امریکہ کے سفر کا احوال (قسط 3)
(جناح اور کشمیر)

108

امریکہ میں جتنے بھی کشمیریوں اور پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی وہ اس بات پر تو انتہائی خوش تھے کہ امریکہ میں وہ آسودہ حال ہیں انہیں وہاں ملازمتوں اور کاروبار کے یکساں مواقع ملے ہیں اور انکی اولادیں بھی اعلیٰ تعلیمافتہ ہیں جو سرکاری اور نجی محمکوں میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں ہر کوئی اپنی اپنی اولاد کی تعلیمی کارگردگی اور اسناد کی تعریف کرتا ہوا خوش دکھائی دیا اسی تناظر میں ایک اہم واقعہ کہ شگاگو اوک بروک میں مقیم کشمیر سالیڈیرٹی کونسل کے چئیرمین جاوید راٹھور جن کا ماضی میں تعلق پیشہِ صحافت سے رہا ہے اور وہ اب بھی کشمیر اور پاکستان سمیت عالمی حالات پر مخلتف ٹی وی چینلوں پر تجزیہ نگار کی حیثیت سے اپنی تجزیاتی رائے دینے کے لیے مشہور ہیں ۔

انہوں نے اپنے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا تو ممتاز بزنس مینوں سید علی نقی سہیل خان ڈاکٹر صفدر علی سمیت پاکستان کے قونصل جنرل طارق بشیر سے بھی میری ملاقات ہوئی میں نے ان بزنس مینوں کو جہاں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سسکتی اپوزیشن کے بغیر جمہوریت اور ڈوبتی ملکی معیشت پر سخت پریشان پایا وہاں ممتاز ہارٹ سرجن ڈاکٹر صفدر علی نے باتوں ہی باتوں میں مجھے بتایا کہ ماشاءاللہ انکی بیٹی کا لگائو دین اسلام سے زیادہ ہے انہوں نے بتایا کہ کسطرح عربی اور قرآن مجید کی تعلیم انکی بیٹی نے حاصل کی ڈاکٹر صفدر علی میری زندگی میں شاید واحد باپ ہوں گے جنہوں نے اپنی بیٹی کی دنیاوی نہیں بلکہ مذہبی تعلیم اور اچیومنٹ فخریہ انداز میں بیان کی امریکہ سے باہر لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو مزیبی آزادیاں نہیں ہونگئیں لیکن حقیقت حال اس سے برعکس ہے بڑی بڑی مساجد اسلامی سینٹرز اسلامی سکولز موچریاں اور مسلمانوں کے قبرستان موجود ہیں جہاں کسی بھی اسلامی ملک کی طرح ہر مکتبہ فکر کو اپنے اپنے عقائد مزہب و مسلک کے تحت عبادات کی مکمل اجازت ہے نوجوان نسل کے لئے جمعہ کے خطابات انگریزی میں ہوتے ہیں جو رٹی رٹائی ہمارے علمائے کرام کی تقریروں کے برعکس باقاعدہ ریفرنس کے ساتھ اپنے جمعہ کے خطابات تیار کرتے ہیں امریکہ میں اسلام تیزی سے پھیلتا ہوا دین ہے میری اس حوالے سے ہمیشہ ایک ہی رائے رہی ہے اگر بچوں کو اپنے دین پر چلانے کی کوشش بچپن سے ہی والدین خود عمل کرتے ہوئے کریں اور بچوں کو تعلیم و تربیت کے لئے وقت دیں تو بچے بھی دین پر چلتے ہیں نتیجہ سو فیصد نہ سہی یورپ امریکہ میں ان ہی لوگوں کی اسلامی شناخت باقی رہ سکتی ہے جو خود دین پر چلیں تاکہ یہ سلسلہ نسلوں تک منتقل ہو وگرنه صرف ناموں کا فرق ورق ہوگا جو زیادہ دیر چلنے والا نہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے مسلمانوں میں شادیاں کریں پھر ہماری آئندہ نسلیں بھی مسلمان ہوں تو خود انفرادی طور پر دین اسلام پر چلنا ہوگا ۔

عبادت کے ساتھ ساتھ خود بھی رزق حلال کھانا اور بچوں کو بھی رزق حلال کھلانا ہوگا برحال یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلمان مسجد میں جانے کا امریکہ میں باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں یہاں نصحیت کے طور پر ایک بات لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے ایک دوست حاجی محبوب نے مجھے بتایا کہ انکے ضلع میں ایک مولوی صاحب جب کوئی میت مسجد میں جنازے کے لئے لائی جاتی تھی تو وہ اعلان کیا کرتے تھے اور لوگوں سے پوچھتے تھے کہ کوئی شہادت دے سکتا ہے کہ مرنے والا یہ شخص جس کی یہ میت ہے یہ بھی جب زندہ تھا تو مسجد میں جمعہ نماز یا کوئی بھی نماز یا کسی کی نماز جنازہ پڑھنے آتا تھا یا اس نے کسی کی میت کو کبھی غسل دیا ہو جب کوئی شہادت نہ ملتی تو مولوی صاحب پوچھتے تھے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے احساس دلانے کے لئے پوچھتے تھے ہونا تو پھر یہ چاہیئے کہ اس کی میت کو کھڈے میں ڈال دینا چاہئے لیکن مولوی صاحب ایسا نہیں کرتے تھے بس احساس ہی دلاتے تھے برحال امریکہ میں لوگوں کی دین سے رغبت کے ساتھ ساتھ رکھ رکھاؤ اور عزتوں اور محبتوں والا اسلامی روایات اور ہمارا پاکستانی کلچر دیدنی ہے ۔

واشنگٹن ائیرپورٹ سے مری لینڈ جانے کے لئے جب مجھے خورشید زمان عباسی صاحب نے پک اپ کیا تو انکے بچوں نے سفر کے دوران دو بار فون کیا گھر پہنچنے پر تینوں بچوں نے دروازے پر پُرجوش استقبال کیا امریکن نژاد کشمیری بچوں کا اس طرح کا سلوک دیکھ کر ایسا لگا جیسے میں مظفرآباد کے کسی گاوں میں آگیا ہوں ماں باپ کی ایسی تربیت کھانا ایک ساتھ کھاتے موبائل کو ایک دفعہ ہاتھ نہیں لگایا ٹی وی تین دنوں میں ایک دفعہ آن نہیں کیا اردو گوروں کی طرح بولتے سُن کر میں نے انکی سہولت کے لئے انگریزی میں بات کرنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن انہوں نے اردو میں ہی بات چیت جاری رکھی میں آخری روز جب رخصت ہونے لگا تو ہم آپس میں خاصے ایک دوسرے سے مانوس ہوچکے تھے میری اگلی منزل ورجینیا تھی جو واشنگٹن ڈی سی کے قریب ہی ہے یہاں میری ملاقات کشمیری حریت پسند لیڈر ڈاکٹر غلام نبی فائی اور سردار ظریف سے ہوئی ڈاکٹر غلام نبی فائی کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے اور دو دھائیوں سے زائد عرصے سے امریکہ میں مسئلہ کشمیر کے لئے ہر پلیٹ فارم پر متحرک ہیں۔

میرا سوال امریکہ میں کشمیری لیڈروں سے ایک رہا ہے کشمیر کے حوالے سے بھارت کے مقابلے میں ہماری امریکہ میں سفارت کاری کیا ہے امریکہ کا مسئلہ کشمیر پر کردار کیا ہے کیا پاکستان کے موجودہ حالات سیاسی عدم استحکام اور سکڑتی معیشت کی وجہ سے کشمیر کسی جگہہ ڈسکس ہوتا نظر نہیں آتا یا کوئی اور وجہ ہے جاوید راٹھور ہوں غلام نبی فائی ہوں نیویارک میں مقیم پروفیسر رفیق بھٹی یا جے کے ایل ایف کے مختار احمد ہوں یا صحافی حفیظ کیانی یا ڈاکٹر اخلاق برلاس ہوں سب بھارت کی کشمیر پر ظالمانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کی مزمت کرتے نظر آئے تو دوسری طرف پاکستان کی کشمیر پالیسی کو فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جبکہ پاکستان کے سیاسی معاشی عدم استحکام کو کشمیر کے لئے سخت نقصان دہ قرار دیا میرا امریکہ میں مقیم کشمیری ڈائسپورہ کو ہر جگہہ یہی مشورہ رہا ہے کہ مل جل کر کشمیر کے مسئلے کے لئے ہمیں تگ دو کرنی چاہیے نیویارک اور شگاگو دونوں جگہوں پر سڑکوں کے نام جناح ایونیو پر جاکر حیرانگی ہوئی کہ بابائے قوم محمد علی جناح سے لوگ اتنی محبت کرتے ہیں کہ ہر کوئی نام کی وجہ سےان ہی سڑکوں پر کاروبار کرنا چاہتا ہے لیکن قائد کے پاکستان کے اندر یہی امریکن پاکستانی مشکلات کی وجہ سے کاروبار نہیں کرسکتے

(جاری ہے )

Comments are closed.