بننے والا ایک کھلونا جسے یوٹیوب کے ذریعے مشتہر کیا جائے وہ مختلف آمدن اور بجٹ رکھنے والے گھرانوں تک پہنچتا ہے۔ آپ ربڑ کے کھلونے ‘پوپ اِٹ’ کی ہی مثال دیکھ لیجیے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ عجیب اور مہنگا شوق دنیا بھر میں پھیل گیا۔
کیا کم عمر بچے بھی اس حد تک تناؤ کا شکار ہوتے ہیں کہ انہیں اس طرح کے ‘اسٹریس ریلیور’ کی ضرورت ہو۔ ان کھلونوں کو بنانے والوں کے دعوے کے برعکس کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو یہ کہتے ہوں کہ پوپ اِٹ یا سلائم ان بچوں کو پُرسکون رکھتے ہیں۔
بچوں کی نفسیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان چینلز پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ دکھائے جانے والے مواد میں تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیمی مواد بھی شامل کریں اور کچھ ذمہ داری کا ثبوت دیں۔
مزید سخت نگرانی کے ذریعے یوٹیوب کِڈز بچوں کے لیے ایک محفوظ پلیٹ فارم بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے مواقع پر جب والدین ان کے ساتھ موجود نہ ہوں۔
Comments are closed.