امریکہ کےسفر کا احوال

99

میں نے نومبر میں تقریباً دو ہفتے کا امریکہ کا دورہ کیا اسی دوران امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں سے امریکہ کی پالیسوں پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جہاں بہت سارے سوالات کئے وہاں خود بھی چلتے پھرتے بہت سارے مشاہدات کئے جن کے کئی پہلو ہیں بہت ساری مثبت باتیں بھی ہیں ان کالموں میں کوشش کروں گا کہ اس کا مختصر سا احاطہ کروں

امریکہ سے باہر یا تھرلڈ ورلڈ ممالک میں رہتے ہوئے جب امریکہ کا ذکر ہوتا ہے تو امریکہ کو اس کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے واحد سُپر پاور امریکہ دنیا میں غریب ممالک کو یا تو اقتصادی پابندیوں اور قرضوں میں جھکڑ کر رکھتا ہے یا پھر جنگ وجدل کشت و خون بالواسطہ یا بلاواسطہ کرواتا ہے امریکہ اپنے موافق حکومتیں قائم و تبدیل کرواتا ہے کبھی فوجی اور کبھی سول آمروں کی حمایت کرتا ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں جو ممالک بھی دنیا میں امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف چلتے ہیں وہ مشکلات کا ہی شکار رہتے ہیں چونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے 9/11 کے بعد جو کچھ افغانستان پاکستان عراق ایران لیبیا مڈل ایسٹ میں ہوا اس میں ہر جگہہ امریکہ کی براہ راست مداخلت ہی نظر آتی ہے خاص کرکے ان ممالک کی حکومتوں کی تبدیلیاں بھی امریکہ کے اشاروں پر کی گئی ہیں دنیا میں اس کا ردعمل بھی بہت شدید آتا ہے لیکن یہ ردعمل آسمان کی طرف پتھر پھینکنے کے ہی مترادف ہے بیرونی ممالک میں امریکہ کا اپنا بھی جانی اور مالی بہت نقصان ہوتا ہے دنیا میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے بھی امریکہ کا ہی سب سے زیادہ کردار رہتا ہے ساتھ میں امریکہ پر یہ بھی الزام درست عائد کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری میں بھی امریکہ جانبداری روا رکھتا ہے دوست ممالک کی جانب سے اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روا رکھی جا رہی ہوں تو امریکہ کے لئے کوئی خاص پریشانی کا باعث نہیں اسی لئے مسلمان دنیا کی عام آبادی میں امریکہ کے خلاف آج بھی نفرت سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں مسلمانوں کا خون تواتر سے جب بھی بہتا ہے تو امریکہ کو سب سے زیادہ گالیاں اور ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے دہشتگردی کی جنگ میں افغانستان پر جس طرح بم برسائے گئے پاکستان میں جس طرح ڈراون اٹیک ہوئے جانی و مالی نقصان ہوا جموں کشمیر کے لوگ بھی 75 سالوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں اقوام متحدہ جو براہ راست امریکہ کے کنٹرول میں ہے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کیا کریں ڈیڑھ لاکھ کشمیری بھارت کی سیکورٹی فورسز نے قتل کردیئے جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں اس کے باوجود امریکہ کے ساتھ دوستی نہ صرف مسلم یا تھرڈ ورلڈ یا عرب ممالک بلکہ یورپین کی بھی مجبوری رہتی ہے چونکہ دنیا کے اپنے اپنے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں سارے عالمی مالیاتی ادارے امریکہ کنٹرول کرتا ہے امریکی نواز ممالک کا میڈیا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی لائن فالو کرتا ہے

امریکن فارن پالیسی پر اس سے زیادہ کیا لکھیں اس پر خود امریکن نے درجن کتابیں لکھی ہوئی ہیں پاکستانیوں کے لئے افغانستان جنگ اور افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد جو بڑا اپ سیٹ ہوا ہے وہ موجودہ رجیم چینچ آپریشن ہے جس کے کئی فیز مکمل ہو چکے ہیں جس پر پاکستان کی بدنصیب عوام کی بے بسی قیادت اور امریکہ کی پاؤر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن جہاں امریکہ کی جانبدارانہ پالیسیوں پر دنیا میں اس کو از خود بہتری لانی چاہیئے وہاں امریکہ سے باہر کی دنیا کو بھی امن کی بحالی اپنے اپنے ملکوں میں جمہوریت خوشحالی رول آف لاء خود انحصاری لانے کی کوششیں جاری رکھنی چاہیئے ناہمواریوں ناانصافیوں کے خلاف اپنے اپنے ملکوں میں پُرامن احتجاج ریکارڈ کرواتے رہنا چاہیئے پرامن احتجاج کی جمہوری معاشروں میں نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اسی تناظر میں وائٹ ہاؤس کے باہر ایک احتجاجی کیمپ لگا ہوا جو امریکہ کے ایٹم بم کے خلاف 41 سالوں سے جاری ہے اب وہاں کل وقتی دھرنے دینے والے کا نام فلپوس ہے جس سے میری ملاقات بھی ہوئی یہ احتجاجی دھرنا 1981 میں ولیم تھامس مرحوم نے شروع کیا تھا جس میں مستقل طور پر بیٹھنے والے سردی اور بیماریوں سے وفات پا چکے ہیں فلپوس کا کہنا تھا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان اور بھارت سمیت جن ملکوں کے پاس بھی ایٹم بم ہیں دنیا کے کے لئے خطرہ ہیں

ہم پاکستانی دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں پہلے تو اپنی گزر اوقات کے لئے سخت محنت مزدوری کرتے ہیں جب وہاں پائوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہوئے گھومتے پھرتے جو کچھ نظر آتا ہے اس کو انجوائے کرنے کے بجائے پاکستان سے موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے خود ہی پریشان ہوتے ہیں اور پاکستان میں رہنے والوں کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان سے باہر لوگ کس طرح رہتے ہیں اس امید پر کہ شاید کچھ ہمارے ملک میں بھی کچھ بدل جائے امریکن پاکستانی جو امریکہ کی شخصی آزادیوں جمہوریت رول آف لاء اور مساوات سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں جب میں نے پوچھا کہ امریکہ غریب ملکوں پر بم کیوں برساتا ہے اقتصادی پابندیاں کیوں عائد کرتا ہے امریکہ دوسرے ملکوں کی حکومتیں تبدیل کرکے باہم قوموں میں خانہ جنگی کیوں شروع کروا دیتا امریکہ کی 80 فیصد آبادی امریکہ کی فارن پالیسی سے لاتعلق کیوں رہتی ہے 85 فیصد آبادی نے امریکہ سے باہر کیوں سفر ہی نہیں کیا بعض سوالوں کے جواب ملے اور بعض سوالوں کے جوابات میں نے خود تلاش کیئے برحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی امریکہ کی فارن پالیسی سے دل سے خوش نہیں لیکن ان کی وفاداری جتنی امریکہ سے ہے اس سے بڑھ کر پاکستان سے بھی ہے سب کا یہی جواب تھا کہ امریکہ کی فارن پالیسی اپنے مفادات کے تحفظ کے گرد کھومتی ہے ہر آزاد ملک کو اپنے مفادات کے تحت اپنی فارن پالیسی اختیار کرنے کا حق ہے

(جاری ہے)

Comments are closed.