شراب پینے میں بڑا گناہ ہے

0 272

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے اسپتالوں میں مقیم ملزموں کے کمروں پر چھاپے مارے کلفٹن میں واقع ڈاکٹر عاصم کے ضیاء الدین اسپتال میں زیر علاج پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کے کمرے پر چھاپے کے دوران وہاں سے شراب کی بوتلیں اور منشیات برآمد ہوئیں، چیف جسٹس نے شراب کی بوتلوں کی تصاویر بھی بنائیں شرجیل میمن کو مارچ 2017 میں لندن کے ایک شراب خانے سے شراب پی کر باہر نکلنے پر نامعلوم نوجوانوں نے انکی شراب پیتے ہوئے نہ صرف ویڈیو بنائی تھی بلکہ خاصا پریشان بھی کیا تھا ویڈیو ابھی تک یو ٹیوب پر موجود یے شرابی کی زندگی کے لئے یہ معمولی بات ہے پاکستان یا اسلامی ممالک میں شراب کا نشہ کرنے والوں کو نہ صرف برا سمجھا جاتا ہے بلکہ شرابی سے میل جول، تعلقات اور لین دین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر پاکستان کی اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس شراب پینے والے کو پروگرسیو اور ترقی پسند ماڈرن سمجھتے ہیں پہلے یہ شغل سیاستدانوں، بیوروکریٹس کا ہوتا تھا پھر اس میں اداکار، فن کار بھی شامل ہو گئے اب ہمارے میڈیا میں بھی شراب کلچر عام ہے اور جو لوگ شراب پیتے ہیں اور نہ پینے والے کونفرت اور اس کے خلاف بات کرنے والے کو پسماندہ اور محدود سوچ وفکر کا آدمی سمجھا جاتا ہے قرآن مجید فرقان حمید کی
سورت البقرۃ، آیت نمبر 219​ میں
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ :-
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ

اے نبی لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بہت بڑا گناه ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائده بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناه ان کے نفع سے بہت زیاده ہے۔
سورت النساء آیت نمبر 43 میں آتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔
مسلمان ہوتے ہوئے شراب پینے کا معاملہ قرآن پاک کے حکم کو نعوذباللہ نہ صرف جھٹلانا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لیتا ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد ،عورت، بوڑھے اور جوان کے لئے ضروری ہے۔
جن ہمارے پاکستانی مسلمانوں کو شراب کے نشے کی لت لگ گئی ہے وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ان کا زاتی معاملہ ہے اور اس کا جواب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خود ہی دینا ہے مغربی ممالک میں شراب خانے اور شرابی عام ہیں یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے اس معاشرے میں شراب کی وجہ سے اخلاقی، معاشی قانونی اور سماجی طور پر بہت ساری برائیوں نے جنم لے رکھا ہے اکثر لڑاییاں شراب کی وجہ سے ہوتی ہیں شرابی آدمی ہر روز شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں
شراب پی کر گاڑی چلانے سے شرابی اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتا ہے میرے ساتھ خود اسی طرح کا حادثہ پیش آیا تھا جب میری کار کو ایک ڈرنک لاری ڈرائیور نے پیچھے سے ٹکر مار دی تھی جس کو بعد میں جیل ہوگئی تھی برطانیہ و یورپ میں الکحول اور نشے سے دھت لوگ یا تو خود تشدد کا شکار ہوتے ہیں یا دوسروں پر تشدد کرتے ہیں اکثر خاندانی نظام کی تباہی میں شراب کے نشے کا بڑا عمل دخل ہے سڑکوں پر اکثر نشے میں دھت لوگ سڑکوں پر گر کر زخمی یا مر جاتے ہیں ہر ویک اینڈ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو صرف لندن میں شرابیوں کی وجہ سے سینکڑوں حادثات ہوتے ہیں ہسپتالوں ایمرجینسی سروسز میں رش بڑھ جاتا یے
شراب کے نشے کے عادی لوگ اپنی صحت کے ساتھ بھی کھلواڑ کرتے ہیں زیادہ دیر تک نشہ کرنے والا شخص جگر کے عارضے میں مبتلا ہوجاتا ہے جبکہ اس کا دماغ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے مجھ پر یہ حقیقت سن 2001 میں آشکار ہوئی جب مجھے پاکستان سے برطانیہ واپسی پر ہیپاٹائٹس ہوا تھا اور میرا علاج لندن کے رائل فری ہسپتال میں کیا گیا تھا اس ہسپتال میں زیادہ تر مریض جگر کے عارضے میں مبتلا تھے ہیپاٹائٹس بھی جگر کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ شراب کے عادی شخص پر بیماری کی حالت میں دوائیاں بھی اس طرح اثر انداز نہیں ہوتیں جسطرح شراب نہ پینے والے شخص کے جسم پر کام کرتی ہیں مغربی معاشرے میں جو شخص شراب کا نشہ نہ کرے اسے اچھا سمجھا جاتا ہے اور یہ ایک خوبی سمجھی جاتی ہے
مجھے اندازہ ہے کہ اس کالم سے مجھے بہت برا بھلا کہا جائے گا لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں جس دن صحافت میں حق و سچ کی بات میں نے کرنی چھوڑ دی میری صحافت کا وہ آخری دن ہوگا
بعض ہمارے لوگ شراب پینے کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے دوائی کیطور پر استعمال کرنے کا کہہ رکھا ہے
ہمارے پہلی نسل جو برطانیہ میں 1950 کے بعد یہاں آئی اس سے متعلق بہت سارے لطیفے اور کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن ایک سچا واقعہ بیان کرنا شاید مناسب ہوگا میرے ایک بزرگ جو اس دنیائے فانی سے پردہ فرما گئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ جب برطانیہ مزدور بن کر آئے تو پیٹربراء کی ایک فیکٹری میں انہیں کام ملا جب کہ رہاہش باقی ایک درجن ساتھیوں کے ساتھ تین کمروں کے ایک گھر میں ملی تھی ہر روز فیکٹری میں کام کرنے کے بعد ان باقی ایک درجن لوگوں میں جب وہ شام کو اپنی رہاہش گاہ پر واپس لوٹتے تو ان میں سے ایک شخص جس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا وہ ان میں سے قدرے پڑھا لکھا تھا روازانہ ایک ڈبہ لے آتا اور پی کر سو جاتا باقی ایک درجن افراد اس سے روزانه پوچھتے کہ یہ تم کیا پیتے ہو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ایک دن تنگ آکر اس نے انہیں بتایا کہ فیکٹری میں چونکہ دھول زیادہ ہے اس لئے وہ ایک ڈبہ دھول کی دوائی کیطور پر پیتا ہے اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ دراصل شراب پیتا ہے پھر اس نے سب کو کافی عرصے تک ایک ایک ڈبہ دھول کی دوائی بتا کر شراب پلائی اسی دوران ایک شخص کی کسی وجہ سے موت واقع ہوگئی تو باقی سب نے موت کا سبب جب جاننا چاہا تو اس شخص نے باقی سب کو بتایا کہ اس کی موت کا سبب فیکٹری کی دھول ہے لہذا آج کے بعد دو دو ڈبے پئیو کافی عرصے تک وہ سب انجانے میں شراب دھول کی دوائی سمجھ کر پیتے رہے
میرے اس بزرگ دوست کو اپنی عمر کے آخری وقت تک انجانے میں فیکٹری کے دور میں شراب کے ڈبے پینے پر پچھتاوا رہا وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہے

کاش کوئی ایسا سسٹم بھی سانئس میں ایجاد ہو جائے کہ غریبوں کا خون چوسنے والے ہمارے حکمرانوں کا ڈی این ٹیسٹ یا لیب ٹیسٹ کیا جاسکے

Leave A Reply

Your email address will not be published.