2008 میں عالمی طور پر اقتصادی بحران آیا اور دنیا کی تیز رفتار چلتی ہوئی ترقی اور معیشت کا پہیہ اچانک ُرک گیا جسے کریڈٹ کرنچ کا نام سے یاد کیا جاتا ہے بینکوں نے آدھار دینا بند کردیا
بے روزگاری بڑھنے لگی برطانیہ کی حکومت نے پولیس اور دوسرے محکموں میں نوکریوں میں کٹوتیاں شروع کردیں کمیونٹی سروسز کے لئے دی جانے والی گرانٹس بند ہوگئی اس کا اثر پورے ملک پر پڑا میں بھی ان متاثرین میں شامل تھا میں ہر روز صبح سویرے اپنی والدہ کو پاکستان فون کیا کرتا تھا حسب معمول ایک دن فون کیا حال احوال پوچھنے کے بعد اپنا کریڈٹ کرنج والا دکھڑا سنانا شروع کردیا نوکریاں نہیں رہی پیٹرول مہنگا ہوگیا ہے کمائی نہیں ہو رہی ہے، وغیرہ وغیرہ ماں جی پوری بات غور سے سننے اور سمجھنے کے بعد جواب دیتی تھیں میری بات ختم ہوئی تو ماں جی نے پنجابی میں کہاوت بیان کی ” بیٹا رنڈیاں وی رو رہی ہیں اور سہاگناں وی ۔ یعنی بیوہ عورتیں بھی رو رہی ہیں اور سہاگن بھی- بیٹا تُو ولایت میں رہتے ہوئے اپنی مشکلات بیان کررہا ہے تو ہم پاکستان والے ہم اب کیا بیان کریں ماں جی 2014 میں انتقال کرگئیں تو اس دن کے بعد ایسا لگتا ہے سب رشتے جیسے بناوٹی ہوں اپنا اب جیسے کوئی نہ ہو برطانیہ میں کرونا وائرس کی وجہ سے قومی سطح پر مکمل سخت لاک ڈاؤن ہے ہر طرف موت کا راج ہے ایک ایک دن میں پندرہ پندرہ سو تک اموات ہورہی ہیں نہ کسی کے جنازے میں جاسکتے ہیں نہ کسی کے گھر جانے کی اجازت ہے کہا جارہا ہے کہ نئی وائرس سے ہر تیس میں سے ایک فرد اس کا شکار ہے کون کرونا سے فوت ہو رہا ہے اور کون کس مرض سے جہان فانی کو چھوڑ رہا ہے یہ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے ہسپتالوں میں ایمرجنسی ہے نیشنل ہیلتھ سروسز کا عملہ ایسے جان پر کھیل کر دن رات کام کر رہا ہے کہ جزبہ انسانیت دیکھنی ہو تو یہاں رشک آتا ہے کوئی سیاہ فام ہو یا سفید دیندار ہو یا لادین بوڑھا ہو یا جوان عورت ہو یا مرد یہاں انسانیت ہی بس ان ڈاکٹروں کے پیش نظر ترجیح ہے میری ساری دعائیں ان ڈاکٹروں اور نرسوں اور ایمبولینسز کے سٹاف کے لئے ہیں جو دن رات لوگوں کو بچا رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے جیسے جنگ ہو رہی ہو اور لاشیں اور زخمی ہسپتالوں میں لائے جاریے ہوں اگر جنت واقعی ہی ساری مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے تو نجانے ان ڈاکٹروں اور میڈیکل کے عملے لئے اللہ میاں کے پاس کیا انعام ہے یہ انسانی مسیحا کہاں جائیں گے
ہمارے پاکستانی اور کشمیریوں کی یہاں بڑی تعداد بھی کرونا سے وفات پا رہی ہے دائیں بائیں اموات ہو رہی ہیں ایسے میں بھی پاکستان میں مقیم دوست و احباب اور خاندان کے لوگ اتنے بے حس ہیں کہ از راہ دنیا داری بھی ہمارا حال تک نہیں پوچھتے یہ شکایت ہماری طرح اکثر پاکستانیوں کو ہے گزشتہ روز ایک صاحب مختلف جو ٹی وی چینلوں پر بڑے صاحب بن کر ایک ایک دو دو ماہ گھومتے رہتے ہیں نہ اردو لکھ سکتے ہیں نہ انگریزی میں کچھ سمجھا سکتے ہیں اب پتہ نہیں کس ٹی وی چینل پر ہیں گزشتہ روز انہوں نے مجھے ایک پیغام بیجھا نہ سلام نہ دعا نہ پیغام. کاش میں انکا یہاں پیغام شئیر کرسکتا کچھ اس طرح کا تھا "وٹ دی نیوز نواز حسن حسین” جملہ مکمل ہے
میرے ایک دوست لندن میں ہوتے ہیں اللہ نے انہیں بہت کچھ دے رکھا ہے اسی طرح دل کے سخی بھی ہیں کسی کی مدد کرتے ہیں بتاتے نہیں گزشتہ روز انہوں نے مجھے فون کیا تو بہت غصے میں تھے کہنے لگے ایک شخص کی میں ہر دفعہ نئی ڈی مانڈ پوری کرتا ہوں کبھی سپانسر بھیجو کبھی مکان کی دیوار گر گئی کبھی رنگ کروانا ہے کبھی چچا کی سالانہ نیاز کروانی ہے کبھی کہتا ہے کہ میری بیوی کے پھوپھا کی بیٹی کی شادی کرنی ہے مدد کرو اب میں اس کو کبھی پیسے نہیں بیجوں گا میں نے جواب دیا میرے دوست یہ شکایتیں یہاں رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے عام ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ وصولی کے بعد شکریہ بھی ادا نہیں کرتے۔ برطانیہ میں بالخصوص اور یورپ میں ہمارے حالات واقعی بہت خراب ہیں اور بڑی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں کرونا سے حالیہ دنوں میں فوت ہونے والوں میں مسلم کانفرنس کے چیف آرگنائزر راجہ اسحاق خان بھی ہیں جو دراصل کشمیر کا جھنڈا تھامے ہر جگہہ موجود رہتا تھا نہ ذاتی پبلسٹی کا شوقین تھا نہ کشمیر کے لئے کام کرنے کے لئے مال و جائیداد بنانے کی فکر میں ہوتا تھا نہ قبیلائی اور علاقائی تعصب کو خاطر میں لاتا ہے پیٹربراء کے سابق کونسلر زاہدؔ حسین بھی داعی اجل کو روانہ ہوگئے ہیں جو پاکستانیوں کو سیاست اور بزنس میں لانے کی ترغیب دیتے رہتے تھے 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے ایا تو انہوں نے زلزلہ زدگان کی مدد کے جان لڑا دی لندن میں ہی مسلم کانفرنس کے صدر ٹھیکدار چوہدری ریاض بھی بچھڑ گئے نیک انسان تھے جو الحسن کالج رٹہ ڈڈیال کی کل وقتی مدد کرتے تھے بریڈفورڈ میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کے دیرینہ ساتھی عبدالواحد بھی چل بسے والسال کے عبدالخالق قادری کا بیٹا بھی باپ کو روتا چھوڑ گیا جموں کشمیر کے رہنما ایوب راٹھور بھی متحرک انسان تھے جوانی اور خوبصورتی اس شخص کے لئے ہی جیسے تھی کرونا کا شکار ہوئے بڑے بڑے قیمتی افراد پاکستان اور کشمیر کے بلامعاوضہ سپاہی اس جہان فانی سے کرونا کی وباء کا شکار ہوئے یا کرونا میں کنفرم نہ سکا کہ موت کی وجہ کیا بنی اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے صدقے مغفرت فرمائے آمین
آخر میں اپنی کرونا پر لکھی ہوئی ایک نظم جو لندن کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے پیش خدمت ہے۔
وہ مہکتی دہکتی پری زادیاں
من کے مندر میں بیٹھی ہوئی دیویاں
نرم و نازک حسین جیسے شہزادیاں
زندگی آج ہے ان پہ بار گراں
الحفیظ الامان الحفیظ الامان
مسکراہٹ لبوں پہ نہ مسکان ہے
نہ بناوٹ سجاوٹ کا سامان ہے
نہ کہیں آنے جانے کا امکان ہے
منہ پہ پردہ کئے قید ہیں بے زباں
الحفیظ الامان الحفیظ الامان
بند ہیں مہ خانے ٹوٹے ہوئے ہیں سبو
شہر میں ہر طرف عالم حق و ہو
معبدوں میں ہے اک بے بسی کا سماں
الحفیظ الامان الحفیظ الامان
چین سے آٹھی یہ اچانک کیا بلاّ
پوری دنیا میں پھیلی ہوئی وباء
نہ دوا کارگر ہے کوئی نہ دعا
موت پھیلی ہوئی ہے یہاں اور وہاں
الحفیظ الامان الحفیظ الامان
پھر بھی شیراز انسان بدلے نہیں
دیکھ کر بھی اس بلا کو سنبھلے نہیں
ذہن سلجھے نہیں من بھی آجلے نہیں
ہر طرف آگ ہے ہر طرف ہے دھواں
الحفیظ الامان الحفیظ الامان