میرپور آزاد کشمیر میں مقیم استاد محترم پروفیسر عبدالرفیق بھٹی ایک عہد ساز شخصیت ہیں ایک دفعہ نے انہوں نے ایک کہانی سنائی تھی کہ کسی جگہہ انہوں نے انسانی دماغوں کی کوئی فرضی نمائش کا قصہ پڑھا تھا کہ انسانی دماغ کی کھوپڑیوں کی نمائش لگی ہوئی تھی جہاں بڑے بڑے نامی گرامی شخصیات کی کھوپڑیاں رکھی گئی تھیں جن کچھ غیر معروف نامعلوم افراد کی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں جیسے برطانوی وزیراعظم چرچل، جرمن چانسلر ہٹلر، امریکہ کے بانی کولمبس کی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں جن کی قیمتیں صرف ایک پونڈ یا زیادہ سے زیادہ دو پونڈز تھیں جبکہ بعض نامعلوم افراد یا غیر معروف افراد کی کھوپڑیوں کی قیمت ایک ایک ہزار پونڈز تک رکھی گئی تھیں مثال کے طور پر ملائم سنگھ، پائی پھیرو ٹام ڈک اور ہیری دریا خان سمندر خان وغیرہ وغیرہ
نمائش دیکھنے والوں کو اس بات پر تعجب ہورہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ملائم سنگھ اور ٹام ڈک اینڈ ہیری کی کھوپیڑیوں کی قیمت کیوں مہنگی ہیں اور نامی گرامی افراد اور شخصیات کی کھوپڑیاں اونے پونے داموں فروخت ہورہی ہیں منتظمین نے دریافت کرنے والوں کو بتایا کہ چونکہ چرچل کولمبس ہٹلر وغیرہ کی کھوپڑیاں استعمال ہوچکی ہیں اس لئے ان کی کچھ زیادہ قیمت نہیں ہے جبکہ پائی پھیرو، دریا سمندر خان ملائم سنگھ ٹام ڈک اینڈ ہیری کی کھوپڑیاں استعمال نہیں ہوئی ہیں اس لئے ان کی قیمت زیادہ ہے میرے نکتہ نظر کے مطابق اگر اس کہانی کو پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو دو مطلب نکلتے ہیں ایک یہ کہ ہم پاکستانی اپنا دماغ ہی نہیں استعمال کرتے جو صیحع کو صیحع اور غلط کو غلط کہہ سکیں دوسرا یہ کہ ہمارے دماغوں پر صرف نواز شریف اور آصف زرداری نے آسیب کی طرح سایہ جمایا ہوا ہے انہیں بس عمران فوبیا ہے ان کی مجبوری یہ ہے کہ اگر عمران خان بطورِ وزیراعظم پانچ سال پورے کرگیا تو ان کا نام ونشان تک نہیں رہے گا وزیراعظم عمران خان نے حالیہ اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نے گزشتہ دوسالوں میں بیس ارب ڈالر قرض واپس کیا ہے جو کہ 32 سو ارب روپے بنتے ہیں اگر یہ بوجھ قرض پچھلے دس سالوں میں اس غریب ملک پر نہ ڈالا جاتا تو اتنی رقوم سے کم از کم 32 یونیورسٹیاں قائم کی جا سکتی تھیں ۔
ایک عام فہم بات ہے کہ اگر آپکی آمدنی ایک ہزار مہینہ ہو اور آپ مکان پر قرض لے کر مزے کرتے رہیں اب آپ کے قرض کی قسط ہو چھ سو پونڈ اور آپکی آمدن ابھی ایک ہزار ہی ہے آپ کے پاس کیا آپشن ہیں یا تو قسطیں ادا نہ کریں اور مزے کرتے رہیں اور بینک کرپٹ ہو جائیں ڈی فالٹر ہوجائیں دوسرا آپشن یہ ہے کہ قسطیں ادا کرتے رہیں اور خرچے کم کریں اور ساتھ ہی آمدنی بڑھانے کے لیے اضافی کام کریں اس وقت پاکستان میں مہنگائی ضرور ہے اس میں شک نہیں لیکن اسکی بہت ساری وجوہات ہیں،کرونا کی وجہ سے پوری دنیا مہنگائی کی زد میں ہے عمران خان کی موجودہ حکومت میڈیا کو اربوں روپے کے اشتہار نہیں دے رہی ہے لہذا حکومت کے کسی بھی اچھے کام کی تشہیر نہیں ہو رہی ہے تیسری بات کرپشن مافیا جو حکومت سے باہر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہی مال جو کرپشن سے کمایا گیا تھا اب خرچ کر کے حکومت کے خلاف روڑے اٹکا رہی ہے حقیقت میں معاشی طور پر پاکستان درست سمت جارہا ہے بہت زیادہ مشکلات ہیں لیکن کچھ حاصل کرنے کے لیے قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ۔
پاک افواج پاکستان کا سب سے زیادہ ڈسپلن والا ادارہ ہے تاریخ میں پہلی بار حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں جو کرپٹ مافیا کو ہضم نہیں ہو رہا ہے اس مافیا کے مطابق اصل جمہوریت یہ ہے کے عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو فوج سے مل کر گھر بیھج دیا جائے اور انھیں حکومت دے دی جائے جو حکومت سے باہر ہیں اور زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کے سپورٹرز بھی یہی سمجھتے ہیں چونکہ جناب میاں نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کی کھوپڑیاں ابھی استعمال نہیں ہوئی اور نہ ہی انھوں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے لہذا وہ اب بھی بے شک کرپٹ ہیں کھاتے ہیں تو کھلواتے تو بھی ہیں لہذا انکو واپس برسراقتدار لایا جائے اور جناب عمران خان نے پہلے کرکٹ کی دنیا میں نام کمایا پھر بہت محنت کی اور شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنائی اب وہ پاکستان کو پروقار ملک بنانا چاہتے ہیں دنیا جہان کی کتابیں اس بندے نے پڑھ ڈالی ہیں لہذا انکی کھوپڑی کی قیمت چرچل اور کولمبس کر طرح زیادہ چل چکی ہے لہذا نواز شریف اور زرداری صاحب کو موقع ملنا چاہے باقی میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں ۔
میرے جیسا عام آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ملک میں زرداری اور نواز شریف جیسے لوگوں کے لیے بھی کوئی قانون ہوگا اور وہ بھی جیل جا سکتے ہیں ان کو دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہونگے اس وقت پاکستان ترقی کے راستے پر سو فیصد گامزن ہو چکا ہے اور بہت جلد ترقی کی منازل طے کرے گا۔عمران خان نہ فرشتہ ہے اور نہ اس کی حکومت میں شامل فرشتے ہیں غلطیاں کررہے ہیں کہ یہ بشری تقاضے ہیں اور انسانی نظام جہاں بھی رائج ہے وہاں سو فیصد درست نہیں ہو سکتا یہ بھی دیکھیں مجھے فخر ہے موجودہ وزیراعظم پر اینکر کامران شاید کیا کچھ نہیں پوچھا جیسے عوام کی کچہری لگی ہو اس کو یہ بھی خیال نہیں تھا کہ وزیراعظم پاکستان کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے کیا ماضی کا کوئی وزیراعظم اس انداز سے انٹرویو دینے کا اہل تھا کبھی کسی نے جرات کی کسی کی اہلیت تھی اقوام متحدہ سے لے کر اُردو انگلش پر پوری کمانڈ ہو ۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے چلنے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے بیرونی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور بیرونی زرمبادلہ میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے تعمیرات یعنی کنسٹرکشن کی انڈسٹری نے آڑان بھری ہے ملک کے بڑے بڑے مسائل میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل ہیں بلاشبہ وزیر اعظم کی نیت صاف ہے اور وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیںامید کی جاتی ہے حکومت وقت اپنی مدت پوری کرے گی اور پاکستان ترقی کرے گا ان شاء اللہ