کسی بھی ملک کی داخلہ پالیسی اپنی عوام یا قوم کی خوشحالی کے لئے ہوتی ہے اور خارجہ پالیسی اقوام عالم میں عزت و وقار کی ضامن ہوتی ہے امریکہ کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں اسی پس منظر میں ترتیب دی جاتی ہیں یاد رکھیے امریکہ کوئی صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک پوری دنیا ہے اس لئے کہ دنیا کی تمام اقوام امریکہ میں موجود ہیں وہ بھی جو امریکہ کی حامی ہیں یا مخالف ہیں اس کی پچاس ریاستیں ہیں جس بھی ریاست میں جائیں جس بھی شہر میں جائیں آپ کو ہر نسل، قوم ہر مذہب حتیٰ کہ تمام اقلیتوں کے باشندے مل جائیں گے وہ اس لئے کہ امریکن آئین رنگ و نسل کا امتیاز نہیں کرتا یوں کہنا بجا ہوگا کہ امریکہ کے مخالف کم اور حامی زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ عالمی سطح پر اپنی مرضی کی پالیساں بنانے اور نافذ کرنے میں کامیاب ہے داخلی طور پر ہر ریاست کی مقننہ عاملہ اور عدلیہ ہے اور ہر ریاست وفاق یا فیڈریشن میں رہتے ہوئے اپنے الگ قوانین اور ضابطوں پر عمل پہراہ ہے اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام اتنا اعلیٰ ہے کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کو بائی پاس نہیں کرسکتا۔
امریکہ یوں تو دوسرے ممالک کے معاملات میں کھل کر مداخلت کرتا ہے لیکن اپنے ملک میں وفاقی حکومت یا فیڈریشن اپنی کسی چھوٹی سے چھوٹی ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی وائٹ ہاوس واشگنٹن کے سفر کے دوران جہاں میرے ہمراہ کشمیری صحافی خورشید الزمان عباسی تھے وہاں میری ملاقات سابق بیوروکریٹ اور علمی اور تاریخی شخصیت ڈاکٹر اخلاق برلاس سے ہوئی جو اب مستقل طور پر واشگنٹن میں مقیم ہیں میں نے امریکہ کے صدر کے لامحدود اختیارات کے بارے میں جب ان سے استفسار کیا تو انہوں نے بڑی تفصیلات سے بتایا کہ ایگزٹیو برانچ کے تمام اختیارات صدر کے پاس ہیں جو بیک وقت ریاست کے سربراہ اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ہیں صدر کانگریس کی طرف سے لکھے گئے قوانین کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس مقصد کے لیے وفاقی ایجنسیوں کے سربراہان بشمول کابینہ کا تقرر کرتا ہے نائب صدر بھی ایگزیکٹو برانچ کا حصہ ہیں جو ضرورت پڑنے پر صدارت سنبھالنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
صدر کے ماتحت ایگزیکٹو برانچ میں 4 ملین سے زیادہ امریکی ملازم ہیںآئین کے آرٹیکل II کے تحت صدر کانگریس کے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد اور ان کے نفاذ کا ذمہ دار ہے پندرہ انتظامی محکمے ہیں ہر ایک کی سربراہی صدر کی کابینہ کے ایک مقرر کردہ رکن کے ذریعے ہوتی ہے جو وفاقی حکومت کا یومیہ انتظام چلاتے ہیں دیگر ایگزیکٹو ایجنسیوں جیسے سی آئی اے اور ماحولیاتی تحفظ ایجنسی بھی ساتھ شامل ہیں جن کے سربراہ کابینہ کا حصہ نہیں ہیں لیکن صدر کے مکمل اختیار کے ماتحت ہیں صدر 50 سے زیادہ آزاد وفاقی کمیشنوں، جیسے کہ فیڈرل ریزرو بورڈ یا سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ساتھ ساتھ وفاقی ججوں، سفیروں اور دیگر وفاقی دفاتر کے سربراہوں کا بھی تقرر کرتا ہے۔
صدر کا ایگزیکٹو آفس (EOP) صدر کے فوری عملے پر مشتمل ہوتا ہےصدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ یا تو قانون سازی پر دستخط کرے یا کانگریس کے ذریعہ نافذ کردہ بلوں کو ویٹو کرے حالانکہ کانگریس دونوں ایوانوں کے دو تہائی ووٹ کے ساتھ ویٹو کو ختم کر سکتی ہے ایگزیکٹو برانچ دیگر اقوام کے ساتھ سفارت کاری کرتی ہے اور صدر کو مذاکرات اور معاہدوں پر دستخط کرنے کا اختیار ہے جس کی سینیٹ توثیق کرتی ہے صدر ایگزیکٹو آرڈر جاری کر سکتا ہے ایگزیکٹو افسران کو ہدایت کرتا ہے اور دیگر موجودہ قوانین کی رو سے صدر کو وفاقی جرائم کے لیے معافی دینے اور معافی میں توسیع کا اختیار بھی حاصل ہے۔امریکن آئین صدارت کے لیے صرف تین اہلیتوں کی فہرست دیتا ہے صدر کی عمر کم از کم 35 سال ہونی چاہیے صدر قدرتی طور پر پیدا ہونے والا شہری ہونا چاہیے اور کم از کم 14 سال سے مستقل طور پر مقیم ہو اور اگرچہ لاکھوں امریکی ہر چار سال بعد ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں عوام کے ووٹوں کے ذریعے براہ راست منتخب ہوتاہے اس وقت صدر جوزف آر بائیڈن 46 ویں صدر ہیں۔
تاہم وہ صدر کے طور پر خدمات انجام دینے والے صرف 45ویں شخص ہیں۔ صدر گروور کلیولینڈ نے مسلسل دو مرتبہ خدمات انجام دیں اور اس طرح وہ 22ویں اور 24ویں صدر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اب صدر ایک ٹرم میں چار سال کی مدت تک محدود ہے لیکن آئین میں 22ویں ترمیم تک جس کی 1951 میں توثیق ہوئی ایک صدر لامحدود مدت کے لیے کام کر سکتا ہے فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ چار بار صدر منتخب ہوئے جو 1932 سے لے کر 1945 تک اپنی وفات تک اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے روایت کے مطابق صدر اور پہلا خاندان واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس صدر کے اوول آفس کے مقام اور اس کے سینئر عملے کے دفاتر میں رہتے ہیں۔ جب صدر ہوائی جہاز سے سفر کرتا ہے تو اس کے طیارے کو ایئر فورس ون کا نام دیا جاتا ہے۔
صدر ایک میرین کور کا ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر سکتا ہے جسے میرین ون کہا جاتا ہے جب صدر جہاز میں ہوتا ہے تو صدر ایک بکتر بند صدارتی لیموزین استعمال کرتا ہے- وائٹ ہاؤس کے باہر میں جب پہنچا تو میرا دل کررہا تھا کہ کاش کوئی ایسا سبب پیدا ہو کہ امریکن صدر کے ساتھ میری ملاقات ہو جائے اور اسے میں اپنے وطن عزیز کے مسائل بتا سکوں اور ہمارے ہر وطن فروش پٹھو غدار قیادت و حکمران کے بارے میں بتا سکوں یہ بھی بتاوں کہ میرے ملک کے نوجوان کس حال میں ہیں اور اشرافیہ کی اولادیں کس طرح عیاشیاں کرتی ہیں میرا کشمیر کس طرح دو لخت ہے ہم کس طرح 74 سالوں سے منقسم ہیں۔
مجھے ایسا لگا کہ جیسے سارا قصور ہی امریکہ کا ہے لیکن یہ میری بچوں والی خام خیالی جزباتی کیفیت تھی جو صرف وقتی طور پر سوچوں پر محیط تھی میں وائٹ ہاؤس کی دیواروں سے مزید باتیں کرنا چاہتا تھا گلے شکوے کرنا چاہتا تھا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اندر ہی اندر جزباتی ہورہا تھا جیسے اس سُپر پاور کا ہی سارا قصور ہے لیکن اسی اثناء میں میرے ساتھیوں خورشید عباسی اور ڈاکٹر اخلاق برلاس کی سردی سے قلفی بن گئی تھی پھر واشنگٹن میں عباسی ریسٹورنٹ میں پڑاو اور پائے کھانے سے ہماری سردی کا بندوبست تو ہوگیا پھر یہاں سے کشمیری ڈائسپورہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تو یہ جان کر ورطہ حیرت میں پڑ گیا کہ کشمیر پر پسپائی کے کیا محرکات بنے
(جاری ہے )
Comments are closed.