سردار تنویر الیاس کو آزادکشمیر کے معاملات سونپے جارہے ہیں تفصیلات کے مطابق رواں سال آزاد کشمیر میں الیکش کا سال ہے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ حسب سابق وفاق میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت آزاد کشمیر میں وہی کھیل کھیلے گی جو ماضی میں فوجی یا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں کھیلتی چلی آرہی ہیں پی ٹی آئی کو بھی وہی آزمودہ چورن دستیاب ہے یعنی نئی بوتل میں پرانی شراب ۔ اس وقت بظاہر بیرسٹر سلطان محمود پی آئی آئی کے صدر ہیں لیکن ان کی ڈوری اسبشلمنٹ کے کچے پکے دھاگے کے ساتھ نتھی ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی پارٹی کے ساتھ وفاداری جس طرح پیپلزپارٹی میں ہوتے ہوئے فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے لئے مشکوک تھی ویسے ہی پی آئی آئی کے اندر مشکوک سمجھی جاتی ہے۔
وفاقی وزیر علی آمین گنڈا پور سیف اللہ نیازی، راجہ مصدق اور چوہدری عبدالحمید پوٹھی اور دوسرے پی آئی آئی میں شامل افراد بیرسٹر سلطان محمود سے اختلاف رکھتے ہیں بیرسٹر سلطان محمود ان افراد کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن جلتی پر تیل معروف بزنس مین سردار تنویر الیاس کی وجہ چھڑکا گیا جب انہیں حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کروائی گئی اس ملاقات میں علی امین گنڈا پور اور سیف اللہ نیازی شامل تھے اطلاعات کے مطابق سردار تنویر الیاس کو پی آئی آئی آزاد کشمیر کے معاملات سونپے گئے ہیں یا یوں کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سردا تنویر الیاس کی آزاد کشمیر میں حیثیت ڈیفکٹو پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے صدر کی جیسی نظر آ رہی ہے اس ملاقات کی حدّت بیرسٹر سلطان محمود نے شدت سے محسوس کی ہے انہوں نے آج 17 جنوری کو آزاد کشمیر یا پاکستان کے اخبارات میں یہ خبر چلوا دی کہ بیرسٹر سلطان محمود کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے 45 منٹ تک ملاقات ہوئی ہے آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق آئی ایس پی آر نے ابھی تک نہیں کی ایسا نہیں ہوسکتا کہ آرمی چیف سے کسی سابق آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی ملاقات ہو اور آئی ایس پی آر خاموش ہو ہاں البتہ یہ ملاقات کسی راہداری میں ہوئی ہو اور خبر چل گئی ہو تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ہاں البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈی جی ایس پی آر اس کی تصدیق کرے میں نے اپنے زرائع سے اس کو چیک کیا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی جی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے دو روز قبل اپنی پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود کو یہ خبر شائع کروانے یا اس ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی شاید اسی لئے کہ آزاد کشمیر کے معاملات سے انہیں سردار تنویر الیاس کی صورت میں مداخلت کا اندیشہ ہے میں نے دوسال پہلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ آزاد کشمیر میں بیرسٹر سلطان محمود کی پچھلی کارکردگی دیکھتے ہوئے ضروری نہیں کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ہی آزاد کشمیر کے آئیندہ وزیراعظم بن جائیں اگر مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم رہی تو کوئی اور دوسرا سردار عثمان بزدار بھی تلاش کیا جاسکتا ہے اب یہی لگتا ہے کہ وہ دوسرا سردار عثمان بزدار سرادر تنویر الیاس ہے جو کشمیری ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا بزنس مین ہے اور سنٹورس اسلام آباد کا مالک ہے کئی پراپرٹیز اور سوسائٹیوں کا مالک ہے اور تعلق بھی اکثریتی قبیلے سے ہے یہ بات کنفرم ہوچکی ہے کہ آزاد کشمیر پی ٹی آئی میں مری فیکٹر ایک علیحدہ پوزیشن رکھتا ہے وہاں کی سیڑھیاں چڑھنے والے نامراد نہیں لوٹتے ہیں البتہ ایک دفعہ مراد پالینے کے بعد پھر زندگی اسی کے سہارے سہانے خواب آنکھوں میں لئے ہوئے اقتدار کے جھولے پر جھولتے رہتے ہیں مجاہد اول سردار عبدالقیوم کہا کرتے تھے کہ ہمارے خطہ زمین پر اقتدار اسی کو ملتا ہے جو آگ اور خون کے دریا عبور کرنے کی سکت رکھتا ہو اب یہ آگ اور خون کے دریا ترازو میں نوٹوں کی بوریاں بھر کر ادا کرنے پڑتے ہیں یا بوٹ پالش کرنے سے – برطانیہ اور یورپ میں آباد کشمیری اپنے حلقوں کے امیدواروں کو جتوانے کے لئے یہاں سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اس سال کرونا کی وجہ سے مندی کا رحجان ہے شاید اس دفعہ جماعت اسلامی کے سابق امیر عبدالرشید ترابی کو پھر شکوہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو ہمیشہ مجھے شکوہ کرتے ہیں کہ برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں آباد کشمیری آزادکشمیر کے الیکشن کے الیکشن میں برادریوں اور حلقوں کی بنیاد پر فنڈنگ کرکے آزاد کشمیر کے انتخابی نظام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کرپشن کرتے ہیں اور حقدار کا حق مار دیتے ہیں بے روزگاری زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید اس دفعہ برطانیہ کے کشمیری زیادہ فنڈنگ نہ کر سکیں باقی پھر سہی خوش رہیں۔